|

وقتِ اشاعت :   March 8 – 2021

جیڈا یعنی گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام 2005 میں لایا گیا اور گوادر سٹی سے تقریباً پندرہ بیس کلو میٹر دْور’’کارواٹ‘‘نامی علاقے کو انڈسٹریل زون کا نام دیکر وہاں باقاعدہ جیڈا کی سنگ بْنیاد رکھ دی گئی۔2002میں جب گوادر پورٹ پر کام کا آغاز ہوا تو حکومت بلوچستان نے یہ ضرورت محسوس کی کہ صوبائی سطح پر گوادر سٹی میں ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جو گوادر پورٹ کے ثمرات سے بہرہ مند ہو اور چھوٹے پیمانے پر صنعتوں کی ضرورت کو پورا کرسکے، اس کے ساتھ مقامی صنعتکاروں کو گوادر پورٹ اور سی پیک جیسے بڑے پروجیکٹ میں صنعتکاری کا موقع بھی فراہم کرے۔

یعنی جیڈا حکومت بلوچستان کا ایک ایسا تجارتی صنعتی منصوبہ تھا جو گوادر میں ہر قسم کے کاروباری سرگرمیوں اور صنعتوں کی ضرورت کو پورا کرسکتا تھا۔اس ادارے کو ’’کارواٹ‘‘ نامی علاقے میں ہزاروں ایکڑ اراضی الاٹ کردی گئی اوراْنھیں انڈسٹریل زون کے لیے خاص ڈیزائنگ بھی کی گئی،جیڈا یعنی گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ادارہ جن ترقیاتی سرگرمیوں کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی تھی کہ یہ ادارہ سی پیک کا ایک اہم حصہ ہوگا اس کے علاوہ گوادر کے صنعتی زون میں بڑی مینو فیکچرنگ صنعتوں،گوداموں،اسٹورز،میکنیکل پلانٹس اور بہت سی ایسی دیگر تجارتی فیکٹریوں کے فروغ کے لیے۔

یہ ادارہ اْنھیں زمین الاٹ کرنے کے ساتھ ساتھ تمام سہولیات بھی فراہم کرے گا، اگرچہ یہ ادارہ حکومت بلوچستان کی زیرنگرانی میں ہے لیکن کاروباری سرگرمیوں کو بہتر بنانے کے لیے حکومت بلوچستان نے اِسے ایک خود مختار ادارہ بنایا تھا۔بتایا جاتا ہے ابتدائی مراحل میں اس ادارے کو چالیس کروڑ روپے کی خطیر رقم فراہم کی گئی تاکہ یہ بغیر کسی پریشانی کے اپنے ترقیاتی کام احسن طریقے سے سرانجام دے سکے۔’’کارواٹ‘‘ کے مقام پر اس کے لیے کمرشل بنیادوں پر ایک آفس بھی بنادیا گیا لیکن ایک مدت تک یہ آفس سیکورٹی فورسز کی تحویل میں رہا۔

روڈ کی تعمیرات اور لائٹس پر کروڑوں روپے خرچ کر دیئے گئے لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ آج سولہ سال گزر گئے یہاں پر ایک بھی صنعتی زون قائم نہیں ہوسکاہے گویا یہ حکومت بلوچستان کا وہ نیم مردہ صنعتی زون ہے جہاں پرصرف ٹینڈرز کا ریل پیل ہوتاہے ۔ذرائع کے مطابق ابھی بھی لگ بھگ 80کروڑروپے سے زائد کے ٹینڈرہوئے ہیں اور ٹینڈرکے وقت بہت سی کہانیاں بھی گردش کرتی رہی ہیں۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا جب قیام ہوا توکچھ عرصے بعد اْسے گوادر سٹی سے سیدھا کراچی شفٹ کردیاگیا۔

اور اسکا ہیڈ آفس کراچی سندھ میں قائم کردیا گیا جس سے روزگار کے حوالے سے مقامی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی حق تلفی ہونے کے ساتھ ساتھ اِس ادارے میں بے قاعدگیوں کی بہت سی خبریں بھی طشت ازبام ہوئیں اور آج اس ادارے میں گنتی کے مقامی ملازم ہیں اور وہ معتصبانہ رویے کا شکار ہیں۔یہ بلوچستان کا واحد ادارہ ہے جس کے منیجنگ ڈائریکٹر روزانہ کے حساب سے بدلتے رہتے ہیں چونکہ یہ ایک خود مختار ادارہ ہے جس نے جو چاہا وہی کیا، آج تک نہ کوئی انکوائری ہوئی اور نہ ہی اِس ادارے سے یہ پوچھا گیا کہ گزشتہ سولہ سالوں میں وہ گوادر سٹی میں ایک عدد انڈسٹری لگانے میں ابھی تک کامیاب کیوں نہیں ہوسکا۔

