پاکستان کے سب سے بڑے قانون ساز ادارے ایوان بالا میں امسال 52 سنیٹرز اپنی مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے ہیں جن میں بلوچستان کے گیارہ سنیٹرز بھی شامل ہیں۔ لیکن ان میں دو قابل ذکر نام کبیر محمد شہی اور عثمان کاکڑ کے بھی ہیں۔کبیر محمد شہی اور عثمان کاکڑ نے ایوان بالا میں پہنچ کر اپنا انتخاب درست ثابت کیا ۔ یہ دونوں سابقہ سنیٹر ایوان بالا میں اپنا بھرپور کردار اداکرتے رہے۔ ان کا تعلق گوکہ بلوچستان سے تھا جہاں ان دونوں نے نہ صرف بلوچستان کی نمائندگی کی بلکہ یہ محکوم اقوام کا مقدمہ بھی بڑی دیدہ دلیری سے لڑتے رہے۔
بلوچستان کے لاپتہ افراد کا مسئلہ ہو، انسانی حقوق کی پائمالی، آئین کی خلاف ورزی، ملک کے اعلٰی تعلیمی اداروں میں بلوچستان کے طلباء کے مسائل اور صوبے کے سلگتے یا عوامی مسائل ہوں، ان کی آوازیں ایوان بالا میں گونجتی رہیں۔ یہ دونوں سیاسی رہنماء اپنے اپنے ڈیسک میں نصب مائیک سے انصاف کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ یعنی اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں کسی بھی لمحہ بخل، مصلحت پسندی اور کسی عذر کا مرتکب قرار نہیں پائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رخصتی کے بعد اہل بلوچستان ان کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔
لیکن دوسری طرف تین مارچ کو ایوان بالا کی بلوچستان سے جن خالی نشستوں پر انتخاب کا مرحلہ سرانجام پایا ہے، اس انتخاب کو سیاسی حلقوں میں بادی النظر میں پذیرائی نہیں بخشی جارہی۔ بلوچستان سے مجموعی طورپر گیارہ نئے سنیٹرز کا انتخاب کیا گیا ہے جن میں سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ٹکٹ پر منتخب کئے گئے سنیٹرز مولانا عبدالغفور حیدری اور ایڈوکیٹ کامران مرتضٰی کی سیاسی وابستگی کی قدر کی جارہی ہے اور ان کی اپنی سیاسی جماعت سے وابستگی کو نظریاتی اور فکری بنیاد کا حوالہ بھی پیش کیا جارہا ہے۔
بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی ایوان بالا کے لئے اکثریتی پارٹی بن کر ابھری ہے جس کے سنیٹرز کی تعداد سات ہے۔ جبکہ متحدہ اپوزیشن نے چار نشستیں اپنے نام کی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور بی این پی (مینگل) نے دو دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔ بلوچستان میں ایوان بالا کے لئے ممبران کے انتخاب کے بعد سب سے زیادہ تنقید کا سامنا بی این پی (مینگل) کو ہے۔ بی این پی (مینگل) جمعیت کے بعد بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ بی این پی (مینگل) پر تنقید کی۔
اہم وجہ الیکشن سے ایک روز قبل خواتین کی مخصوص نشست پر آزاد امیدوار اور پاکستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے سربراہ ایم پی اے احسان شاہ کی زوجہ محترمہ نسیمہ احسان کی پارٹی میں شمولیت اور پارٹی ٹکٹ عنایت فرمانے کے بعد کی جارہی ہے۔ جس کے بدلے پارٹی کے کمیٹڈ اور نظریاتی خاتون امیدوار کو دستبردار کرایا گیا۔محترمہ نسیمہ احسان نے ایوان بالا کی نشست پر کامیابی تو حاصل کرلی لیکن بی این پی (مینگل) کے ایوان بالا کے لئے پرانے سیاسی رہنماء ایڈوکیٹ ساجد ترین نہ صرف اپنی نشست ہارگئے بلکہ ان کو دو ووٹ بھی کم پڑے ۔
قیاس کیا جارہا ہے کہ اپوزیشن کی جماعتوں کے ممبران یا ان کے ایک اتحادی ایم پی اے جس کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہے نے ساجد ترین کے حق میں اپنا ووٹ استعمال نہیں کیا جس کی تصدیق اس بات سے بھی کی جا سکتی ہے کہ بی این پی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے اس کا نوٹس لیا ہے۔ اور ووٹ کم پڑنے کی وجوہات کو جاننے کے لئے تین رکنی کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے جو آئندہ تین روز میں رپورٹ پیش کریگی۔سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ بی این پی (مینگل) نے ایوان بالا میں نمائندگی کے حصول کے لئے جو سیاسی گیم کھیلا ہے وہ نظریاتی اساس کی بجائے سیاسی پاور گیم کا تھڑکا لگتا ہے۔
اس کی وجہ محترمہ نسیمہ احسان کی شمولیت کے بعد امیدوار بنانا ہے کیونکہ محترمہ نسیمہ احسان کے خاوند رکن بلوچستان اسمبلی ہیں اور ان کے ووٹ کے حصول کے لئے ان کی زوجہ کو پرانے سیاسی کارکنوں پر فوقیت دی گئی ہے۔تاہم بی این پی (مینگل) کے رہنماء اور کارکنان سوشل میڈیا پر اس تنقید کا دفاع کررہے ہیں اور موقف اختیار کیا جارہا ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپنے کارڈ کھیلنے کا مجازہے۔ پارٹی نے ایوان بالا کے انتخابات کے لئے جو حکمت عملی اختیار کی تھی وہ سیاسی فائدے کے لئے ہی تھا جس کے دور رس نتائج مرتب ہونگے۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ محترمہ نسیمہ احسان کی پارٹی میں شمولیت کوئی سادہ حکمت عملی نہیں اور نہ ہی یہ فیصلہ عجلت میں کیا گیا ہے۔ بلکہ اس میں ایک مسلسل کوشش پنہاں نظر آتی ہے۔ بلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک پارٹی کے سربراہ کی زوجہ کیونکر کسی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کریں اور پھر اسے ایک دم پارٹی کا ٹکٹ جاری کیا جائے؟ شاید بی این پی (مینگل) نے کیچ کی انتخابی سیاست پر برتری کے حصول کے لئے یہ مشکل فیصلہ کیا ہے اور اس ضمن میں قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ سید احسان شاہ آگے چل کر بی این پی (مینگل) کی سیاسی سنگت اختیار کرینگے۔
ایوان بالا کے انتخابات کے بعد بلوچستان میں نظریاتی اور فکری سیاست پر کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ یہ سوالات پہلے سے بھی موجود تھے۔ اب نئے سیاسی حالات نے اس میں مزید تیزی لائی ہے۔ بلوچ قوم پرست سیاست میں نظریاتی اساس کی موجودگی کو موجودہ دور میں عنقا قرار دیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے بلوچستان کے ہر سیاسی جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں میں الجھن اور کنفیوژن موجود ہے۔ پتہ نہیں اس کا تریاق کب نکلے گا؟ لیکن یہاں بات بلوچستان کے ان دو سپوتوں کی ہورہی تھی جو ایوان بالا میں بلوچستان کی شان رہے۔ شاید ہی کبیر محمد شہی اور عثمان کاکڑ جیسی آوازیں ایوان بالا میں سننے کو ملیں۔