|

وقتِ اشاعت :   March 6 – 2021

سینٹ انتخابات مکمل ،اب دوسرا مرحلہ شروع ہوگا۔ حکومت کی طرف سے صادق سنجرانی کو ایک بار پھر بطور امیدوار کا اعلان ہوتے ہی پی ڈی ایم اور خصوصا ًزرداری نے سر پکڑ لیا۔اسلام آباد کی سیاست میں سخت گہما گہمی ،کبھی وزیر اعظم ہائوس اور کبھی مولانا۔زرداری۔ہائوس میں جوڑ توڑ کے لئے بیٹھک اور کبھی رات کی تاریکی میں حکومتی اراکین اور اپوزیشن کے درمیان ملاقاتیں، قسمیں وعدے ،آئندہ الیکشن کی تیاریاں زیر بحث رہتی ہیں۔ اسلام آباد سے نومنتخب سینٹر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی کامیابی سے حکومتی اتحاد میں کھلبلی مچ گئی ہے۔

بظاہر اب اپوزیشن کا پلڑا بھاری ہے لیکن وزیر اعظم عمران خان نے خود اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کرلیا، حکومتی اتحاد نے مضبوط امیدوار حاجی صادق سنجرانی کو دوبارہ چیئرمین سینٹ نامزد کرکے اپوزیشن کو ٹف ٹائم دے دیا۔ ایک بار پھر اپوزیشن کی توجہ احتجاج سے ہٹا کر چیئرمین سینٹ کے انتخاب پر مرکوز کرکے ان کے اتحاد میں دراڑیں پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔یوسف رضا گیلانی کی جیت سے اپوزیشن اتحاد پر امید دکھائی دیتا ہے کیونکہ اب ان کے بقول ان کے پاس مطلوبہ تعداد پوری ہے جبکہ پی ٹی آئی کے کچھ اراکین جو کہ مستقبل میں مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اور مسلم لیگ کی لیڈر شپ نے گرین سنگل بھی دے دیاہے یقینا پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کھلم کھلا پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو ووٹ کرینگے جس طرح چند روز پہلے سردار اختر جان مینگل نے کہا تھا کہ اپوزیشن سینٹ انتخابات میں سرپرائز دیگی یقینا قوم کو سرپرائز ملی لیکن ایک زرداری سب پہ بھاری۔خطروں کا کھلاڑی۔سابق صدر آصف علی زرداری نے دعوی ٰکیا تھا کہ ہمارے 20 ووٹ پھر بھی کم ہیں ہمارے ووٹ کدھر گئے۔ لگتا ہے زرداری نے دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے پلان بنایا ہوا تھا۔

اگر یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینٹ بنانے میں پی ڈی ایم کامیاب ہوگئی تو عمران خان کے لئے وزیر اعظم ہائوس میں بیٹھنا مشکل نہیں ناممکن ہوگا۔ ذرائع کے مطابق چاروں گورنرز،وزائے اعلیٰ کو اسلام آباد طلب کرلیا گیا ہے آئندہ چوبیس گھنٹے انتہائی اہم ہیں اگر سنجرانی کی کامیابی کے آثار نظر آئے تو اعتماد کا ووٹ ہوگا اگر حکومت کو یقین ہوا کہ اپوزیشن کی جیت واضح ہے تو اسمبلیوں کوتحلیل کرنے میں دیر نہیں کرے گی۔ دونوں صورتوں میں اپوزیشن والوں کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم تیار بیٹھی ہے اسلام آباد سے ہارنے کے بعد وزیراعظم نے جذباتی فیصلہ کیا تھا کہ اسمبلیوں کو تحلیل کرینگے ۔

لیکن مخصوص افراد نے اعتماد کا ووٹ لینے کا مشورہ دیا اور سر جوڑ نے کے بعدد وبارہ صادق سنجرانی کو حکومت کا امیدوار بنا کر مختلف پارٹیوں سے ووٹ مانگنے کے لیے راونہ کردیا۔قدرت خدا کی، مرحوم حاصل بزنجو کے خلاف مقابلہ کرنے والے وہی سنجرانی صاحب اب انہی سینٹروںکے پاس ووٹ مانگنے گئے ہیں ۔پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے خان صاحب کو ہاڑے ہاتھوں لیتے ہوئے وارننگ دی کہ آپ کو کیوں جلدی ہے اعتماد کا ووٹ لینے کی۔اب یہ فیصلہ بھی پی ڈی ایم کریگا، جن سترہ افراد کا ذکر عمران خان کررے ہیں۔

اب اعتماد کے ووٹ میں برملا اپنی ناراضگی کا اظہار کرکے پی ڈی ایم کے ساتھ ملنے والے ہیں۔ مجھے قوی خدشہ ہے عمران خان اپنی ضد کی وجہ سے اسمبلیوں کوتحلیل کرکے چاروں صوبوں میں گورنر راج نافذ کریگا اور کورونا کی تیسری لہر کا بہانہ بنا کر لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے یہ کارڈ شو کرے گا لیکن مولانا صاحب بھی بضد ہے کہ ہر حال میں اسلام آباد میںدھرنا دیں گے۔ دھرنے کے دوران نواز شریف بھی آنے کا پلان بنا رے ہیں جس میں زرداری سب سے زیادہ متحرک ہیں۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پسنے سے تنگ آچکی ہے جس کا اظہار وقتاً فوقتا ًکرتی رہتی ہے۔