یہ کتاب فدا حسین ملک نے لکھی اور لا ئیٹ سٹون پبلشر نے 2020 میں شائع کی ،مصنف پاکستان فوج میں میجرجنرل کے عہدے پر فائز ہیںاور 2018 سے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹرائن اینڈ ایوے لوشن ( Director- General Doctrine and Evaluation)کی پوسٹ پر کام کر رہے ہیں۔انہوں نے بلوچستان میں سکول آف انفینٹری اینڈ ٹیکٹکس(School of Infantry and Tactics )میں چیف انسٹریکٹراور بر گیڈئیر اپریشن اینڈ پلانز جنوبی کمان ہیڈ کوارٹر کوئٹہ میں کام کیا۔ مصنف نے اپنی کتاب میں بلوچ نیشنلزم ،بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت اور موجودہ شورش (Insurgency ) پر روشنی ڈالی ہے۔
بنیادی طور پر انہوں نے موجودہ انسرجنسی کی وجوہات اور ایک مستقل حل پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے ۔ اسلامی نظریہ(Islamic idiology )کے بارے میںانکا خیال ہے کہ ایسے علاقہ میں جہاں بہت سے نسلی گروہ آباد ہوں اور انکا مذہب ایک ہو، وہاں مذہب کی بجا ئے نسلی تقسیم زیادہ اہم ہو تی ہے ۔ مذہب کے نام پر ایسے گروہوں کو مطمئن کرنامشکل ہو تا ہے۔اس وقت انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف علاقوں کے بلوچ ایک دوسرے کے زیادہ نزدیک آگئے ہیں۔آج ریاستوں کی سر حدیں نہ صرف طبعی(Physically )بلکہ سوچ(Cognitive ) کے لحاظ سے بھی پورس(Permeable ) ہورہی ہیں۔
اس لیے بلوچ اپنے اور دوسروں کے ما بین فرق کو سمجھنے لگے ہیں۔موجودہ انسر جنسی پانچویں انسر جنسی ہے اور دودہائیوں سے جاری ہے مصنف کے خیال میں کئی لحاظ سے اسے ایک عام شورش کہا جا سکتا ہے لیکن حکومت کو سوچنی چا ہیے کہ ایک لمبی اور سلگتی (Simmering)ہوئی تصادم حب الوطنی(Nationhood ) کے لیے ایک بڑی چیلنج ہو سکتی ہے۔اس شورش سے حقیقی خطرہ اسکی طوالت اور سلگتی انتشار (Simmering state of divergence )کی کیفیت سے ہے جوسیاسی اور اس سے متعلقہ سماجی اخلاقی روایتوں کے زوال کا باعث بنتا ہے۔
چنانچہ ایک ’’طویل عدم اتفاق ،، حقیقی خطرہ ہے نہ کہ شورش پسندوں کی اکادکا کامیابیاں۔اس شورش سے نبرد آزما ہونے کے لیے پاکستان کی فیڈرل اور صوبائی حکومتوں کو چا ہئے کہ منفرد طرزعمل اختیار کریں ۔(To espouce an exceptional approach ) ۔تزویراتی (Strategic ) لحاظ سے بلوچستان بہت اہم ہے ۔یہ سٹریٹ آف ہرمز سے سنٹرل ایشیائی ملکوں کو جنوبی ایشیا اور مڈل ایسٹ سے ملاتی ہے۔مستقبل کا تاجکستان،افغانستان ، پاکستان اور انڈیا(TAPI ) اور ایران پاکستان اور انڈیا(IPI ) گیس پائپ لائن بلوچستان سے گزرتے ہیں۔
بلوچستان تیل اور گیس اور دیگر معدنی ذخائر سے مالا مال ہے۔گوادر پورٹ اور چین پاکستان اکنامک کاریڈور(CPEC ) نے اسکی اہمیت اور بڑھادی ہے۔مصنف کے مطابق امریکہ ،چند یورپی ممالک اور انڈیاگوادر میں چین کی موجودگی کو اسکی ’’موتیوں کی مالا‘‘ (String of pearls )کی سٹریٹیجی(Strategy ) کے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں۔وہ گوادر میں چین کی موجودگی کوبحر ہند اور سٹریٹ آف ہر مز سے تیل کی ترسیل کے لیے ایک مستقل خطرہ سمجھتے ہیں ۔بلو چستان میں استحکام (Stability )اہم بین الاقوامی، علاقا ئی اور مقامی مسائل سے جڑاہواہے۔
قابل اعتبار رپورٹس ہیں کہ سی ۔آئی۔ اے ( CIA ) اور دوسری دشمن ایجنسیاں بلو چستان میں مدا خلت کر رہی ہیںاور با غیوں کی مدد کر رہی ہیں ۔یہ ایجنسیاں پا کستان کی خارجہ پا لیسی اور تزویراتی اولیت (Strategic priorities ) کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔مصنف کے مطابق جب تک یہ طاقتیں ملوث ہیںشورش چلتی رہے گی۔ایسے حالات میں گوادر میں سرمایہ کاری اور صوبے میں معدنیات کی تلاش مشکل ہے۔ اگر پاکستان توانائی کی تلاش میں علاقائی کھلاڑیوں سے مقابلہ میں سنجیدہ ہے تو اسے جلد اپنے اندرونی سیاسی اور سلامتی (Security ) کے مسائل کوحل کر نا ہوگا۔
علاقائی اور عالمی دشمن قوتوں کی توڑ کے لئے بلوچوں کے ساتھ ایک جامع امن بات چیت شروع کر نی چایئے۔امن بات چیت ’’ مصا لحتی گرینڈنیشنل ڈائیلاگ‘‘ (Reconciliation Grand National Dialogue ) سینئر پار لیمنٹیرینز(Senior Parliamenterians )کی ایک کمیٹی کی سربراہی میں ہو۔اس سے پہلے عام معافی کا اعلان ہو۔اس بات چیت میں تمام متعلقہ لوگ (Stake Holders )جس میں سخت موقف رکھنے والے اور مرضی سے جلا وطن بھی شامل ہوں ۔یہ ڈائیلاگ کھلی میڈیا(Open media )میں ہوں اور سب کو ایک کھلا ماحول (Candid enviroment )مہیا کی جانی چا ہیے۔
جہاں قومی استحکام اور تعمیر نو کے لیے ہر کوئی بے تکلفی اور صاف گوئی سے اپنے خیالات کا اظہار کرے۔یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ مخلصی اور ایمانداری کا مظاہرہ کرے اور ان شکایات کا ازالہ کرے جن پر توجہ نہیں دی گئی اور اب یہ گہرے زخم بن گئے ہیں ۔ریاست کے خلاف بلوچ بیانیہ ٹھوس خد شات پر مبنی ہے۔سوچ بچار اور حکمت عملی (Well-thought-out strategy ) کے تحت انکا مداوا ہونا چا ہیے۔اگر ریاست سیاسی دانش(Political wisdom ) سے کام لے تو بلوچستان کی موجودہ بے چینی آخری ثابت ہوگی۔ختم