|

وقتِ اشاعت :   March 12 – 2021

لیاری حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں کی بدولت آج شدید بے چینی اور کرب میں مبتلاہے۔ لیاری میں موجود جرائم پیشہ عناصر کوہمیشہ کسی نا کسی طاقتور اشرافیہ نے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ انگریز دور سے ساٹھ کی دہائی تک تحریک آزادی کے نام نہاد سپوت اور معروف مسلم لیگی گھرانہ ہارون خاندان نے لیاری کے مقامی وڈیروں سے مل کر جرائم پیشہ عناصرکو شہرمیں اپنی سیاسی برتری ، زمینوں پر قبضوں اور مخالفین کوسبق سکھانے کے لیے استعمال کیا۔

تاہم ساٹھ کی دہائی کے اختتام کے ساتھ ہی ہارون خاندان کاسیاسی سورج غروب ہوگیااور بھٹوخاندان کاسورج افق پرنمودار ہوا تو اس نے بھی لیاری کو اپنامسکن بنائے رکھا۔

لیاری کی اہمیت کااندازہ یہاں سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ کراچی پورٹ کاقرب حاصل ہونے کی وجہ سے خطے کامین ہٹن کہاجاتاہے۔بلوچستان میں جاری حقوق کی جدوجہد ہویاسندھ میں پیپلزپارٹی کے لیے کراچی کارڈ، لیاری ہمیشہ سرفہرست رہاہے۔بلوچستان میں انیس سو اڑتالیس سے جاری ناانصافیوں کی لیاری کے عوام نے نہ صرف مخالفت کی بلکہ اس ظلم اور ناانصافی کے خلاف بھرپور اور جاندار احتجاج بھی کیا جس کی وجہ سے 2003 کے بعد سے جاری شورش کو بلوچستان سے باہر منتقل ہونے سے روکنے کیلئے مختلف جرائم پیشہ عناصر کو سرکاری سرپرستی میں منظم کرکے گینگ وار کانام دیاگیااور ریاست کے اندر ریاست بنائی گئی۔

رہی سہی کسر پیپلزپارٹی نے پوری کی جب 2008 میں حکومت میں آنے کے بعد گینگ وار کی مکمل سرپرستی کی،اس وقت کے وزیرداخلہ سندھ ذوالفقارمرزا نے کہاتھاکہ ہم نے تین لاکھ اسلحہ لائسنس شادی میں پٹاخے پھوڑنے کے لیے نہیں دیئے۔۔سن دو ہزارکی بات ہے جب ایک دوست کے ہمراہ کالج سے واپسی پر جھٹ پٹ مارکیٹ کے راستے گھرآرہاتھاکہ اس وقت کے معروف ہوٹل الفتح کے قریب ایک آفس نظرآیاجہاں قائد اعظم محمدعلی جناح کے ساتھ وقت کے آمرپرویز مشرف کی تصویرآویزاں تھی۔

لیاری جوہمیشہ جمہوریت پسندوں کامسکن رہایہاں ایک آمرکی تصویرکانظر آنا واقعی حیرانی کی بات تھی،دوست سے پوچھا کہ یہ کیسے ہوا ہم لیاری والے تو جمہوریت کے ہراول دستہ شمارہوتے ہیں ؟دوست نے پہلے زیرلب مسکرایا اور بولے یہ تصویریہاں کی یونین والوں نے لگائی ہے اور یہ مارکیٹ یونین کاآفس ہے۔اس یونین کومقامی جرائم پیشہ عناصر ہی چلاتے ہیں۔۔ اور تم اس تصویرکو دونمبری کی آشیرباد ہی سمجھو۔یہ وہ دور تھا جب لیاری میں گینگ وار کی اصطلاح نئی نئی تھی،،

جھٹ پٹ نہ صرف ایک مارکیٹ بلکہ لیاری والوں کے لیے معیشت کی کنجی ، ثقافتی ورثہ اورروز مرہ زندگی کاحصہ بھی ہے ،یہ واحد مارکیٹ ہے جہاں مقامی خواتین آزادانہ شاپنگ کرتی ہیں اور کئی دکانداربھی خواتین ہیں جو روزمرہ کی اشیاء فروخت کرکے گھرچلاتی ہیں۔جھٹ پٹ مارکیٹ اور اطراف کے علاقوں میں بلوچی دست کاری کی اشیاء آسان اور کم قیمت پردستیاب ہیں،،جن میں بلوچی دوچ (خواتین کے کپڑے)چوٹ یعنی بلوچی چپل وغیرہ شامل ہیں،کسی دور میں شہر بھرکے لوگ یہاں ایرانی اشیاء کی خریداری کے لیے آتے تھے۔۔

