پاکستان میں سویلین بالادستی کی تبلیغ کو کئی دہائیاں بیت چکی ہیں۔ مادرِ ملت متحرمہ فاطمہ جناح کا ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخابات میں حصہ لینا ہو یا ایم آر ڈی کی تحر یک ، سویلین بالادستی کا خواب اب بھی تعبیر کی منتظر ہے۔ بظاہر ملک میں متفقہ آئین نافذ ہے اور اٹھارویں ترمیم کو انقلابی پیش رفت بھی قرارد یا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود سویلین بالا دستی کا حصول تشنگی کا شکارہے۔ امید تھی کہ موجودہ عہد میں ظہور پذیر اپوزیشن اتحاد یعنی پی ڈی ایم سویلین بالادستی کے قیام کے لئے تاریخ رقم کرے گی لیکن پی ڈی ایم شاید خود تاریخ بننے جارہی ہے۔
پی پی پی جو سوشلزم کا نعرہ’’ روٹی کپڑا اور مکان ‘‘لیکر آئی تھی اور چھا بھی گئی لیکن رفتہ رفتہ اس جماعت کی ہئیت اور حیثیت کی چادر میں چھید پڑگئی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پی پی پی قومی جماعت ہوا کرتی تھی اب اس کی وہ حیثیت نہیں رہی۔ سیاسی تجز یہ نگاروں کے مطابق اس کی اہم وجہ پی پی پی میں روایتی سیاست کی پود کا پیدا ہونا ہے۔ تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پی پی پی نے جمہوریت کے قیام کے لئے لازوال قربانیاں پیش کی ہیں اور اس کے جیالوں نے آمریت کا مر دانہ وار مقابلہ بھی کیا ہے لیکن اب اس میں وہ رومانس باقی نہیں رہا جس کی وجہ تسمیہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ پی پی پی مصلحت پسندی کا شکار ہوگئی ہے۔
پی پی پی کا موقف ہے کہ پی ڈی ایم اس کی خواہش پر بنی تھی لیکن پی ڈی ایم کے مبینہ دھڑن تختہ کا الزام بھی پی پی پی پر لگایا جارہا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں پی پی پی کے مرکزی رہنماء سابقہ وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کی غیر معمولی فتح کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ شاید پی ڈی ایم اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی لیکن سینیٹ چیئرمین کے انتخابات کے بعد’’ ہنوزدلی دور است‘‘ کی مثال غالب آ گئی اور نظام کوہائی جیک کرنے والوں کی نیت کا پتہ بھی چل گیا۔
پی ڈی ایم کی جدوجہد کا محور کوئی چھبیس نکات تھے۔
لیکن جب سینیٹ میں قاعد حزبِ اختلاف کے چناؤ کا وقت آیا تو پی ڈی ایم میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ جب پی پی پی نے دیکھا کہ بات نہیں بن رہی ہے تو اس نے حکمران جماعت کے اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی کے سنیٹرز کو اپنے ساتھ ملاکر یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں اپنا قاعد حزبِ اختلاف منتخب کرایا۔جماعت اسلامی سینیٹ کے مجموعی اور اس کے بعد چیئر مین سینیٹ کے انتخابات میں غیر جانب دار رہی تھی۔جماعت اسلامی کا اس حوالے سے موقف تھا کہ ملک کو جو حالات در پیش ہیں اس کا ذمہ دار موجودہ حکمرانوں کے علاوہ سابقہ حکمران بھی ہیں، اس لئے وہ اس گناہِ بے لذت میں شامل نہیں ہوسکتا۔
حیرانگی کی امر یہ ہے کہ پھر یہی جماعت اسلامی، پی پی پی کو سینیٹ میں قاعد حزبِ اختلاف کے لئے اپنا تعاون پیش کرتی ہے۔ سیاست میں اس کو دہرے معیار کا نام دیا جارہا ہے۔بات ہورہی تھی سویلین بالادستی کی مگر پی ڈی ایم میں شگاف کے بعد جمہوریت پسند قوتوں کو اس کے لئے مایوسی کا سامنا کرناپڑا ہے۔ ایک مرتبہ مرحوم حاصل خان بزنجو نے کہا تھا ’’جب بھی ملک میں جمہوریت کے قیام کے لئے راہ ہموار ہوتی دکھائی دیتی ہے تو قومی دھارے کی بڑی جماعتیں جل دیکر اپنا چادر اور اپنا پاؤں کے مصداق “کچھ لو کچھ دو” پر اکتفاء کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ملک میں سویلین بالادستی کی امید دم توڈ دیتی ہے‘‘۔
سویلین بالادستی کے لئے ایک طویل اور صبر آزماء جدو جہد درکا ہے لیکن فی الحال اس کے کوئی آثار نظر نہیں آ تے۔ اسے مصلحت پسندی کہا جائے یا حصہ داری کا حصول ،بجا ہوگا۔ نظام کی تبدیلی تمام کشتیاں جلانے کے اصول کا تقاضا کرتی ہے لیکن جب یہاں پر نظام میں حصہ داری کو ترجیح دی جائے تو سویلین بالادستی ایک خوش نما نعرہ ہوسکتی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ مفاہمت یا زیرک نظری اچھی چیز ہے لیکن مفادات کا ٹکراؤ اور دہرا معیار اس کو عیب دار بناتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ دہرے معیار کی مٹی سے آلودہ ہوگئی ہے۔
پی پی پی موجودہ حکمرانوں کو سلیکٹڈ کا طعنہ دیتی ہے لیکن دہرے معیار کا یہ عالم ہے کہ سینیٹ میں قاعد حزبِ اختلاف کے چناؤ کے لئے پی پی پی نے اْس باپ پارٹی کی حمایت حاصل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جس پر بھی خود سلیکٹڈ کا طعنہ موجود ہے۔ اسی طرح ن لیگ پر بھی مصلحت پسندی کے گرداب میں پھنس جانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں رائے عامہ کا ایک بڑا حلقہ کسی معجزہ کی امید رکھنے کو آب و سراب سمجھتی ہے جس کی اہم وجہ اس میں دہرے معیار کا سرایت کرجانا ہے۔ کیونکہ اقتدار کے حصول اور نظام سے منفعت کا چسکا سویلین بالادستی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
سیاسی قوتوں کے قول و فعل میں موجود دہرے معیارات اور تضادات کی وجہ سے یہ تاثر موجود ہے کہ وہ اقتدار یا نظام سے منفعت کے لئے لڑ تی ہیں اور سویلین بالادستی یا نظام کی تبدیلی ثانوی چیزیں ہوتی ہیں۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب سمجھوتوں پر اکتفاء کیا گیا اور جو جیسا ہے اس پر چلنے کی عادت اپنائی گئی۔ اگر ان کا محور سویلین بالادستی ہوتی تو وہ سمجھوتوں سے گریز ضرور کرتیں۔ اس بد اعتمادی نے تبدیلی کی امیدوں کو محدود کردیا ہے۔یہ رویہ جمہوری نظام کی مضبوطی کی بجائے عوام کا اس نظام پر سے بھروسہ ختم کردیتی ہیں۔