سیاست کو بلاشبہ عبادت کا درجہ دیا جاتا ہے اور عوام و انسانیت کی خدمت عبادت سے ہرگز کم نہیں اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں اپنی سوچ اور نظریات پر کاربند رہ کرعوام اور علاقے کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے خدمت کرکے عبادت کی طرح اپنے مقاصد طے کرتے ہیں۔ نظریات ایک اصول اور عمل ہی کی مانند ہوتی ہیں جہاں سوچ اور خیالات کے باہمی ملاپ سے ہی نظریات چٹان بن کر سیاسی قائدین اور جماعتوں کو کامیابی وکامرانی سے ممتاز کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان کی آزادی بھی ایک نظریہ اور انسانیت کی خدمت اور اسلامی و فلاحی مملکت کے قیام کی بنیاد تھی۔
اور پاکستان میں اسی وجہ سے نظریاتی سیاست ہمہ وقت پروان چڑھتی رہی ہے ۔جنرل مشرف کے سول مارشل لاء سے قبل سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت نظریات کے پرچار اور اپنے نظریاتی و سیاسی کاز کے اصولوں پر مکمل طور پر ہمیشہ کار بند رہتے تھے۔ اسی طرح کی نظریات پر کاربند رہنے کی ایک مثال جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں ملک کے سیاسی پارٹیوں کے جیالوں ،کامریڈوں ،جمہوریت پسند رہنماوں اور قلم کاروں کو کوڑے و جیل وزندان کی صعوبیتں تک برداشت کرنی پڑی تھیں لیکن وہ آمریت کے خلاف کسی سطح پر خاموش یا اپنے نظریات سے پیچھے نہ ہٹے۔
اس طرح کی مضبوط سوچ اور نظریات پر کاربند رہنے کی وجہ سے آمریت ہار گئی تھی اور نظریاتی سیاست اور سوچ کامیاب ہو گئی تھی۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور نیپ کے رہنماء سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کو برخاست کیا گیا تو جمہوری اور نظریاتی سوچ رکھنے والے مفتی محمود نے اس طرح اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے اور سردارعطاء اللہ مینگل کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر صوبہ سرحد موجودہ خیبر پختون خواہ کی وزارت اعلی کے کلیدی منصب سے مستعفی ہوگئے تھے ۔ملک کے جمہوری مذہبی اور قوم پرست پارٹیوں میں اسی طرح کا سوچ کامیابی وکامرانی کا مظہر سمجھا جاتا تھا۔
اور اسی وجہ سے ہی سیاست میں نظریاتی سوچ کا بڑا اثر رہتا تھا اور اس دور میں تمام سیاسی پارٹیاں اپنے دیرنیہ اور قربانیاں دینے والے کارکنوں کو سیاسی مواقعوں پر اہمیت و اولیت دیتے رہے تھے یعنی انہیں انتخابی اکھاڑے میں پہلوان بنا کر ملک و علاقے کی خدمت کرنے کا نادر موقع دیاجاتا تھا۔ پارٹی ورکر کی قربانیوں اور وفاداری کے مطابق ہی انہیں انتخابی خاردار میدان میں لانچ کیا جاتا تھا لیکن جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے بعد ملک میں ابن الوقت موسمی اور ہائبرڈ سیاسی نظریہ پیدا کرنے کاباقاعدہ منصوبہ بنایا گیاجو بہت کامیاب ثابت ہوا ۔
اور اسی وجہ سے ہی مسلم لیگ ن سے مسلم لیگ ق بنایا گیا۔ وقتی طور پر قاف لیگ کو کامیابی دلائی گئی اور مسلم لیگ ن کی سیاست کو جزوی طور پر ختم کر دیا گیا لیکن مسلم لیگ ن عوامی عدالت میں پھرکامیابی حاصل کرنے لگا ،مسلم لیگ ن کی سیاست کو ختم کرنے والے خود قصہ پارینہ بن گئے۔ پارٹیاں بزور شمشیر یا طاقت ختم نہیں ہوتیں جنہیں عوامی پذیرائی حاصل ہو وہ پارٹیاں اور لیڈر عوامی دلوں پر ہمیشہ راج کرتے رہتے ہیں۔ تاہم ایسے عوامی پارٹیوں کو عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے ہی شکست سے دوچار کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں پی پی پی ہو یا مسلم لیگ نون ان دونوں پارٹیوں کو نہ تو مارشل لاء جیسی طاقتور جنرلز ختم کر سکے اور نہ ہی ان کو ختم کرنے والے جنرلوں کی اس طرح کی خواہش پوری ہو سکی۔ بالکل اسی طرح بلوچستان میں قوم پرست پارٹیوں کو کمزور کرنے اور ایک نئی ہائبرڈ سیاسی جماعت بنا کر بلوچستان پر مسلط کرنے والوں کو بھی وہ کامیابی نہ ملی جس کی امیدیں اور توقعات کی جا رہی تھیں تاہم ملک بالخصوص بلوچستان میں اس طرح کا ماحول پیدا کر دیا گیا کہ تمام سیاسی پارٹیوں سے نظریاتی اور قربانیاں دینے والے کارکن پس منظر میں چلے گئے۔
