|

وقتِ اشاعت :   March 11 – 2021

اسلام آباد ہائی کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ میں کامیابی کے خلاف تحریک انصاف کے رہنما ء علی نواز اعوان کی درخواست خارج کردی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے،پہلے اس فورم کو استعمال کریں۔غیر ضروری طور پر عدالتوںمیں سیاسی معاملات کو لانا ٹھیک نہیں۔انہوں نے کہا کہ عدالت کو پارلیمنٹ پراعتماد ہے۔قانون کی پاسداری کرنا ہم سب پر فرض ہے۔چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے رہنما علی نواز اعوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس شکایت کے ازالہ کے لیے متبادل فورمز موجود ہیں۔

آپ کی اپنی سیاسی جماعت نے اس معاملے پر الیکشن کمیشن سے رجوع کر رکھا ہے۔دوران سماعت معاون خصوصی علی نواز اعوان کا کہنا تھا کہ ہم الیکشن کے نظام میں شفافیت لانا چاہتے ہیں۔ سینیٹ کے چیئرمین شپ کیلئے میدان 12 مارچ کو سجے گا ، یوسف رضا اور صادق سنجرانی کا مقابلہ حفیظ شیخ کی نسبت زیادہ سخت ہوگا کیونکہ حفیظ شیخ کسی کے اتنے لاڈلے نہیں تھے جس طرح صادق سنجرانی ہیں ،جب پہلی مرتبہ سینیٹ چیئرمین کے لئے صادق سنجرانی کا نام امیدوارکے طورپر سامنے آیا تھا تو اس وقت لوگوں نے ان کا نام بھی نہیں سنا تھا،تاہم صادق سنجرانی کا دوبارہ سینیٹ چیئرمین بننا حکومت کی ناک کا مسئلہ بن چکا ہے۔

صادق سنجرانی کی چیئرمین شپ پران کی اپنی پارٹی میں ہی مخالفت ہورہی ہے،واقفان حال کہتے ہیں کہ سنجرانی کی اپنی پارٹی کے دوسینیٹرز میرسرفرازبگٹی اور سینیٹر انوارکاکڑ مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ صادق سنجرانی کو تین سال ہوئے، بلوچستان کیلئے کوئی قابل ذکر کام تو نہیں کیا۔دوسری جانب زرداری سب پر باری رہا کیونکہ حالیہ سینیٹ الیکشن کے رزلٹ سب کے سامنے ہیں ، بلوچستان کے اپوزیشن لیڈر ملک سکندرایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ عددی اعتبارسے ایوان بالا میں اپوزیشن ارکان زیادہ ہیں،حکومتی اتحاد میں شامل بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹ انتخابات میں مزید چھ نشستیں جیتنے کے بعد 12 ارکان موجود ہیں۔

جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے تین، جے ڈی اے اور پاکستان مسلم لیگ ق کا ایک سینیٹر موجود ہے، سینیٹ میں موجود چھ آزاد امیدواروں میں سے حکومتی اتحاد کو چار کی حمایت حاصل ہے، یوں آزاد امیدواروں کی حمایت کے ساتھ حکومتی اتحاد کی تعداد 46 بنتی ہے۔صادق سنجرانی کی اپنی ہی جماعت میں مخالفت کے باعث حکمران جماعت کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے اوریوں حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کے پاس کل 51 سینیٹرز موجود ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے تمام سینیٹرز نے بھی اپوزیشن امیدوار کو ووٹ دیا تو پی ڈی ایم چیئرمین سینیٹ منتخب کروانے میں کامیاب ہو جائے گی،اور چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں حکومت اپوزیشن کو اپ سیٹ دے سکتی ہے۔

سینیٹ انتخابات میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے اسلام آباد کی نشست پر یوسف رضا گیلانی کو کامیاب کراکر اپ سیٹ کیا مگر بلوچستان میں دعوئوں کے باوجود حزب اختلاف باپ حکومت کو کوئی سرپرائز نہ دے سکی بلکہ دو ووٹوں کے اِدھر ادھر ہونے سے خود انہیں بڑا دھچکا لگا۔تجزیہ کاروں کے مطابق سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی نے سینیٹ انتخاب میں بہتر بازی نہیں کھیلی۔ جنرل نشست پر اپنے سب سے پسندیدہ امیدوار کی شکست ، پارٹی پوزیشن سے کم ووٹ ملنے۔

اور خواتین کی نشست پر پارٹی کی دیرینہ کارکنوں کو نظر انداز کرکے ان کی جگہ صرف24گھنٹے قبل شامل ہونے والی آزاد امیدوار کو کامیاب کرانے پر بی این پی کے کارکنوں کو اچھا پیغام نہیںگیا ۔اسٹیبشلمنٹ کی حمایت یافتہ جماعتوں کو یہ قوم پرست جماعت جن الزامات پر ہمیشہ ہد ِف تنقید بنائے رکھتی تھی اب انہی الزامات اور سوالات کاخود انہیں سامنا ہے۔ تین مارچ کو بلوچستان میں سینیٹ کی12نشستوں پر انتخاب کا معرکہ حکومتی اتحاد کے نام رہا جس نے 8نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور حزب اختلاف کو صرف4نشستیں ملیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی کی سربراہی میں بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل چھ جماعتوں کے اتحاد کے پاس 65رکنی ایوان میں ن لیگ کے منحرف رکن نواب ثنااللہ زہری کے ساتھ ملکر کل41ارکان کی حمایت تھی مگر جنرل کی نشست پر حکومتی اتحاد کے پانچ کامیاب امیدواروں کو مجموعی طور پر 43ووٹ یعنی 2اضافی ووٹ ملے۔متنازع آزاد امیدوار محمد عبدالقادرکو دو اضافی ووٹ ملے جنہوں نے سب سے زیادہ 11ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی ،جبکہ بلوچستان میں سینیٹ کی جنرل نشست پر کامیابی کیلئے صرف 9ووٹوں کی ضرورت تھی۔

عبدالقادرکو پہلے پی ٹی آئی نے سینیٹ ٹکٹ دیا پھر واپس لے کر سید ظہور آغا کو دیا مگر بعد میں ظہور آغابھی ان کے حق میں دستبردار ہوگئے۔باقی جنرل نشستوں پر بی اے پی کے تین امیدواروں پرنس آغا عمر احمد زئی، منظور احمد کاکڑ اور سرفراز احمد بگٹی کو8,8ووٹ ملے۔ حکومتی اتحادی اے این پی کے نوابزادہ عمر فاروق کاسی کو بھی 8ووٹ ملے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سینٹ انتخابات کے نتائج بلوچستان کی سطح پر پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے اتحاد پر منفی اثرات مرتب کرے گی ؟

اس سوال کے جواب میں سینئر صحافی اورتجزیہ کار شہزاد ہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ حزب اختلاف کی جماعتوں میں دوریاں بڑھیں گی،مستقبل کی مشکلات کے پیش نظر ان جماعتوں کا ایک دوسرے کا ساتھ دینا مجبوری ہے۔