|

وقتِ اشاعت :   March 28 – 2021

ضلع چاغی دنیا کے امیر ترین خطوں میں سے ایک خطہ ہے۔ لیکن بدقسمتی یہاں کے باسی دنیا کے غریب ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کو پاؤں میں پہننے کے لئے چپل بھی میسرنہیں، پینے کے لئے صاف پانی نہیں، رہنے کے لئے چھت نہیں، علاج کے لئے اسپتال نہیں، پڑھنے کے لئے تعلیمی ادارے نہیں، زندہ رہنے کے لئے روزگار نہیں ہے۔ حکومتی رویے کی وجہ سے غریب عوام جسمانی اور اعصابی مسائل سے دوچار ہیں۔ پالیسی ساز ضلع کی زمین میں دفن معدنیات نکالنے کے لئے پالیسیاں تو مرتب کرتے ہیں ۔

مگر یہاں کے باسیوں کو معاشی و اقتصادی طورپر مستحکم اور قابل بنانے کے لئے کوئی حکمت عملی نہیں بناتے ۔ایک اندازے کے مطابق صرف ریکوڈک کے مقام پر 70 مربع کلومیٹر علاقے میں 12 ملین ٹن تانبے اور 21 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ تانبے کے یہ ذخائر چلی کے مشہور ذخائر سے بھی زیادہ ہیں۔یہاں سونے کے ذخائر کی مالیت 100 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ جس سے اس علاقے کی اہمیت کا اندازہ ہوسکتاہے۔ ہمارے پالیسی سازوں نے ان عظیم ذخائر کو کوڑیوں کے بھاؤ غیر ملکی شراکتوں کو بیچاہے۔

تاہم حکومت اور غیر ملکی کمپنی کے درمیان تنازعہ نے شدت اختیار کرلی جس کے باعث کمپنی کی مائننگ لیز کو منسوخ کردیاگیا جس پر غیر ملکی کمپنی نے بین الاقوامی ثالثی ٹریبیونل سے رجوع کیا اور اس ٹریبیونل نے پاکستان پر چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائدکردیا۔ایرانی سرحد سے ملحقہ پاکستانی شہر تفتان سے صرف 40 کلومیٹر کی دوری پر واقع سیندک میں سونا، چاندی اور تانبا نکالنے کا کام گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے جس پرایک چائینز کمپنی کام کررہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک یہاں سے ڈھائی لاکھ ٹن تانبا اور ہزاروں کلوگرام سونا حاصل کیا جا چکا ہے۔

اور پاکستان نے منافع اور ٹیکسوں کی مد میں 437 ملین ڈالرز کمائے ہیں۔ سیندک پراجیکٹ کے دیگر حصوں میں بلین ڈالرز کے ذخائر موجود ہیں۔ ذرائع کے مطابق سیندک میں چھ سو کے قریب چائینز افسران اور ملازمین جبکہ دوہزار کے قریب دیگر ملازمین ہیں جن میں مقامی ملازمین کی تعداد کافی کم ہے۔ جس کی وجہ سے ضلع چاغی میں بے روزگاری ایک اہم مسئلہ ہے۔ یہ ضلع رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس کی آبادی تقریباً ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اور چار تحصیلوں پر مشتمل ہے۔ جن میں تحصیل چاغی، تحصیل نوکنڈی، تحصیل دالبندین اور تحصیل تفتان شامل ہیں۔

ضلع چاغی کی سرحدیں افغانستان اور ایران کے ساتھ لگتی ہیں۔ ضلع کے لوگوں کا ذریعہ معاش سرحد پر خوردونوش، تیل سمیت دیگر نوعیت کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ حکومت نے افغانستان اور ایران کی سرحدوں کے ساتھ باڑ لگانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ سیاسی حلقوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ باڑ لگانے سے قبل علاقے میں میں روزگار کے متبادل ذرائع بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کاروبار بند ہو گیا اور متبادل کچھ نہ ہو تو دیگر معاشرتی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت سب سے پہلے ان علاقوں میں ایک بڑا معاشی پیکج دے۔

