مو جودہ بجٹ اجلاس میں بلو چستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے صدر سردار اختر جان مینگل نے حکمران اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر کے پا کستان تحریک انصاف کے حکومت کو دھچکا لگا یا۔علیحدگی کا اعلان قوم کے لیئے اچھا شگون نہیں۔حکومت پر الزام لگایا گیا کہ وہ بلوچستان کے مسائل پر غیر سنجیدہ رویہ اختیار کئے ہوئے تھااور وہ ان دو معاہدوں پر عمل درآمد میں ناکام ہوئی جو تحریک کے لیڈر شپ سے حکومت بنانے سے پہلے اور2018 کے الیکشن کے بعد ہوئے تھے ۔دو تکلیف دہ مسائل جو سردارمینگل نے اپنی تقریر میں اٹھائے۔
گمشدہ افراد اور ’’کائو نٹر ٹیرورزم نیشنل ایکشن پلان‘‘(Counter terrorism National Action Plane )پر عملدرآمد نہ کر نے کے بارے میں تھے۔بی این پی اور پی ٹی آئی نے مر کز میں اتحاد کے لیئے 6 پوائنٹ ایم او یو (MoU )پر اگست 2018 میں دستخط کئے ، جن میں گم شدہ افراد کی با زیابی، نیشنل ایکشن پلان (NAP )پر عمل درآمد،فیڈرل گورنمنٹ کے ملاز مین بلو چستان کے 6pc کوٹہ پر عمل درآمد،افغان مہا جرین کی بلوچستان سے جلد واپسی اور بلو چستان میں چھو ٹے ڈیمزکی تعمیر شامل تھے۔
اس معاہدے پر توجہ نہ دینااسلام آباد کی پالیسی سازی میں مہلک نقص (Fatal Flaw )کو ظاہر کر تی ہے۔متعلقہ طاقتوں کی بلو چستان کے زخموں پرمرہم نہ رکھنے کے رویے نے بلوچستان میں غصے اور بے چینی (Anger and Anguish )کے جذبات کو ہوادی۔ چھ نقاط میں پہلا مطالبہ گم شدہ افراد کی بازیابی کا تھا۔2013-2017 تک ریاستی اداروں نے بلوچ سیاسی کار کنوں کے خلاف ’’مارو اور پھینکو‘‘(Kill and Dump ) کی پالیسی اپنا ئے رکھی ۔اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوئیں ۔
اس سفا کانہ حکمت عملی (Draconian Strategy ) کو سوچ کر’’گاجر اور چھڑی‘‘(Carot and stick ) کی پا لیسی سے بدل دی گئی جس کے نتیجہ میں چند سو گمشدہ بلوچ نوجوان بازیاب ہوئے۔جنہیں سول آرمڈ فورسز اور خفیہ اداروں نے اغوا کیا تھا۔اگر چہ ایم او یو پر دستخط کے با وجود شورش پسندوں اور ریاست کی جوابی کاروائیاں جاری رہیں۔دسمبر 2014 میںسی ٹی این اے پی(CT NAP )کے توسط سے تمام سیاسی پار ٹیوں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں اتفاق ہواکہ مفا ہمت کے لیے وہ بلوچ پارٹیاں اور گروہ جو آئین کو تسلیم کر تی ہیں۔
کے ساتھ امن کے لیے ایماندارانہ کو ششیں کی جا ئیں ۔ اس کے نتیجہ میں 2015 میں اہم حکو متی نما ئندوں نے لندن اور جنیوا جاکربلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ ریپبلکن آرمی کے لیڈرشپ سے ملاقات کی۔انکا رویہ مثبت تھا۔لیکن پردے کے پیچھے دونوں جانب کے سخت موقف رکھنے والوں کی وجہ سے سلسلہ جنبانی تعطل کا شکار ہوا۔بلو چستان لبریشن فرنٹ (BLF )کے لیڈرشپ جو مڈل کلاس کے نوجوانوں کی نما ئندگی کرتی ہے نے پہلی بار اس نچلے درجے کے انسر جنسی کا کنٹرول قبائلی سرداروں سے لے لیا۔عسکری تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عروج کے وقت بی ایل ایف کے ساتھ 6000 مسلح لوگ تھے ، پھر ریاست کی ۔
