|

وقتِ اشاعت :   April 2 – 2021

مجلس فکر و دانش اکنامک تھنکنگ فورم کے زیر اہتمام محکمہ خزانہ حکومت بلوچستان اور گورننس پالیسی پروجیکٹ کی معاونت سے انتہائی اہم موضوع ’’قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور شفاف استعمال‘‘ پر ڈائیلاگ اور سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔سمینار میں این ایف سی ایوارڈ، اٹھارویں ترمیم اور مجوزہ بجٹ 2020 اور 22 پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے شرکت کی اور اپنے وسیع مطالعے اور تجربے کی روشنی میں تجاویز پیش کیں۔جن میں اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ،ممبر صوبائی اسمبلی ڈاکٹر ثناء بلوچ، فکر و دانش کے سربراہ عبدالمتین اخونزادہ۔

جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی ،شہید باز محمد خان کاکڑ فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر لال کاکڑ ،ماہرتعلیم سید فضل الرحمان ،طلبہ یونین سے تعلق رکھنے والے ممبران اور طلبہ کرام شریک ہوئے۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنے خطاب میں بلوچستان کی معاشی تنزلی کے دو وجوہات بیان کیں۔ پہلی وجہ ہماری اچھی حکمرانی کی کمی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے دور اقتدار میں45 ٹیکنیکل کالجز میں سے ایک کو بھی فنکشنل نہیں کر پایا۔جب بھی صوبے میں اداروں کی بہتری کی کوشش کی۔ہمارے اسمبلی ممبران راہ میں رکاوٹ بنے ۔

اوراپنے علاقوں میں مداخلت کا بہانہ بناکر بہتری کی کوششوں کو روک دیا۔ ہماری عوام اپنے صوبے میں ٹیکس نہیں دیتی لیکن جب باقی صوبوں میں سفر کرتے ہیں بخوشی مختلف ٹیکس ادا کرتی ہے۔دوسری بڑی وجہ بیان کرتے ہوئے وفاق سے نالاں نظر آئے، انکا کہنا تھا کہ صوبے کے وسائل کی آمدنی سے بلوچستان کو محروم رکھا گیا ہے۔سیندک کی آمدنی کا پچاس فیصد چین ،اڑتالیس فیصد وفاق اور دو فیصد بلوچستان کو ملتا ہے۔ سی پیک کے تحت بلوچستان میں کوئی بڑا پروجیکٹ شروع نہیں ہوا ۔
ڈاکٹر ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کی غربت کی شرح بہتر 72 فیصد ہے۔

این ایف سی میں جس فارمولے کے تحت بجٹ تقسیم ہوتی ہے اس میں غربت کی شرح 5 فیصد رکھی گئی ہے۔ جو ہمارے ساتھ زیادتی ہے ہمیں وفاق میں اسٹریٹجک اہمیت ،غربت کی شرح،اور رقبہ کی اہمیت وغیرہ کو اجاگر کرکے اس میں پرسنٹ بڑھانا ہوگا اور ماضی میں کی گئی زیادتیوں کو بھی اجاگر کرنا ہوگا۔ اور اٹھارویں ترمیم کے بعد ہمارے وسائل پر صحیح معنوں میں اختیار دیا جائے۔جماعت اسلامی بلوچستان کے سربراہ نے کہا کہ اگر حکمران درست سمت میں ہو تو اس کے اثرات عوام الناس پر براہ راست پڑتے ہیں۔

اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں غربت ختم ہوئی اور امن و امان کا دور دورہ ہوا۔ آج کے دور میں بھی ذات سے تبدیلی کا آغاز کرنا چاہیے۔بلوچستان یونیورسٹی اکنامکس کے پروفیسر ندیم نے کہا جب اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو موردالزام اٹھارویں ترمیم کو قرار دیتے ہیں۔انہوں نے اپنی تجاویز میں کہا کہ آبادی کی شرح 82 فیصد سے کم کر کے 75 فیصد کی جائے۔اور غربت کی شرح 5 فیصد سے بڑھا کر دس فیصد کی جائے اپنے اخراجات کو کم کرکے ہی خسارے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر لال نے کرپشن کو قابو کرنے پر زور دیا۔ فرید بگٹی نے کہا کہ ایلیٹ کلاس کے اثر رسوخ کو کم کرکے ہی ترقی کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں۔ ایف بی آر کے چیئرمین شبرزیدی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ساڑھے تین لاکھ بجلی کے کنکشن میں صرف 40 ہزار رجسٹرڈ ہیں۔ ملکی خزانے کو چلانے کیلئے باہر سے لوگوں کو لا کر بٹھا دیا جاتا ہے۔جو ملک سے زیادہ بیرونی اداروں کے لیے کام کرتے ہیں۔احقر نے اپنے تجزیہ میں معاشی بدحالی کی اصل وجہ چاہے ملکی ہو یا صوبائی ، سود کے ناسور کو قرار دیا۔سالانہ 3 ہزار ارب روپے سود کی مد میں مختلف ملکی اور بین الاقوامی بینکوں کو ادا کی جاتی ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن میں سود کو اللہ اور رسول کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیا ہے۔جب تک ہم سود کے ناسور سے جان نہیں چھڑاتے اس وقت تک معاشی آزادی حاصل نہیں کر سکتے۔حال ہی میں جس بل کی تیاری شروع ہے۔اگر اس بل کو پارلیمنٹ سے منظور کیا گیا تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان آئی ایم ایف کے کنٹرول میں چلا جائے گااور وطن عزیز معاشی طور پر یرغمال ہو جائے گا۔