حکومت اور جسٹس فائز عیسیٰ کے مابین صف بندی جون 2019 میں اس وقت شروع ہوئی، جب حکومت نے جسٹس عیسیٰ کے غیر ملکی اثاثوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس دائر کیا۔ اب تویہ معاملہ’’نفرت آمیز مثلث‘‘ بن چکا ہے، جس میں بدقسمتی سے تیسرے فریق کی حیثیت سے سپریم کورٹ کوشامل کیا جاتاہے۔ جسٹس عیسیٰ پر اپنی اہلیہ محترمہ سرینا اور بچوں کی برطانوی جائیدادیں ڈکلیئر نہ کرنے کا الزام تھا۔ ان غیر ملکی اثاثوں کا ان کی زوجہ نے اپنی ٹیکس اسٹیٹ منٹ میں اعلان کیا تھا۔
اگرچہ اس معاملے میں procedural lapses توممکن تھیں، مگر کسی غلط اقدام کا تعین نہیں ہوسکا، اِسی لئے سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کو ختم کردیا۔اس معاملے میں سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کی ساکھ پر سوال اٹھایا گیا تھا۔ بدقسمتی سے اُس وقت معاملہ بگڑ گیا، جب سپریم کورٹ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے نام پر برطانیہ میں موجود جائیدادوں کے ذرائع کی وضاحت طلب کرتے ہوئے اس بابت رپورٹ پیش کرنے کا حکم صادر کر دیا۔
اپنی املاک کی تفصیلات بتاتے ہوئے مسز سرینا عیسیٰ نے اپنی تفصیلی منی ٹریل، ٹیکس ریکارڈز، بینک دستاویزات اور پراپرٹی کے کاغذات عدالت میں جمع کروائے۔ ایک متمول جاگیردارانہ خاندان سے تعلق رکھنے والی سرینا عیسیٰ نے اپنے والد کی جانب سے تحفے میں دی گئی زرعی اراضی کا ذکر کرتے ہوئے ٹیکس حکام کو بتایا کہ ان کے شوہر کا ان کی لندن کی جائیدادوں سے کوئی تعلق نہیں اور انہوں نے 2019 میں دائر ٹیکس گوشواروں میں لندن کی تینوں جائیدادوں کا اعلان کیا تھا۔19 جون کے اکثریتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر کرنے والی مسز عیسیٰ نے اپنے اثاثوں کی تفصیلات پبلک کرنے پرافسوس ظاہر کیا۔
انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ چیف جسٹس گلزار احمد نے، جو درخواست گزار کو ذاتی طور پر جانتے ہیں اور جو کبھی ان کا پڑوسی رہا ہے، انھوں نے اُس سے اِن جائیدادوں کے بارے میں ایک بار بھی دریافت کرنا ضروری نہیں سمجھا۔دہرے معیار ات کا الزام لگاتے ہوئے انھوں نے اپنے کیس کا موازنہ عمران خان کیس سے کیا، جنھیں ان کے نزدیک اپنے مکمل برطانوی اثاثوں کے اعلان کاپابند نہیں کیا گیا۔ساتھ ہی انھوں نے وزیر اعظم کی برطرفی کا مطالبہ بھی کیا۔ سپریم کورٹ نہ صرف اس تنازع میں فریق ٹھہری، بلکہ مسز عیسیٰ نے وزیر اعظم عمران خان پر ایک ذاتی الزام بھی عاید کیا۔
اپنادفاع ان کا حق ہے اور ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے وہ اس نوع کے الزامات عاید کرنے کا بھی استحقاق رکھتی ہیں، مگر وزیر اعظم سمیت کسی بھی شہری سے متعلق سنگین الزامات بہ ہرحال احتیاط کا تقاضا کرتے ہیں۔مزید یہ کہ وزیر اعظم کی برطرفی کے مطالبے سے ان کے شوہر کی عمران خان سے متعلق جانب داری واضح ہوگئی۔اتفاق سے جس’’عمران خان‘‘ کی برطانوی جائیدادوں کا مسز عیسیٰ نے اپنی پٹیشن میں ذکر کیا، وہ کوئی اورعمران خان تھے۔یعنی وزیر اعظم سے متعلق انھیں کسی نے غلط معلومات فراہم کی تھی۔انھیں محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔
ان کے جذباتی ردعمل نے نئی پٹاری کھول دی ، جس میں ۱:کردار کشی۲:غلط الزامات عاید کرنا اور ۳:دروغ گوئی جیسے سنگین معاملات شامل ہیں ۔ستم ظریقی یہ کہ جسٹس فائز عیسیٰ، کم از کم نظریاتی طور پر اپنے مخالف پر وہی الزامات لگا رہے ہیں، جو اُس نے ان پر عاید کیے تھے۔’’میلوڈراما‘‘ کا تازہ ترین باب (واضح طور پر میڈیا نے غلط خبر دی تھی) یہ دعویٰ تھا کہ وزیر اعظم نے عوامی فنڈز کے لیے مختص پانچ سو ملین انتخابی حلقوں میں ترقیاتی کام کرانے کے لیے پارلیمنٹیرین میں تقسیم کیے ہیں۔گو یہ غیر قانونی چلن جنرل ضیا کے بعد کی حکومتوں میں ،عدلیہ کے کسی نوٹس کے بغیر چلا آرہا ہے۔
البتہ وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کے سامنے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ اس طرح کی کوئی رقم نہیں دی گئی۔اس کے بعد جسٹس عیسیٰ نے گم نام ذرائع سے حاصل ہونے والا ایک غیر تصدیق شدہ ”واٹس ایپ” میسج پیش کیا، جو بہ ظاہر این اے 65 میں رقم کی تقسیم کو ظاہر کرتا ہے اور درخواست کی کہ اس پیغام کو سنجیدگی سے لیا جائے۔کیوں کہ اس نوع کے الزامات قانونی طور پر قابل قبول نہیں، سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کا بیان قبول کرلیا اور رقم کی تقسیم کو چیلنج کرنے والی درخواست مسترد کردی ۔
علاوہ ازیں چیف جسٹس نے اپنے تحریری حکم میں کہا کہ چونکہ جسٹس عیسیٰ نے اپنی ذاتی اہلیت میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف درخواست دائر کی تھی، لہٰذااب ان کے لیے وزیر اعظم سے متعلق مقدمات کی سماعت کرنا مناسب نہیں اور اس کا مقصد غیرجانب داری کے اصولوں کو برقرار رکھنا ہے۔نومبر 2020 میں جسٹس عیسیٰ کی جانب وزیر اعظم کی برطرفی کی پٹیشن اور ایک غیر تصدیق شدہ دستاویز پیش کرنے کے عمل نے چیف جسٹس پر واضح کر دیا کہ جسٹس عیسیٰ وزیر اعظم کے خلاف ذاتی رنجش کا شکار ہیں، جس کا اثر ان کے ذاتی اور پیشہ ورانہ فیصلوں پر پڑے گا۔
ماضی کے واقعات کو پیش نظر رکھا جائے، تو یہ قابل فہم لگتا ہے اور اگر ایسا ہوا، تو یہ جسٹس فائز عیسیٰ کی ساکھ کو داغ دار کر دے گا۔مزید یہ کہ جسٹس عیسیٰ کے اس رولنگ سے متعلق 28 صفحات کے جواب سے چیف جسٹس کے اس موقف کو تقویت ملتی ہے۔ حقائق مختلف ہیں۔ معزز جج کی ناراضی کا رخ دراصل فوج کی جانب ہے، بالخصوص انٹیلی جنس hierarchy کی جانب۔اس ’’کراس فائر‘‘ میں عمران خان کا معاملہ تو “collateral damage” جیسا ہے۔جسٹس عیسیٰ جیسے تجربہ کار جج سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ انصاف کی فراہمی کو کبھی شخصی نہیں بنائیں گے۔
یہاں تک کہ خود پراور اپنے اہل خانہ پر حملے کے رد عمل میں بھی پروفیشنل ازم برقرار رکھیں گے۔ اس قسم کے ردعمل سے سپریم کورٹ کے جج کا وقار کم ہواہے۔ معزز جسٹس نے چیف جسٹس او اُن دیگر ججوں کو نشانہ بنا کر، جنھوں نے ان کے خلاف فیصلہ دیا، اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور بدقسمتی سے اس عمل سے عدالت عظمی کی شبیہ کو مجروح کیا۔جسٹس فائز عیسیٰ ایک قابل جج ہیں، جس کا عکس ان کے کئی فیصلوں میں نظر آتا ہے۔ راقم ذاتی اور پیشہ ورانہ حوالوں سے ان کا معترف ہے۔البتہ ایسی واضح مثالیں موجود ہیں،جو ثابت کرتی ہیں کہ ہمیں کچھ سرحدیں(fail-safe line) عبور نہیں کرنی چاہییں۔
