یوم خواتین کے پس منظر کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ امریکا میں خواتین نے اپنی تنخواہ کے مسائل کے متعلق احتجاج کیا، لیکن ان کے اس احتجاج کو گھڑسوار دستوں کے ذریعے کچل دیا گیا، پھر 1908 میں امریکا کی سوشلسٹ پارٹی نے خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے ’’وومین نیشنل کمیشن‘‘ بنایا اور اس طرح بڑی جدوجہد کے بعد فروری کی آخری تاریخ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔عالمی یوم خواتین، سب سے پہلے 28 فروری کو 1909 میں امریکا میں منایا گیا، پہلی عالمی خواتین کانفرنس 1910 میں کوپن ہیگن میں منعقد کی گئی، 8 مارچ 1913 کو یورپ بھر میں خواتین نے ریلیاں نکالیں اور پروگرام منعقد کیے ۔
اور اب برسوں سے 8 مارچ کو عالمی سطح پر یوم خواتین منایا جاتا ہے۔ چین، روس، نیپال، کیوبا اور بہت سے ممالک میں اس دن خواتین ورکرز کی چھٹی ہوتی ہے اور دیگر ممالک کی طرح بر صغیر میں بھی یہ دن بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔لیکن، ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی دن کو کسی کے نام سے منا لینا کیا اس کے تمام حقوق ادا کر دیتا ہے؟ جیسا کہ آج کل فادرس ڈے، مدرس ڈے، چلڈرنس ڈے، ٹیچرس ڈے، مزدور ڈے، وغیرہ صرف ایک دن منائے جاتے ہیں، جبکہ یہ وہ سارے رشتے ہیں جن کی اہمیت ہر وقت اپنے کسی نہ کسی حقوق کی متقاضی ہے۔
عورت ایک ایسی شے ہے جس کی حیثیت کے تعین میں ہر دور میں لوگوں نے اپنی ذہنی سوچ کو اعلیٰ وارفع دکھانے کی خاطر، کوئی نہ کوئی روپ دینے کی کوشش کی ہے، یہاں تک کہ اس کو دیوی کا روپ دے دیا گیا اور کبھی اس کے عروج یا با عزت مقام کو برداشت نہ کر کے اس کو پستی کی انتہا تک پہنچا دیا گیااور کبھی اس کو سماجی برابری، آزادی نسواں کا نعرہ دے کر دفتروں، کارخانوں اور دوکانوں میں لا کھڑا کیا اور عورت بیچاری ہر دور میں فریب کھاتی رہی۔اب سوال یہ ہے کہ عورت آخر وہ کنجی کیسے حاصل کرسکتی ہے جو اس کو ایک با عزت مقام دلا سکے۔
اس کو سکون فراہم کر سکے، اور اس کو کسی کے ہاتھ کا کھلونا بننے سے روک دے؟ تو اس کا جواب ہمیں ’’عورت‘‘ جیسی مخلوق کا بنانے والا ہی دے سکتا ہے کہ اس نے عورت کو کیا ذمہ داری ادا کرنے کے لیے بھیجا ہے۔اس دنیا میں حضرت محمّد صلی اللّٰہ علیہ وسلم جو دین لے کر آئے اس نے عورت کو ایک ایسے بلند مقام پر پہنچا دیا جس کا اس تاریک دور میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ عورت کی پیدائش پر جنت کی خوشخبری دی گئی۔ اس کی پرورش کرنے والے کو جنت کا مستحق قرار دیا گیا۔ عورت کے لئے وراثت میں حق مقرر کیا گیا۔ اس کو مہر کا حق دیا گیا۔
قرآن میں جگہ جگہ عورت کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کا حکم دیا گیا۔ ماں کے درجے کو اس قدر معزز بنا دیا گیا کہ اس کے قدموں کے نیچے جنت کی بشارت دے دی گئی۔اگر حقوق پر نظر ڈالیں تو مرد کو اس کا ولی، سر پرست بنایا گیا۔ باپ کی حیثیت سے، بھائی کی حیثیت سے، شوہر کی حیثیت سے اور بیٹے کی حیثیت سے، اس پر کسی بھی قسم کی مالی اور معاشی تگ و دو کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی، بلکہ اس کو گھر کی پوری ذمہ داری دے کر ایک با عزت مقام دیا گیالیکن یہ تمام مراتب اور اعزاز دینے کے باوجود اس کو اس بات کا پابند نہیں بنایا گیا کہ وہ صرف اور صرف گھر کی ہی ہو کر رہ جائے۔