’’گاجر اور چھڑی‘‘ کی تر غیب سے ان کی تعداد کم ہو گئی۔گمشدہ لوگوں کے مسئلے کا حل اور مفا ہمت آئین کے اندر رہتے ہوئے نیشنل ایکشن پروگرام (NAP )پر عملدرآمد سے ممکن ہے۔طاقت کا استعمال دل و دماغ کو تسخیر نہیں کر سکتا۔ہمارے دو سویلین وزرائے اعظم اور فوج کے زیر کنٹرول انٹیلی جنس ایجنسیزعرصہ دراز سے ماورائے قانون کام کرتے رہے۔انہیں قانون اور پار لیمنٹ کے سامنے لازمی جوابدہ کر نا چاہیے۔خفیہ ادروں کو قانون کے تابع لانے کی سابقہ حکو متوں کی دو کو ششیں ردی کی ٹوکری کی نظر ہو گئیں۔NAP پر عمل درآمدکا از سر نو جائرلینے اورقومی سلامتی کے لیے کم از کم ایک پا رلیما نی کمیٹی ہو نی چا ہیے ۔
مجھے اپنے قا نون سازوں پر افسوس ہو تا ہے کہ وہ اپنا راستہ بھول کے طاقت کے مرا کز چاہے وہ جو بھی ہوں کو خوش کر نے پر لگے ہیں۔تحکمانہ ایجنڈے سے مطابقت کے معنی رینگتی انقلاب کو دعوت دینا ہے۔بد قسمتی سے جبری گمشدگیوں پر کمیشن بری طرح ناکام ہوئی۔بین ا لا قوامی وعدوں کے با وجود پا کستان جبری گمشدگیوں کے خلاف قانون بنا نے میں بری طرح ناکام ہوا اور ریاست نے اپنا اعتبارکھودیا۔کمیشن کے چیر مین ان گھرانوں کی جن کے پیارے غائب ہیں کے کرب کو محسوس کر نے کی بجائے زیادہ سے زیادہ سرکاری عہدے اپنے پاس رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔
بی این پی مینگل کے 6 فیصد کوٹہ کے مطالبے کو پی ٹی آئی نے نظر انداز کیا۔وفاقی حکو مت کے کتنے سیکٹریز، ڈیپار ٹمنٹ اور ایجنسیوں کے سربراہ بلوچستان سے ہیں؟2 فیصد سے بھی کم۔ان امیدواروں کے مسئلے کو جلد حل ہونا چاہیے جوبلو چستان کے کو ٹے پر پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سول سروس آنے کے انتظار میں ہیںپاکستان کے بہترین یونیورسٹیوں اور کا لجز میںبلوچ طلبا ء کو پڑھنے کے لیے وظائف دینی چا ہییں ۔بلوچ ریاست سے اختیار(Empowered ) چاہتے ہیں نہ کہ دشمنی۔وہ ہم میں سے ہیں اور ہم ان میں سے ہیں۔
بلوچ کلچر کو سمجھنے اور ہمدردی اور شفقت کی ضرورت ہے۔دوسرے صوبوں کے سول ملاز مین کی پرو مو شن کے لیے لازم ہو اپنی ملازمت کے درمیانی لیول (Mid career lavel )میں دوسال بلوچستان میںکام کریں ۔اسلام آباد میں کام کرنے والے اکثر ملاز مین بلوچستان کی تاریخ ، ثقافت،جغرا فیہ اور اقدارسے ناواقف ہیں۔افغان مہاجرین کی بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے واپسی کائونٹر ٹیرورزم نیشنل ایکشن پلان (CT- NAP ) کا اہم حصہ ہے۔افغان جنگ کے نتیجہ میں سٹریٹیجک مجبوریوں (Strategic compulsion )کی بنا ء پراس مسئلے کوسرد خانے(Cold storage ) میں ڈال دیا گیا۔
اب جبکہ پا کستان افغان امن بات چیت میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے یہ مناسب وقت ہے کہ افغان مہا جرین کی واپسی کا طریقہ کار (Mondalities )طے کیے جائیں۔افغان مہا جرین الیکشن کے دوران پشتونوں کی نما ئندہ سیاسی جماعتوں کی مدد کرتے ہیں جنہوں نے قومی شناختی کارڈ بنا نے میں ان خاندانوں کی مدد کی(Wield ) جو کوئٹہ اور گردو نواح میں آباد ہیں۔ مہا جرین کا ایک مناسب حل نکالنا چاہیے نہ کہ زبردستی انہیں وار زون میں دھکیلا جائے۔