بالخصوص جب بات فوج کی ہو،تو عوامی چپقلش سے خاموش نصیحت بہتر ہے۔فوج سے متعلق ان کے اقدامات کے باعث یہ خیال تقویت پا چکا ہے کہ وہ آرمی سے رنجش رکھتے ہیں۔پاک فوج کے ہر اقدام کے درست ہونے پر اصرار نہیں، مگر ملکی سلامتی کے چند معاملات ایسے ہیں، جہاں Marquess of Queensbury کے اصولوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی فوج کو قومی مفاد ،سالمیت اور شہریوں کی فلاح و بہود کے لیے اقدامات کرنے ہوتے ہیں۔آرمی کی جانب سے اس نوع کی ذمے داریاں نبھانے والے اپنے فائدے کے لیے نہیں ، بلکہ ملکی مفاد میں یہ اقدامات کرتے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ ایک متحرک جج کے طور پر ان اقدامات کے خلاف ایکشن لے سکتے ہیں، البتہ انھیں ریاست کی فلاح اور ذاتی مفادات سے ترغیب شدہ اقدامات میں فرق لازماً کرنا چاہیے۔پاکستان اس وقت غیریقینی صورت حال سے دوچار ہے۔گو وبائی بحران کے باوجود معیشت میں بہتری کے آثار ہیں، مگر ہمیں کئی محاذوں پر مسائل درپیش ہیں۔ آج ایک متشددہندوستان ہمیں تباہ کرنے کے درپے ہے۔البتہ ہماری مسلح افواج اس عمل کی راہ میں، موثر انٹیلی جنس آلات کے ساتھ، ایک مضبوط دیوار ہے۔
موجودہ حالات میں صلاحیت اور پروفیشنل ازم کے ساتھ باکمال قیادت،بالخصوص اعلیٰ ترین سطح پر، از حد ضروری ہے۔قومی سلامتی کے محاذ پر دوستی دشمنی بے معنی ہے۔ اصل چیز معروضیت ہے۔اصل نکتہ قانونی پیچیدگیوں سے پرے رہتے ہوئے اپنی ذمے داریوں کی ادائیگی ہے۔ امریکا کے جسٹس اولیور وینڈل ہومز کے “clear and present danger”کے تصور کو ذرا ذہن میں رکھیں۔ایک تھیٹر کے اندر ایک شخص کھڑا ہو کر ’’آگ، آگ‘‘ چلانے لگتا ہے، جس سے بھگڈر مچ جاتی ہے۔لوگ دروازوں کی سمت دوڑتے ہیں۔
بھگدڑ میں درجنوں زخمی ، چند ہلاک ہوجاتے ہیں۔ تو اب آپ اِن افراد کے زخموں اور ہلاکتوں کے ذمے دار شخص پر کس قانون کا اطلاق کریں گے،اگر وہ ’’ آگ آگ‘‘ پکارنے کو آزادی اظہار ٹھہرانے پر تل جائے؟پاک فوج نے سوات اور فاٹا میں ریاست سے برسرپیکار عسکریت پسندوں کی صلاحیتوں کو عملی طور پرتباہ کر دیا ۔البتہ افغانستان میں ابھی جنگ ختم نہیں ہوئی، جس کے اثرات وقتاً فوقتاً پاکستان میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔امن تک رسائی کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا۔ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز جاری رہنے چاہییں، تاکہ دہشت گردی کا بدصورت چہرہ دوبارہ نہ ابھر سکے۔ نچلی سطح پر بروقت درکار معلومات کے حصول کو ذاتی محرکات یا تعصبات کی نہیں، بلکہ حقیقت کی عکاسی کرنی چاہیے۔
ہمیں اپنے انٹیلی اداروں کو حالات کا موثر تجزیہ کرنے کا کریڈٹ دینا چاہیے۔رچرڈ نکسن کے الفاظ، تھوڑی ردعمل بدل کے ساتھ برتتے جائیں تو”Not debating a decision to death”۔ یہی کہنا درست ہوگا کہ گزشتہ دو سال میں فیصلہ سازی بروقت اور موثر رہی۔جیسے ’’ناکامی کو تقویت‘‘ نہ دینا جنگ کا اصول ہے، اسی طرح ہمیں مختلف شعبوں میں لازوال قربانیوں کی بعد حاصل ہونے والی کامیابیوں کو بھی تقویت دینی چاہیے اور اس کی راہ میں غیر ضروری رکاوٹیں نہیں کھڑی کرنی چاہییں۔
اور پاکستان کی اس کامیابی کی راہ میں جوڈیشل ایکٹوزم، جس کے پیچھے ذاتی ترجیح ہو، رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ذاتی پسند ، ناپسند بے معنی ہے، اصل چیز ہے پاکستان کی ترقی و سلامتی ۔ قومی سلامتی کے معاملے میں عدالتی مداخلت کو چند حدود کی پاس داری کرنی ہی چاہیے کہ آخر یہ ایک ایسی جنگ ہے، جس میں کسی کی جیت امکانی نہیں۔
ّ(فاضل مصنف دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں)