|

وقتِ اشاعت :   March 9 – 2021

فیمینزم کی تاریخ بہت پرانی ہے۔زمانہ قدیم سے لیکر عورتیں اپنے حقوق کی جدوجہد کرتی آرہی ہیں، جانے کیوں لوگوں نے فیمینزم کو گالی بنا دیا ہے حالانکہ فیمینزم تحریک سے زیادہ ایک سوچ ہے جس سے مراد ہے کہ خواتین کے لیے انسانی حقوق کی فراہمی کی بات کی جائے، وہ حقوق جو ہر انسان کو اس کی پیدائش ساتھ ہی دیئے گئے ہیں۔ اس میں فرق کو ختم کرنے کی بات کی جائے، تعلیم کی بات کی جائے۔ پیدائش پر افسردہ نہ ہوا جائے اور نہ ہی لڑکیوں کو مار دیا جائے۔ گوشت کی بوٹی اسے بھی اتنی ہی ملے جتنی بھائی کو دی گئی ہے۔ اور ایسا کرنے میں کیا گناہ ہے۔

یہ حقوق تو خدا نے بھی ہر انسان کو دئیے ہیں۔ چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ فیمینزم کا سادہ سا مطلب ہے کہ عورت کو ایک چیز اور پیس سمجھنے کی بجائے ایک انسان سمجھا جائے اور اس سے دماغ لڑانے کی ضرورت نہیں۔ ہائے یہ تو سرا سر کفر ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ عورت اپنے لیے کچھ بولے۔ عورتوں کو مردوں کیلیے پیدا کیا گیا ہیم، ان کی اپنی تو کوئی زندگی ہے ہی نہیں۔ان کا کام ہے بس سجنا سنوارنا اور پروڈکٹ کی طرح تیار ہو جانا۔ ہاں مگر جس طریقے سے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس سے بہتری کی بجائے مزید مسائل جنم لے رہے ہیں۔

سڑکوں پر نکل کر ہم تحریک تو چلا رہے ہیں مگر بات جن موضوعات پر کرنی چاہیے اس کی طرف تو ہم توجہ نہیں دے رہے۔ آپ تعلیم مانگیے، شعور مانگیے۔۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں عورت کی تعلیم اس کے بالوں سے شروع ہو کر اس کے کپڑوں تک ختم ہو جاتی ہے اور اس کے علاوہ اسکی روحانی، اخلاقی، معاشرتی اور ذہنی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔بات شوہر کی ذات سے شروع ہوتی ہے اور بچوں پر ختم ہو جاتی ہے۔۔ اس کی ذات کے مقام کو برقرار رکھنے کے متعلق کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اب وہ ذات جس کے دم سے سب مقام قائم ہیں وہ اگر خود ہی بے مقام ہوتو دوسرے اپنا مقام کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