پاکستان میں مذہبی سطح کی سیاست ہویا پھر بلوچستان میں قوم پرستانہ سیاست ، ان میں بلند پایہ کے سلجھے ہوئے سیاستدان اور قومی رہنما موجود ہیں جنھوں نے اپنی زندگی کا آدھے سے زیادہ حصہ سیاسی اور قومی جدوجہد میں گزارا۔قومی سطح کی سیاست ہو یا پھر صوبوں کی بدقسمتی سے اس میں اسٹیبلشمنٹ اور پس پردہ قوتوں کا ہمیشہ سے مداخلت رہا اور انھوں نے مختلف ادوار میں مذہبی ،سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کواپنے مفادات اور مرضی کے فیصلے کرنے کے لئے استعمال کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ سیاست اور سیاسی معاملات میں مداخلت بڑھائی گئی ۔
جس سے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں کمزور ہوتی گئیں حتیٰ کہ سیاسی جماعتوں کو توڑا گیا جس سے سیاست اور جمہوریت کو انتہائی کمزور کیا گیا ،حالات یہاں تک آئے کہ راتوں رات پارٹیاں بنائی گئیں اور ان میں ایسے لوگ لائے گئے جنکا سیاست سے دور کا واسطہ تک نہ تھا یا ایسے لوگوں کو حکومتی عہدوں پر بٹھایاگیا جو اس لائق نہیں۔ ان غلط فیصلوں کی وجہ سے نہ صرف ملکی وعلاقائی سیاست کاستیاں ناس ہوا بلکہ جمہوریت صرف نام کی حدتک رہ گیا۔ ان حالات کو دیکھ کر سیاسی و مذہبی رہنمائوں نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جدوجہد شروع کی اور اب بلوچستان سے بھی ایک اچھی خبر مل رہی ہے کہ بلوچستان کی تین بڑی قوم پرست جماعتیں۔
بی این پی مینگل،بی این پی عوامی اور نیشنل پارٹی کے درمیان ادغام یا اتحاد ہونے جارہا ہے بلکہ ذرائع یہی بتارہے ہیں کہ تینوں جماعتوں کے رہنمائوں بی این پی عوامی کے سربراہ میراسراراللہ خان زہری ،بی این پی مینگل کے سیکٹری جنرل جہانزیب جمالدینی اور نیشنل پارٹی کے رہنما ئسردارمحمداسلم بزنجو نے اس حوالے سے بات چیت کا آغاز کردیا ہے جوکہ ایک مثبت عمل ہے، خدا کرے کہ یہ خواہش عمل میں تبدیل ہو جائے کیونکہ یہ ہربلوچ اور ہربلوچستانی کی خواہش بلکہ بلوچستان کے سیاسی ماحول کودرست سمت میں لے جانے ،راتوں رات پاٹیاں بنانے کے عمل کوروکنے، بلوچستان اوربلوچ قوم اور ہربلوچستانی کی بقاء ۔
ساحل وسائل اور حکمرانی واختیارات کے حصول کی ضرورت ہے کہ یہاں کی سیاسی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر حقوق کی جدوجہد کرنی چاہئے۔ اگر بلوچ قوم پرست رہنمائوں نے ماضی ،ماضی قریب اور موجودہ سیاسی صورتحال,2018 کے انتخابات ،حال ہی میں ہونے والے سینیٹ الیکشن سے سبق سیکھا ہے تو امید ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر ذاتی وگروہی اختلافات اور مفادات سے بالائے طاق رہ کر متحد ہونے کافیصلہ کرینگے ۔بلوچستان کی موجودہ صورتحال کاتقاضہ اور قوم پرست سیاسی حلقوں اورہر بلوچ اور ہربلوچستانی کی خواہش اور تمنا بھی یہی ہے کہ بلوچستان میں امن ،بھائی چارہ اور ترقی و خوشحالی کے لئے قوم پرست قوتیں متحد ہوکر جدوجہد کریں۔
جبکہ بلوچ قوم پرست جماعتوں کے منشور اور عوام کودیئے ہوئے نعروں کوعملی جامع پہنانے کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ بلوچستان میں سیاسی فضا کوبحال کرنے اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کریں تاکہ وہ وفاق اور مقتدرقوتوں کواپنے مطالبات منواسکیں۔ بی این پی عوامی کے سربراہ میراسراراللہ زہری نے 2018 کے عام انتخابات کے دوران اپنے میڈیا ٹاکس اور میڈیا کے ذریعے پیغامات میں بلوچ قوم پرست جماعتوں کو متحد ہونے کا مشورہ دے کر اپنی جماعت کی جانب سے پہل کرنے کی یقین دہانی بھی کرائے تھے۔
مگر شاید ان کے اس پیش کش پر کسی نے ریسپانس نہیں دیا۔ اگر اس وقت قوم پرست متحد ہوتے تو شاید راتوں رات بننے والی باپ پارٹی نہ بنتا اور نہ ہی سینیٹ انتخابات میں منڈی لگتی۔ خیر دیر آید درست آید اب اگر قوم پرست رہنمائوں کو موجودہ صورتحال میں یہ مثبت خیال آیا ہے تو یہ انتہائی خوش آئند اور اچھااقدام ہے جسے ہرسیاسی کارکن،ہر ذی شعور انسان قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے کیونکہ اسی میں سیاسی جماعتوں سمیت ہر بلوچستانی کی بھلا ہے۔قوم پرست جماعتیں اگر انضمام تک نہیں جاسکتیں تو وہ بلوچستان میں سیاسی ماحول کی بحالی،امن وامان۔
ساحل اور وسائل پر حق حاکمیت سمیت مشترکہ قومی مفادات پر مشتمل ایجنڈے کے تحت اتحاد قائم کریں۔ امید ہے کہ تینوں جماعتیں بلوچستان کے مستقبل کا فیصلہ کرینگے۔