جس کی واضح مثال بلوچستان میں سینٹ کے حالیہ انتخابی میدان میں پیرا شوٹرز امیدواروں کی کامیابی اور ایوان بالا جیسے مقدس ادارے کی رکنیت حاصل کرنا ہے۔ سردست بلوچستان عوامی پارٹی پر خیبر پختون خواہ سے ستارہ ایاز جنہیں بعد ازاں دستبردار کرایا گیا جبکہ دوسرے اسلام آباد ہی کے بزنس ٹائیکون عبدالقادر جیسے افراد کو مسلط کیا گیا۔ جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے بھی نظریاتی سیاست کو سینٹ انتخابات میں دھڑن تختہ کردیا ۔ نسیمہ احسان کو پارٹی کے دیرینہ خواتین رہنمائوں پروفیسر طاہرہ احساس اور شمائلہ اسماعیل پر فوقیت دے کر پارٹی نے ایک دن قبل شامل ہونے والی رہنماء ہی کو کامیاب کرایا۔
جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی ہی کے ایڈوکیٹ ساجد ترین اور نوید کلمتی سینٹ انتخابات میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ساجد ترین غالباً تین ووٹ حاصل کر سکے جبکہ نوید کلمتی بیس ووٹ حاصل کرکے بھی ناکام رہے۔ بلوچستان جیسے قبائلی صوبے اور بی این پی جیسے نظریاتی پارٹی میں جب نظریاتی کارکنوں کی جگہ مہمان اور پیراشوٹرز رہنمائوں کو اولیت دی جائے گی اور انہیں کامیاب کیا جائے گا تو آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک اور بلوچستان میں نظریاتی سیاست اور سوچ پروان چڑھنے کے بجائے زوال پذیر اور پستی کی جانب گامزن ہوجائے گا۔
موجودہ سیاسی حالات میں جہاں نظریاتی رہنمائوں پر پیراشوٹرز کو ترجیح دی گئی وہاں سیاست نہیں بلکہ غلامانہ سوچ اور تجارتی سودا گیری کو پروان چڑھانا مقصود تھا۔ بلوچستان میں ہزاروں نوجوان ان سیاسی مذہبی اور قوم پرست پارٹیوں کیلئے جیل وزندان میں گلتے اور سڑتے رہے ہیں سینکڑوں کارکن تاحال لاپتہ ہیں سینکڑوں کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوچکی ہیں اگر اسی طرح نظریاتی اور قربانی دینے والے رہنمائوں کو ہر بار نظر انداز کیا جاتا رہا تو پھر آئندہ سینٹ کی طرح ہر میدان میں الیکٹیبل اور پیراشوٹرز کامیاب ہوتے رہیں گے۔
کیا اس طرح کے پیرا شوٹرز قابل اعتماد ہو سکتے ہیں؟ آپ اس کا اندازہ حالیہ سینٹ انتخابات میں ہی لگا سکتے ہیں سینٹ میں اپوزیشن واضح اکثریت کے باوجود شکست سے دوچار ہو گئی جب نظریاتی کارکنوں کی جگہ پیراشوٹرز کو اولیت دی جائے گی تو کیا وہ موسمی پرندے پارٹی پالیسی کے تحت ووٹ دیں گے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان میں قوم پرست اور نیشنلسٹ پارٹیاں متحد ہو کر ایک نشان اور پلیٹ فارم سے انتخابات لڑیں اور صوبے کی پسماندگی احساس محرومی، بدحالی اور عوام کو کسمپرسی کی زندگی سے نکال کر صوبے اور عوام کو جدید ترقی سے بہرہ مند کریں۔
یہ اس وقت ممکن ہوگا جب تمام قوم پرست رہنماء اپنی ضد، انا اور اسٹیٹس کو کو چھوڑ کر بلوچستان اور عوام کی فلاح وبہبود کی ترقی اور خوشحالی کے لئے متفقہ فیصلہ کریں گے اور اگر صوبے کے حقیقی قوم پرست متحد ہوں تو صوبے کے عوام بھی ان کو انتخابی اکھاڑے کا سلطان بنا دیں گے بصورت دیگر ان کی جگہ ہائبرڈ پارٹیاں اور ہائبرڈ سیاسیدان لے لیں گے ،عوام ترقی کے بجائے بدحالی اور پسماندگی سے دوچار ہوتے رہیں گے ایسے پیرا شوٹرز نمائندوں کی اولیت صوبہ اور عوام کی ترقی نہیں بلکہ اپنے بینک بیلنس میں اضافہ اور طاقتور لوگوں کی خوشنودی ہوگی۔
بلوچستان تہتر سالوں سے ترقی کے ثمرات سے اب تک بہرہ مند نہیں ہو سکا ہے اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کی ترقی ساحل وسائل کے تحفظ عوامی محرومیوں کے خاتمے ترقی و خوشحالی امن وامان کی بہتری کیلئے صوبے کی جینوئن قیادت پہل کرے اور بلوچستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرکے عوام کو جدید ترقی سے ہمکنار کرے بصورت دیگر عوام آئندہ آپ کیلئے زندہ باد مردہ باد اور پرفریب نعروں اور وعدوں پر نہ تو ساتھ دیگی اور نہ ہی آپ کے کسی بھی کال پر آپ کے مددگار ہوگی۔