اور اپنی صلاحیتوں کو بالکل بھلا دے بلکہ اس کو اس بات کی پوری آزادی دی گئی کہ اگر اس کو قدرت نے صلاحیتیں عطا کی ہیں تو اپنی ان صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے اور معاشرے کی بھلائی کے کاموں میں استعمال کر سکتی ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے نہ صرف اپنے اہل و عیال کی اصلاح اور بہتری کے کام انجام دے سکتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قوم وملت کی اصلاح اور ترقی کے کام بھی کر سکتی ہے۔ اگر ضرورت پڑے تو اپنے خاندان کی کفالت بھی کر سکتی ہے اور اس پر اس کو دوہرے اجر کی بشارت دی گئی ہے۔ مطلب یہ کہ ضرورت پڑنے پر عورت وہ تمام کام کر سکتی ہے۔
جو ایک مرد انجام دیتا ہے، بس فرق صرف اتنا ہے کہ عورت اور مرد کی تخلیق میں جو اس کے خالق نے ایک امتیاز رکھا ہے اس امتیاز کے تقاضوں کو وہ مد نظر رکھے۔عورت کو اگر گھر سے باہر نکلنا پڑے تو اس کو ان حدود و قیود کو ضرور بالضرور ملحوظ رکھنا ہوگا جو اس کے خالق نے اس کے ہی فائدے کے لیے متعین کی ہیں، تب ہی عورت کو معاشرے میں ایک با عزت مقام حاصل ہو سکتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر دور میں مردوں نے عورتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ عورت جو اپنے اندر ایک جنسی کشش رکھتی ہے۔
وہ چھپانے یا پو شیدہ رکھنے کی چیز نہیں ہے اور اگر وہ کچھ حدود و قیود کو اپنے اوپر نافذ کر تی ہے، تو وہ بیک ورڈ، رجعت پسند اور دقیانوسی خیالات کی مالک ہے۔ عورت اپنے اوپر یہ لیبل نہ لگوانے کی خاطر اپنے آپ کو مختلف اذیتوں، تکلیفوں میں ڈالنے اور سخت سے سخت مراحل سے گزرنے کے لیے با آسانی تیار ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں افراتفری پیدا ہوتی ہے۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مناسب مقام جو اس کو اس کے خالق نے عطا کیا تھا وہ مقام نہ دے کر مرد نے خود معاشرے کے بگاڑ کا سامان پیدا کر لیا ہے۔
مغربی معاشرہ اس کی جیتی جاگتی مثال ہے، جہاں خاندانی نظام بالکل درہم برہم ہو چکا ہے، طلاق کی شرح وہاں خطرناک حد تک جا پہنچی ہے۔معاشرے کی اس ابتری سے پریشان لوگ ان مسائل کے حل کے لیے طرح طرح کے اصول اور ضوابط بنا رہے ہیں اور عورت خود بھی اپنے لئے ایک با عزت اور قابل سکون مقام کی متلاشی ہے، جو اس کی ذات کی بھی نفی نہ کرے اس کو معاشرے میں بالکل گْم بھی نہ کر دے۔ بلکہ اس کی اپنی ایک حیثیت ہوجس کو مرد بھی تسلیم کریں اور اس کی عزت بھی کر سکیں۔ اس بات کو جن لوگوں نے تسلیم کیا ہے ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے ۔
جو عورتوں کو یہ سب حقوق بہت دل کھول کر عطا کرتا ہے۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ’’عالمی یوم خواتین‘‘ منانے کی بجائے اس بات کی کوشش کریں کہ ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں اپنے مقام اور مر تبے کو پہچانیں اور اس پیارے نظام کو اپنے اوپر نافذ کریں جس کے ذریعے ان کو معاشرے میں ایک باعزت مقام حاصل ہو سکے۔