اس پر عمل درآمد کے بعد اس طرح کا فیصلہ کیا جائے۔ بغیر کسی معاشی پیکج کے اس طرح کی معاشی پابندیاں عوام کو مزید دیوار کے ساتھ لگانے کے مترادف ہوگا کیونکہ اس کاروبار سے لاکھوں لوگ منسلک ہیں۔سینیٹ میں دوسری مرتبہ منتخب ہونے والے چیئرمین صادق سنجرانی کا تعلق بھی ضلع چاغی کے علاقے نوک کنڈی سے ہے۔ ان کے والد خان محمد آصف سنجرانی کا شمار علاقے کے قبائلی رہنماؤں میں ہوتا ہے میر صادق سنجرانی کے ایک بھائی محمد رازق سنجرانی سیندک پروجیکٹ کے ایم ڈی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے ان کے بھائی کو ایم ڈی سیندک لگایا جو آج تک اس عہدے پر فائز ہیں۔

صادق سنجرانی سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی شکایات سیل کے سربراہ بھی رہے۔ آج سنجرانی صاحب اتنے پاور فل ہوگئے کہ انہوں نے سابق وزیراعظم اور پی ڈی ایم کی گیارہ جماعتوں کے امیدوار یوسف رضاگیلانی کو بری طرح شکست دے دی۔ اتنے کم عرصے میں سنجرانی سیاسی طور پر اتنا مضبوط کیسے ہوا؟ اس پر پی ایچ ڈی کرنے کی ضرورت ہے۔ دو دفعہ سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہونے والے شخص کا آبائی ضلع آج ملک کا پسماندہ ترین ضلع ہے۔ یہاں کے لوگ زندگی کی آخری سسکیاں لے رہے ہیں۔ ان کے لئے دو وقت کی روٹی حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

جہاں نہ روزگار، نہ تعلیم، نہ صحت کی سہولیات موجود ہیں۔آج بھی کوہ راسکو چیخ رہا ہے۔ اس کے باسیوں کے زخموں پر کوئی مرہم نہیں رکھاگیا۔ وہ مختلف امراض میں مبتلا ہیں۔ اٹھائیس مئی انیس سو اٹھانوے کو راسکو میں ایٹمی دھماکہ کیاگیا۔ راسکو جس کو تاریخ میں کوہ برفین کے نام سے بھی جانا جاتا ہے یہ دوسو پچاس کلومیٹر طویل ایک پہاڑی سلسلہ ہے جوخاران اور چاغی کی سرحدی پٹی پر واقع ہے اس سلسلے کا بلند ترین چوٹی کوہ راس ہے جس کی بلندی تقریباً دس ہزار فٹ ہے اس سلسلے میں بہت سے مشور پہاڑ واقع ہیں جن میں کوہ ملک سیاہ ، ملک سرندہ ، کوہ رباط ، گاو کوہ اور دیگر شامل ہیں۔

تاریخی طورپر چاغی کو ویسٹرن سنجرانی اسٹیٹ بھی کہا جاتا ہے۔ کچھ مورخوں کا کہنا ہے کہ سنجرانی رند قبائل کی ذیلی شاخ ہے۔ بعض مورخ لکھتے ہیں کہ وہ نسلاً ترک ہیں۔ جو چاغی کے حکمران تھے۔ تاہم سرحد کے اس پارافغانستان میں رہنے والے سنجرانی اپنے آپ کو کاکڑ (پٹھان) قبیلے کی ذیلی شاخ سمجھتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سنجرانی قبیلہ وقت اور حالات کے ساتھ درست فیصلہ کرنے والا قبیلہ ہے۔ یعنی جیسا دیس ویسا بھیس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ جو بھی طاقتور ہوگا ان سے رشتہ داری کرنے کے ماہر ہیں۔ آج کل پاکستان میں تخت پاکستان کے حکمرانوں سے اچھے تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں ۔

جس کی بدولت وہ کسی جماعت کے رکن بنے بغیر سینیٹ کے دوبار چیئرمین منتخب ہوجاتے ہیں۔تاہم سنجرانی برادری کو ساسولی قبیلہ کی بھی پشت پناہی حاصل ہے۔ ساسولی برادری کا ووٹ فیصلہ کن ہوتا ہے۔ وہ جس کو سپورٹ کرے وہی کامیاب ہوجاتا ہے۔ ساسولی قبیلہ کی ایک بڑی تعداد ضلع چاغی میں آباد ہے۔ ساسولی برفت بلوچوں کا قبیلہ ہے جو ایران ، افغانستان اور پاکستان میں آباد ہے۔ بلوچستان اور سندھ میں رہنے والے ساسولی بروہی ، بلوچی، جدگالی اور سندھی زبان بولتے ہیں اور افغانستان میں پشتو بولتے ہیں۔

