آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سندھ لٹریچر فیسٹیول میں بعنوان‘‘بلوچ تاریخ اور سیاست’’کے انعقاد پر پابندی عائد کردی گئی۔ سیشن کو عین موقع پر جبراً منسوخ کروادیاگیا۔ شایدوہ علم و ادب سے خوف کھاتے ہیں اور مکالمے و دلیل سے ڈر تے ہیں۔ حق اور سچ کی آواز کو جتنا دبانے کی کوشش کی جائے یہ اتنا ہی گونج اٹھتی ہے۔ اور وہ آواز آرٹس کونسل سے چند کلومیٹر فاصلے پر قائم باغ جناح میں گونجی۔ جہاں شرکاء نے مقررین کے ساتھ سیشن کا انعقاد کیا۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ بلوچ سیشن کہیں بھی ہوسکتا ہے بلوچ کے لئے سیشن رکھنے کے لئے پلیٹ فارم کی ضرورت نہیں ہے۔ 70 سالوں سے بلوچ سڑکوں پر دھرنا اور احتجاج کررہے ہیں اب بلوچ عادی ہوچکے ہیں۔ بغیر آڈیٹوریم کے بلوچ سیشن کا انعقاد کرواسکتے ہیں۔ اس کے لئے آڈیٹوریم کی ضرورت نہیں ہے۔
بعض سیاسی و سماجی حلقوں نے آرٹس کونسل کے منتظمین کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال کیا کہ آرٹس کونسل کو پاکستان کا ہائیڈ پارک کہنے والے منتظمین نے یہ فیصلہ کیا ؟ جبکہ دوسری جانب سندھ لٹریچر فیسٹیول کی انتظامیہ کے مطابق کچھ افراد کی جانب سے آرٹس کونسل کی انتظامیہ کو اس سیشن کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔ تاہم سیشن کی منسوخی کے بعد شرکاء اور مقررین نے فیسٹیول سے بائیکاٹ کیا۔ انہوں نے سیشن جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ شرکاء کی بڑی تعداد نے ہال سے نکل کر جناح پارک میں اس موضوع پر سیشن کا انعقاد کیا۔اس موقع پر ڈاکٹر شاہ محمد مری، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، عابد میر، پروین ناز اور دیگر مقررین نے بلوچ تاریخ اور سیاست کے عنوان کو جاری رکھا اور شرکاء کے سوالات کے جوابات بھی دیئے۔
‘‘بلوچ تاریخ اور سیاست’’ سیشن کے مقررین کا کہنا تھا کہ سندھ لٹریچر فیسٹول بنیادی طور پر عوام دوست، قوم دوست اور بلوچ دوست ایونٹ ہے۔ لیاری لٹریچر فیسٹول نے اسی سے جنم لیا، اس لیے ہم اسے آج بھی اپنے گھر کا ایونٹ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچ سیشن کو منسوخ کرنے کا فیصلہ ان ڈائریکٹلی آرٹس کونسل انتظامیہ کی طرف سے ہوا۔
افسانہ نگار اور سینئر صحافی کاشف رضا نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ آرٹس کونسل میں بلوچ تاریخ و سیاست پر سیشن کی منسوخی بہت افسوس کی بات ہے جب سیشن کو سماعت کرنے پہنچا تو مرکزی آڈیٹوریم کا باہر کا دروازہ ہی بند ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ گفتگو اور مکالمے کے قائل بلوچوں کے لیے بھی زمین تنگ کر دی گئی۔ مصنف اور سینئراینکرپرسن ناصر بیگ چغتائی نے سیشن کو روکنا افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ کیا تنقید کے خوف سے آپ بھاگتے رہیں گے؟ کب تک شتر مرغ بنیں گے؟۔ اگر آپ سندھ میں بلوچستان پر بات نہیں کرینگے پھر آپ کہاں بات کرینگے؟معروف کالم نویس ذوالفقار علی زلفی کا کہنا تھا کہ بلوچ کے نام سے بدکتے ہیں ، اب یہ روشن حقیقت ہے لہذا ایکسکیوز دینے کی ضرورت نہیں ہے ، ان کو سب سے بڑا مسئلہ ہی بولنے والی زبانوں اور لکھنے والے ہاتھوں سے ہے۔
فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں نے آرٹس کونسل کی اصل روح سے روگردانی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اب کونسل ایک خود مختار ثقافتی ادارہ نہیں رہا جس کا مقصد فن و ثقافت کو فروغ دینا اور فنکاروں کی فلاح و بہبود ہے۔ آرٹس کونسل اس کے برعکس کام کررہی ہے۔ یہ ادارہ 1954ء میں قائم ہوا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ یہاں فن و ثقافت کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو قانون سازی کے ذریعے اقلیت میں تبدیل کردیا گیا۔ واضح رہے کہ فنون لطیفہ جمالیاتی حس کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ ان کی مختلف اقسام ہیں جن میں موسیقی، مصوری، شاعری، سنگتراشی، فلم اور رقص شامل ہیں۔جذبات کا اظہار اور دل کو چھو لینے والی تخلیق کو ہی فنون لطیفہ کہتے ہیں۔ تاہم اب آرٹس کونسل میں صنعتکار، تاجر اور بیورکریٹس نے کی اکثریت ملے گی جس کی وجہ سے اب آرٹس کونسل ایک پروفیشنل باڈی نہیں رہی۔ کونسل کے آئین میں ترمیم کرکے اس میں ‘‘آرٹ لور’’ کو بھی ممبرشپ دینے کا فیصلہ کیا گیا جس کی وجہ سے غیر پیشہ وارانہ افراد کی بڑی تعداد نے ممبر شپ لے لی۔
چیمبر آف کامرس سمیت دیگر صنعتکار، اور تاجروں کا ایک سیلاب آگیا۔ جبکہ کراچی کی ضلعی انتظامیہ کا سربراہ بھی کراچی آرٹس کونسل کا سربراہ ہے۔ ان ساری تبدیلیوں کی وجہ سے اس کی بنیادی روح اور ڈھانچہ تبدیل ہوگیا۔ آج فنون لطیفہ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت سڑکوں پر اسٹریٹ آرٹسٹ کی شکل میں ملیں گے۔ میری اکثر کراچی کے علاقے صدر میں ایک فٹ پاتھ پر اسٹریٹ آرٹسٹ سے ملاقات ہوتی ہے۔ جب میں نے اس سے آرٹس کونسل سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کو آرٹس کونسل کی ممبر شپ نہیں ملی ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ ممبرشپ کے لئے کوالیفائی کرتے ہیں تو ان جواب کچھ یو ںتھا:‘‘اب وہاں کوالیفکیشن پروفیشن کی بنیاد پر نہیں ہوتا ہے بلکہ دولت کی بنیاد پر ہوتا ہے‘‘۔
ایک پلان کے تحت گزشتہ کئی برسوں سے آرٹس کونسل میں جعلی ممبرشپ کی گئی۔ جن کا کسی بھی فن سے کوئی تعلق نہیں ان کو یہاں پنپنے کا موقع فراہم کیا گیا اور آرٹ کونسل کا ممبر گھر بیٹھے بنایا گیا اس طرح آرٹ کونسل کی علمی ، ادبی اور دیگر سرگرمیوں میں عموماً مخصوص تاجر سرکاری و سیاسی افراد اسٹیج پر نظر آتے رہے ہیں۔ ان حالات میں کونسل کے آئین میں ترمیم کرنا ضروری ہو گیا ہے جس کے لئے قانونی طور پر ایسا فارمولا بنایا جائے جس میں آرٹس کونسل کا صدر ،گورننگ باڈی اور دیگر ارکان صرف ادیب شاعر یا کوئی ایسے فنکار ہوں جن کا کوئی نہ کوئی فن سامنے ہو ، اور آرٹس کونسل کے ممبران کی اسکروٹنی کرائی جائے۔
Nasrullah jamali
آرٹس کاؤنسل نے شب خون مارا گیا ہے ریاستی اداروں کی انگلیوں پر ناچ رہا ہے جو افسوس کا مقام ہے