حالانکہ صوبائی حکومت چھوٹے پیمانے پر انڈسٹریز کو فعال بنانے کے لیے ہر سال کے بجٹ میں 50 سے 60 کروڑ روپے مختص کرتی ہے۔2017میں نیب بلوچستان نے جب جیڈ امیں ہونے والی بے قاعدگیوں پر چھان بین کا آغازکیا تو 3167ایکڑ اراضی کمرشل پلاٹوں کی غیرقانونی الاٹمنٹ سامنے آئی۔ نیب بلوچستان کے مطابق اس سے حکومت بلوچستان کو 70ارب روپے کا نقصان ہوا اْس وقت چیئرمین نیب بلوچستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاتھا کہ گوادر میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والے حقیقی سرمایہ کاروں کو قوائط وضوابط کی شرائط پر سرمایہ کاری کرنے کا حق ہے۔

ہم گوادر کی معاشی نمو میں رکاوٹ پیداکرنے والے بدعنوان عناصر کو ختم کرنے کی ہرممکن کوشش کرینگے۔نیب بلوچستان کے ریمارکس کے بعد ایک امید سی پیداہوگئی کہ شاید اب جیڈا میں کچھ بہتری آئے گی اور کچھ افسران گرفتاربھی ہوئے لیکن جیڈا کی حالت نہ بدل سکی۔بلوچستان کے موجودہ وزیراعلیٰ جام کمال نے جیڈا کے ہیڈ آفس کو کراچی سندھ سے گوادر شہر منتقل کرادیا اور ابھی گوادر کے علاقے نیوٹاؤن میں اِس کی آفس موجود ہے لیکن وہاں کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔جیڈا مستقبل کے لیے پلاننگ کررہی ہے کہ اْسے پورے ضلع گوادر میں ایک لاکھ ایکڑ اراضی تفویض کی جائے۔

تاکہ وہ مستقبل میں ضلع بھر میں سمال انڈسٹریز لگانے کے لیے صنعتکاروں کو راغب کرسکے۔کپر پسنی زون میں بھی کچھ ایکڑ اراضیات پر جیڈا نے اپنے سائن بورڈ لگا رکھے ہیں اور شمال بندن میں جو آئل ریفائنری کی اراضیات ہیں وہاں پر بھی یہ ادارہ پندرہ سو ایکڑ اراضی کی مانگ کررہا ہے۔بڑے کمال کا ادارہ ہے صرف اراضیات پر سائن بورڈ گاڑ کر صنعتی ترقی کے دعوے کرتی ہے۔گزشتہ روز نیشنل ویلفیئر سوسائٹی (رجسٹرڈ) نامی تنظیم نے گوادر پریس کلب میں پریس کانفرنس کرکے جیڈا گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں ہونے والی بے قاعدگیوں پر لب کشائی کی۔

اْنکا کہنا تھا کہ یہ ادارہ مکمل طور پر غیر فعال ہے ڈیڑھ دہا ئی گزرنے کے باوجود یہ ادارہ ایک بھی انڈسٹری قائم نہیں کرسکی،گوادر پورٹ آپریشنل ہونے کے بعد گوادر سٹی میں صنعتی زون قائم ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔سال 2000 سے لے کر تاہنوز حکومت اگر ہر دوسال میں ایک چھوٹی انڈسٹری لگاتی تو آج گوادر میں 32 کے قریب چھوٹی صنعتیںقائم ہوتیں جن سے ہزاروں لوگوں کو روزگار مہیا ہوسکتا تھا۔ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ابھی تک کسی بھی مقامی بزنس مین کو کمرشل پلاٹ الاٹ نہیں کیا گیا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت مقامی بزنس مینوں کو کمرشل پلاٹ الاٹ کرنے کے ساتھ ساتھ انڈسٹریزڈویلپمنٹ میں اْنھیں شیئر ہولڈر بھی بناتی تاکہ وہ آئندہ خود انڈسٹری لگانے کے قابل ہوجاتے۔دوسری جانب ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے ملازمین نے بھی جیڈا کا ستیاناس کیا ہوا ہے چندمقامی ملازمین کو چھوڑ کر دوسرے سیکشن میں کوئی ملازم ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہے اور گزشتہ چند سالوں میں جتنی بھی تقریریاں ہوئی ہیں اْن پر بھی مقامی نوجوان تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں ۔بتایا جاتا ہے کہ 2010سے لے کر2019 تک بڑے پیمانے پر غیرقانونی تقرریاں اور پروموشن کیے گئے ہیں ۔

جن پرادارے کے دوسرے ملازمین بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔اب یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اِس نیم مردہ صنعتی گھوڑے میں جان ڈالنے کے لیے سب سے پہلے اْن محرکات کو ڈھونڈے کہ گزشتہ سولہ سالوں میں یہ ادارہ گوادر کے بے روزگارنوجوانوں کے لیے ایک انڈسٹری تک کیوں نہیں بنا سکی اور صوبائی حکومت ہر بجٹ میں اس کے لیے جو کروڑوں روپے مختص کرتی آئی ہے وہ کہاں خرچ ہوئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے آیا گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی سی پیک میں شامل نہیں ہے ؟یہ ادارہ اگر سی پیک میں شامل ہے تو اس کو اس طر ح گھسیٹ گھسیٹ کر کیوں چلایا جارہا ہے؟