کسی زمانے میں یہاں نوتیزئی قبیلہ نے بھی ایک عرصے تک حکمرانی کی۔ نوتیزئی شجرہ نسب کے حوالہ سے نویں پشت پر امیر جلال خان اور تیرویں پشت پر مشہور سلسلہ لاشار سے جاملتا ہے۔اس قبیلے کے لوگ ایران افغانستان اور پاکستان میں آباد ہیں۔کسی زمانے میں یہاں سردار فتح محمد حسنی کا طوطی بولتا تھا۔آج کل ان کے بھائی عارف محمد حسنی رکن بلوچستان اسمبلی ہیں۔ ضلع میں محمد حسنی قبیلہ کی بڑی تعداد میں بھی آباد ہے۔ محمد حسنی بلوچ قوم کا اہم قبیلہ سمجھاجاتاہے مقامی زبان میں انہیں ممسنی کہا جاتا ہے۔ ایران میں ایک شہر بھی بنام شہرستاں ممسنی موجود ہے۔

ممسنی مہرگڑھ کے قدیم ترین باشندے ہیں، اس قوم کاذکر سکندر اعظم کی تاریخوں میں یونانی اور لاطینی زبانوں میں بھی آیا ہے، سکندر اعظم کی فوجوں سے ان کی جنگ بھی ہوئی۔ضلع چاغی میں رہنے والے لوگوں کی زندگی کے ساتھ ساتھ یہاں کے دیگرجاندار بھی زندہ رہنے کے لئے چیخ و پکار کررہے ہیں۔ ان کا بے دردی سے شکار کیا جاتا ہے۔ پورے علاقے کو سعودی اور اماراتی شہزادوں کے حوالے کردیاگیاہے۔ عرب شیخ یہاں آکر پرندوں اور جانوروں کا شکار کرتے ہیں۔ جس سے ان کی نسل کشی ہورہی ہے۔ اور یہ سرگرمیاں سرکاری سرپرستی میں ہورہی ہیں۔

کوئٹہ ٹو تفتان انٹر نیشنل روڈ کی حالت بھی انتہائی خستہ ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ حادثات ہوتے ہیں۔ ضلع میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں بجلی کا کوئی کھمبہ اور ٹرانسفارمر نہیں ہے۔ لوگ سروس تار ایک میٹردور تک لکڑی کے بانسوں پر لگا کر بجلی حاصل کررہے ہیں جو کسی بھی وقت حادثے کا سبب بن سکتے ہیں۔ضلع بھر میں بیماریوںمیں تشویشناک حد تک اضافہ کی وجہ سے لوگ کوئٹہ شہر کا رخ کرتے ہیں۔ ڈی ایچ کیو دالبندین میں ڈاکٹر اور ادویات کی کمی ہے۔ جس سے مریضوں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پورے ضلع میں ایک بوائز اور ایک گرلز ڈگری کالج ہے جو تحصیل دالبندین میں قائم ہے جبکہ دیگر تین تحصیلوں میں بچے ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کرکے تعلیم کو خیرباد کہتے ہیں۔ کیونکہ وہاں کالج کی سہولت میسرنہیں ہے۔ جبکہ دالبندین ان علاقوں سے کافی دور واقعہ ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ باقی تحصیلوں میں بھی ڈگری کالجز قائم کئے جائیں۔ ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ضلع میں ایک مائیننگ انجینئرنگ یونیورسٹی قائم کی جائے کیونکہ یہ ضلع معدنی دولت سے مالا مال ہے تاکہ یہاں کے لوگ مائیننگ بزنس میں اپنا اسکل ڈیولپ کرسکیں۔

ضلع کے مضافاتی علاقوں میں سڑک نہ ہونے کی وجہ سے مقامی مائینز اونرز کو معدنیات نکالنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اور معدنیات پر حکومتی ٹیکس میں کمی کی جائے تاکہ اس کاروبار کو مزید فروغ مل سکے۔ یہاں مقامی مائینز اونرز کو غیر مقامی افراد کے ہتھکنڈوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں مختلف بہانوں سے تنگ کیا جاتا ہے۔ تاکہ وہ اپنی اراضی سے نکلنے والی معدنیات غیر مقامی افراد کے حوالے کردیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ضلع چاغی میں روزگار کی فراہمی پر توجّہ دے، سیندک سمیت دیگر منصوبوں میں مقامی افراد کے لیے ملازمتوں کی فراہمی یقینی بنائے۔ نیز، زمین داروں اور گلہ بانوں کو سہولتیں اور مراعات دے، تاکہ وہ بلوچستان کی ترقّی و خوش حالی میں اپنا حصّہ ڈال سکیں۔