مملکت خداداد میں بلدیاتی نظام پر نظردوڑائی جائے تو کہیں بھی ملک کی نصف آبادی خواتین کوموثر نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔ یہاں بلدیاتی نظام کی بات کی جائے تو برٹش بلوچستان کے دور میں 1910ء میں بازار فنڈ ریگولیشن اور کوئٹہ میونسپل لاء کے تحت بلدیاتی نظام رائج کیا گیا جبکہ 1952ء میں امریکن امداد کے تحت “ویلج ایڈ” یعنی دیہات سدھار پروگرام شروع کیا گیا۔ مگر بیرونی امداد بند ہونے کے سبب 1961ء میں دیہات سدھار پروگرام ختم کر دیا گیا۔
1961ء میں ایوب خان مرحوم کے مارشل لاء دور میں بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرایا گیا جسے بیرونی ممالک نے بھی پسند کیا ۔اس پروگرا م نے بھی عوام میں پذیرائی پائی اور شہری و دیہی علاقوں میں عوام کی شمولیت صحت مند رہی۔ بہرحال اس پروگرام کو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کالعدم کردیا گیا۔ بھٹو دور میں لوکل گورنمنٹ سسٹم کیلئے قانون سازی تو ہوئی لیکن نظام کو عملی شکل نہ دی جاسکی ۔اسی دور میں”دیہی ترقیاتی مربوط پروگرام” (IRDP)شروع کیا گیا بدقسمتی سے انتظامیہ کی عدم دلچسپی اور بلوچستان کے قبائلی نظام جو اُس وقت سیاسی کروٹیں لینا شروع کر چکا تھا ، کے سبب یہ پروگرام کامیاب نہ ہوسکا اور اسے 1977-78ء میں لوکل گورنمنٹ میں ضم کرنا پڑا۔
بلدیاتی نظام ضیاء الحق مرحوم کے مارشل لاء دور 1979ء سے شروع کیا گیا جس کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی گئی ۔ اِس نظام کے تحت تمام لوکل کونسلوں یعنی ضلع کونسل ، میونسپل کارپوریشن ، میونسپل کمیٹی ، ٹائون کمیٹی اور یونین کونسل کی تمام نشستوں پر انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے طے پایا۔ کونسلوں میں مخصوص طبقات یعنی لیبر ، کسان اور خواتین کے لئے بھی نشستیں متعین کی گئیں اس نظام کے تحت اب تک چار مرتبہ 1979ء ، 1983ء ، 1987ء اور 1992ء میں انتخابات منعقد ہوئے ۔ قواعد و ضوابط کے مطابق لوکل کونسلوں کا دورانیہ 4سال مقرر کیا گیا ۔
بلدیاتی نظام میں پہلے 5سال اداروں کی کارکردگی، کونسلروں اور چیئرمینوں کی دلچسپی قابل تحسین رہی ۔ نظام کے آغاز میں ضیاء الحق مرحوم کی ذاتی دلچسپی کی بنا پر مرکزی حکومت نے بلدیاتی اداروں کی مالی امداد کی ۔ چونکہ 1985ء تک سیاسی حکومتیں وجود میں نہیں تھیں لہذا لوکل کونسلوں کی افادیت کو تسلیم کیا جاتا تھا۔ صوبائی حکومت بھی وافر فنڈ فراہم کرتی رہی۔ 1985ء کے بعد لوکل کونسلوں کی حیثیت درجہ بدرجہ گرتی چلی گئی اور کئی ضلع کونسلیں تو سیاسی اکھاڑے بن جانیکی وجہ سے اِس قدر مالی خسارے میں چلی گئیں کہ غیر ترقیاتی اخراجات کیلئے بھی صوبائی حکومت کو سوال پیش کرتی ہیں ۔ 1985ء سے چونکہ ترقیاتی فنڈز ممبران نیشنل اسمبلی ، سینیٹ و صوبائی اسمبلی کے سُپرد ہونا شروع ہو گئے جس نے بلدیاتی نظام کو ایک لحاظ سے جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیا۔
پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالتے وقت جس سات نکاتی ایجنڈا کا اعلان کیا تھا اس میں معیشت کی بحالی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سیاسی نظام کی اصلاح بھی موجود تھی ۔ اس ضمن میں حکومتی اداروں نے مفاد عامہ کی تنظیموں کے ساتھ مل کر ملک کے لا تعداد سیاسی ، سماجی ، مذہبی ، علمی اداروں بالخصوص معاشرے کے محروم طبقوں سے وسیع تر اور بار بار مشوروں کے بعد اس منصوبے کو تیا رکیا اور چودہ(14) اگست 2000ء کو قوم کے سامنے پیش کیا ۔ اس طرح حکومت نے قومی اہمیت کے حامل اس بنیادی منصوبے کو عوامی مشاورت کے لئے ہر سطح پر پیش کر کے رائے عامہ کو شامل کرنے کی حوصلہ افزائی کی ۔
مقامی حکومتوں کے اس نئے نظام میں یونین کونسل کو ایک حلقہ بنا یا اور ہر حلقہ میں زیادہ نشستیں ہونے کے باعث جو طبقات احساس محرومی کا شکار تھے اُن کو اس نظام میں شامل ہونے سے زیادہ مواقع حاصل ہونگے۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی وجہ سے فیصلہ سازی میں عوام کی شمولیت بڑھ گئی، مقامی اداروں کے مقابلے میں مقامی حکومتوں کا تصور، عورتوں کی 33فیصد نمائندگی، عوامی رضاکار تنظیموں کے لئے سٹیزن کمیونٹی بورڈ، کسانوں اور مزدور مردوں اور عورتوں کو نمائندگی، پبلک سیفٹی کمیشن کا قیام اور عوام کے لئے بہت سے فائدہ مند اقدامات شامل کئے گئے ہیں ۔ بلدیاتی نظام کی ایک چھوٹی سی تاریخ کامقصد ان میں خواتین کیلئے نمائندگی کاجائزہ تھا ۔یہاں نیا لوکل گورنمنٹ سسٹم کے علاوہ کہیں بھی خواتین کو اس طرح نمائندگی نہیں دی گئی تھی حالانکہ مقامی حکومتیں جمہوریت میں سیاسی درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہیںکیونکہ جب مقامی سطح پر مسائل کے حل کے لیے نمائندگان کو مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے تو یہی وہ عمل ہے۔
جس سے گزرتے ہوئے مقامی سطح پر متبادل سیاسی قیادت کو فروغ ملتا ہے ۔ اسی طرح نمائندگان مقامی حکومتوں سے ہوتے ہوئے اعلیٰ پارلیمانی ایوانوںمیں پہنچتے ہیں جہاں وہ عوامی توقعات اور خواہشات کی صحیح نمائندگی کرسکتے ہیں کیونکہ وہ عوام کے مسائل اور ان کی وجوہات سے آگاہ ہوتے ہیں۔مئی 2010میں حکومتِ بلوچستان کی کابینہ نے ’’ لوکل گورنمنٹ ایکٹ2010 ‘‘ کی منظوری دی لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2010 ء کی منظوری تک یہ خوش فہمی ضرور تھی کہ مقامی حکومتوں کا نظام 2000-01ختم نہیں ہوگا تاہم اس میں چند ترامیم ہوں گی۔ بلوچستان کابینہ نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ2010 ء نے مئی 2010میں منظوری دی۔
’’ لوکل گورنمنٹ ایکٹ2010 ‘‘ لوکل گورنمنٹ کا نظام 1979/80 ء میں کچھ ترامیم کرنے کے بعد نافذ کیاگیا ۔ حکومت کے مطابق کہ لوکل گورنمٹ ایکٹ2010ء ہی مسائل کو حل کر سکتا ہے اور مقامی حکومتوں کے ایک بہتر نظام کا نمونہ ثابت ہو سکتا ہے۔جنوری 2014 میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2014کا ترمیم شدہ ایکٹ منظور کیا گیا جو کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2010میں ترمیم کی گئی تھی۔ موجودہ نظام نے پسے ہوئے طبقات بالخصوص خواتین ، اقلیتوں، کسان اور مزدوروں کو باقاعدہ نمائندگی دی ۔ پاکستان کی62سالہ تاریخ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 2000-01کی حکومت نے ان محروم طبقات کو بھی مناسب نمائندگی دی جس میں خواتین کو 33فیصد ، اقلیتوں، کسان مزدوروں کو 5فیصد نمائندگی ملی تھی ۔