تاہم 2002میں ٹرانسپورٹ کی یوسف گوٹھ منتقلی کے بعد وہ رونقیں نہ رہیں لیکن اس کے باوجودبھی مقامی لوگوں نے اپنی مارکیٹ سے رشتہ جوڑے رکھا۔یہ مارکیٹ مقامی گینگ وارگروہوں کی آمدنی کابھی اہم ذریعہ تھی جہاں ایک ہزار سے زائد دکانوں اور ٹھیلوں سے روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں روپے بھتہ وصول کیاجاتاتھا،اوراس پرتسلط جمانے کیلیے متحارب گروپوں میں اکثر مدبھیڑ بھی ہوتی رہتی تھی تاہم 12 مارچ 2014 کی بدنصیب صبح ہونے والے دھماکے نے تاریخ رقم کردی جس کے نتیجے میں لیاری کی تاریخ میں پہلی بار بیس سے زائد جنازے اٹھے اور ان جنازوں میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔یقیناً یہ واقعہ میڈیاکیلئے ایک خبر اور حکمرانوں کیلیے ایک واقعہ سے کم نہ ہوگالیکن یہ ہماری معیشت ، تہذیب اور ثقافتی روایات پرحملہ تھا۔۔

یہ حملہ ایک ماں ، بیٹی،بہن اور بہو پر تھا جس کے زخم شایدصدیوں میں بھی نہ بھرسکے۔آج اس واقعے کو سات سال سے زائد کاعرصہ بیت چکاہے لیکن متاثرین انصاف کی راہ تک رہے ہیں، نہ اس پرکوئی نوٹس ہوانہ ہی کسی حاکم وقت نے دادرسی کی زحمت کی۔یورپ میں مقیم دوست نے ایک بار کہاتھاکہ لیاری اور بلوچ آبادیوں کے متعلق تھری ڈی پلان تشکیل دا جارہا ہے جس کے تحت ڈیوائیڈ،ڈیمولش اینڈ ڈویلپمنٹ پالیسی تشکیل دی جائے گی، پہلے مرحلے میں متحارب گروپ آپس میں لڑوایا گیا اور اس کے بعد ان کاخاتمہ بھی کیا گیا لیکن تیسرے مرحلے کاآغازمعلوم نہیں کب ہوگا۔

گزشتہ دور میں لیاری کے ساتھ المیہ یہ بھی ہوا کہ بنیادی تعلیم پر توجہ کے بجائے دھڑاڈھر کالج اور یونیورسٹیاں بنائی گئیں جس کے تحت صرف اور صرف وڈیروں کے بچوں کو اعلیٰ عہدوں پرملازمتیں دی گئیں جبکہ مقامی لوگوں کیلیے صرف چپراسی اور چوکیداری کی نوکریاں ہیں۔2018 کے انتخابات کے موقع پر لیاری میں بیداری کی لہر اٹھی اور یہاں کے عوام نے جاندار کردار اداکیا لیکن عوام آج بھی اس تحریک کے ثمرات سے محروم ہیں جس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں پہلے مرحلے کے طور پر لیاری کو آفت زدہ اگر نہیں تو کم از کم پسماندہ ڈکلیئرکرکے یہاں تعلیم ،صحت اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات کا اعلان کیا جائے۔دوسرے مرحلے میں سانحہ جھٹ پٹ مارکیٹ،بزنجوچوک دھماکا سمیت لیاری میں ہونے والے قتل عام کا حساب لیاجائے تاکہ مقتولین کے ورثا کی داد رسی ہوسکے۔یہ وہ اہم مسائل ہیں جن پر نہ صرف وفاقی اور صوبائی حکومت بلکہ مقتدرہ کوبھی سوچناچاہیے کیوں کہ لیاری کے لوگ آج بھی جرائم پیشہ عناصر کی ممکنہ موجودگی اور جرم کے باوجودسزائیں نہ ملنے پرخوف کاشکارہیں۔


معلوم نہیں ندافاضلی نے یہ اشعارکس لیے لکھے ہوں گے لیکن آج کے لیاری کے حالات کی عکاسی بخوبی کرتے ہیں۔
ہر ایک گھر میں دیا بھی جلے اناج بھی ہو
اگر نہ ہو کہیں ایسا تو احتجاج بھی ہو
رہے گی وعدوں میں کب تک اسیر خوشحالی
ہر ایک بار ہی کل کیوں کبھی تو آج بھی ہو
بدل رہے ہیں کئی آدمی درندوں میں
مرض پرانا ہے اس کا نیا علاج بھی ہو