تین ماہ قبل بلوچستان کے وزیر اعلی جام کمال خان نصیرآباد کے دورے پر آئے اور اس نے نصیرآباد کے صدر مقام ڈیرہ مراد جمالی اور غفور آباد میں عوامی اجتماعات اور مختلف ترقیاتی منصوبوں کا معائنہ اور افتتاح کیا ۔ اس دوران صاحب سنت اور باعمل وزیر اعلیٰ نے بہت سے لولی پاپ یعنی ترقی کے ثمرات سے عوام کو بہرہ مند ہونے کی نوید سنائی۔ ڈیرہ مراد جمالی بلوچستان کا واحد اور بدقسمت ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہے جو صوبے کا چھٹا بڑاشہر ہے لیکن یہ شہر سن ستر سے لے کر اب تک الاٹ منٹ اور مالکانہ حقوق سے محروم چلا آ رہا ہے ہر دور میں عوام کو بہلا پھسلا کر الاٹمنٹ کی نوید اور خوشخبری سنا کر ووٹ حاصل کیا جاتا ہے۔
لیکن بعد میں وہی سیاسی نمائندے بے بسی کا اظہار کرکے پانچ سال پورے کر جاتے ہیں۔ جام کمال خان دعوے ،اعلانات اور وعدوں کے بڑے دھنی ہیں وہ جو اعلان کرتے ہیں ان پر عمل درآمد ہوتا ہوا کبھی نظر نہیں آتا۔ جام کمال خان اپنے وزرات اعلیٰ کے ڈھائی سالہ دور میں دو مرتبہ نصیرآباد کا دورہ کر چکے ہیں دونوں بار اراکین اسمبلی نے انہیں شہر کی الاٹمنٹ اور مالکانہ حقوق کی فراہمی کے عوامی مطالبہ سے آگاہ کیا اور ان سے جلد الاٹمنٹ کے احکامات جاری کرنے کا مطالبہ کیا بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کے دوران راقم نے جام کمال خان سے ڈیرہ مراد جمالی شہر کی الاٹمنٹ کو سفید ہاتھی بننے کا سوال کیا ۔
تو جام کمال نے کمال مہارت سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اب ہم شہر کی الاٹمنٹ پالیسی کو سفید ہاتھی بنانے کے بجائے جلد ہی کالا ہاتھی بنائیں گے اور جلد ہی عوام کو خوشخبری ملے گی لیکن شومئی قسمت کہ اب تک نہ تو الاٹمنٹ کی خوشخبری ملی اور نہ ہی سفید ہاتھی کو کالا ہاتھی بنایا گیا بقول شاعر
غضب کیا کہ تیرے وعدے پر اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا۔
کے مصداق جام کمال خان بھی اسی طرح نصیرآباد کے عوام کو ماموں بنا کر انہیں لولی پاپ دے رہے ہیں بلکہ صوبائی وزیر ریونیو سلیم خان کھوسو کا تعلق بھی نصیرآباد ڈویژن سے ہے اور اسی حلقے میں ان کا حلقہ اثر بھی ہے جب راقم نے ان سے ملاقات کے موقع پرڈیرہ مراد جمالی کی الاٹمنٹ اور شہر کی مالکانہ حقوق کے بارے میں کردار ادا کرنے کا کہا تو انہوں نے لگی لپٹی بغیر کہا کہ آپ کے منتخب نمائندے سنجیدہ کوشش یا مخلص کردار ادا نہیں کر رہے، اسی وجہ سے الاٹمنٹ کا معمہ روز بروز سفید ہاتھی بنتا جا رہا ہے ۔جب اس سلسلے میں اراکین اسمبلی میر سکندر خان عمرانی اور حاجی محمد خان سے معلومات لی گئیں۔
تو ان کا موقف مختلف تھا ان کا کہنا تھا کہ شہر کی الاٹمنٹ پالیسی متعدد مرتبہ منظور ہو چکی ہے ہر مرتبہ نرخنامہ پر بیورو کریسی روکاوٹیں ڈال کر پالیسی کو ناکام بنا رہی ہے بلاشبہ کمرشل ریٹس مہنگے ہوں لیکن رہائشی اور ڈومیسٹک کے لئے ارزاں نرخ مقرر کریں تو اس سے محکمہ ریونیو کو بہت بڑی رقم ملے گی اور اگر صرف ڈیرہ مراد جمالی کی الاٹمنٹ سے ہونی والی رقم کو شہر کی پلاننگ اور ترقی پر خرچ کی جائے تو ڈیرہ مراد جمالی واقعی جدید ترقی یافتہ شہر بن جائے گا۔ تاہم شہر کی الاٹمنٹ کیلئے حلقہ کے منتخب رکن میر سکندر خان سنجیدہ کوشش کر رہے ہیں وہ اس حوالے سے کتنے کامیاب ہوتے ہیں۔
یہ صوبائی حکومت با الخصوص جام کمال کی خلوص نیت اور بہتر گورنس سے ہی ممکن ہے تاہم نصیرآباد کے عوام اب اس مطالبے سے بیزار ہو گئے ہیں الاٹمنٹ کا مژدہ سنانے والے ہر وقت ناکام ہو تے ہیں مجھے تعجب ہے بلوچستان کے محکمہ ریونیو پر کہ وہ ڈیرہ مراد جمالی کی الاٹمنٹ پالیسی کو منظور کرکے کروڑوں روپے کما سکتا ہے لیکن وہ اب تک کیوں شہر کی الاٹمنٹ نہیں چاہتا کیونکہ شہر کی سرکاری زمینوں پر بااثر افراد اور لینڈ مافیاز نے ایکڑوں کے حساب سے قبضہ کیا ہواہے۔ سرکاری زمینوں پر عام و خاص کو جتنا موقع ملا انہوں نے بہتی گنگا میں اشنان کیا اور اسی میدان میں ضلعی انتظامیہ کے وارے نیارے ہوتے جا رہے ہیں۔
انتظامیہ بھی اس حمام میں قبضہ مافیاز کے ساتھ ننگا نظر آتاہے۔ غریب اور شریف عوام ہمیشہ اپنی مکانات کی تعمیر پر اجازت نامہ کیلئے خوار اور درپدر ہوتے رہے ہیں اور یہ سلسلے تاہنوز جاری ہے ۔وزیر اعلیٰ جام کمال خان، منتخب اراکین اسمبلی کو اب ون ونڈو آپریشن کے فارمولے کے تحت ڈیرہ مراد جمالی شہر کو مالکانہ حقوق اور الاٹمنٹ پالیسی کی منظوری دیناہوگا اور الاٹمنٹ سے ہونے والی رقم کو شہر کی پلاننگ و ترقی پر خرچ کرنا ہوگا تاکہ صوبے کا چھٹا بڑا شہر واقعی جدید سہولیات سے مزین شہر نظر آئے۔