پاکستان کی سیاست میں گو کہ بعض خواتین کافی نمایاں رہیں لیکن پھر بھی سیاست میں خواتین کا کردار محدود ہی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے لیے پانچ فیصد خواتین کو عام نشستوں پر امیدوار نامزد کرنے کی شرط عائد کی ہے۔پاکستانی سیاست میں آج کل الیکٹیبلز کا کافی چرچا ہے لیکن الیکٹیبلز یا ایسے افراد جن کا الیکشن جیتنے کا امکان تقریباً سو فیصد ہو، ان میں خواتین اور خصوصاً عام خواتین سیاسی کارکن نہ ہونے کے برابر ہیں۔
مقامی حکومتوں میں خواتین کو33فیصد نمائندگی دینے کیلئے سائوتھ ایشیا ء پارٹنر شپ پاکستان اور عورت فائونڈیشن نے پاکستان بھر میں عورتوں کو ہر سطح پر 33%نمائندگی کی عوامی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔یہ مہم قومی پروگرام جذبہ ، جمہوریت اور بااختیار عورت کے تحت منعقد کی جارہی ہے عورتوں کو 33فیصد نمائندگی کے اس مہم میں دس نکاتی مطالبات جن میں صوبائی سطح پر فی الفور تمام نشستوں پربراہ راست بلدیاتی انتخابات ،خواتین کی نشستوں کے مخصوص کوٹے میں 33فیصداضافہ اور ان پر خواتین کیلئے براہ راست طریقہ کار متعین ،مزدوروں،اقلیتوں، افراد باہم معذوری ،خواجہ سرائوں اور نوجوانوں کیلئے کم از کم 5فیصد یا ایک ،ایک نشست یقینی بنانے ،سیاسی جماعتوں کو قومی ،صوبائی نشستوں کی طرح بلدیاتی نظام میں بھی 5فیصد خواتین کی نامزدگی کیلئے پابند کرنا۔
بلدیاتی حکومتوں میں فیصلہ سازی کیلئے خواتین کی برابر شراکت داری یقینی بنانا ۔بلدیاتی نظام میں خواتین کو مضبوط اور مستحکم کرنے کیلئے ضلعی سطح پر وومن کوکیسز(Causes)بنانے ،خواتین کونسلرز کی سیاسی اہلیت کو بہتر بنانے کیلئے تربیتی پروگرام لازمی قراردینے ،خواتین ، اقلیتوں ، افراد باہم معذوری اور خواجہ سرا ووٹرز کے اندراج کو یقینی بنانے کے لئے خصوصی مہمات چلانے اور خواتین ، اقلیتوں ، افراد باہم معذوری اور خواجہ سرا ووٹرز کی پولنگ اسٹیشن تک رسائی کو یقینی بنانے کیلئے مناسب اقدامات جیسے مطالبات شامل ہیں ۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے خواتین کو 33فیصد نمائندگی دینے سے متعلق موقف اختیار کیاگیاہے کہ یہ پالیسی سازوں کا دائرہ اختیار ہے اگر پالیسی ساز خواتین کیلئے 33فیصد نمائندگی دینے کیلئے قانون سازی کرتی ہے تو معاملہ آگے بڑھنے میں آسانی پیدا ہوگی تاہم جب تک قانون سازی نہیں ہوتی یہ مسئلہ جوں کا توں رہے گا تاہم الیکشن کمیشن افراد باہم معذوری اور خواجہ سرا ووٹرز کیلئے پولنگ بوتھ میں الگ سے ووٹوں کی اندراج کو یقینی بنانے کیلئے ممکنہ اقدامات اٹھاسکے گی ۔