میری ماں میرے لئے صرف ماں نہیں بلکہ میرے سانسوں کا سہارا ہے، ماں وہ عظمت ہے جس کے ہونے سے روح کو تسکین ملتی ہے اور نہ ہونے سے ادھورا پن محسوس ہوتا ہے، ماں وہ خوشی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی، ماں وہ چہرہ ہے جس کو دیکھنے سے بے جان جسم میں جان آتی ہے، ماں وہ ہستی ہے جس کے جانے سے گھر قبرستان بن جاتا ہے، ماں وہ سکون ہے جو پوری کائنات کی کسی چیز میں نہیں ملتی ہے، ماں تو بس ماں ہے، لفظ ماں کے لئے اگر میں پوری زندگی لکھتا رہوں پھر بھی شاید اس کی عظمت کو اپنے الفاظ میں بیان نہ کر پاوں۔
کہتے ہے کہ “ماں کے پیرو تلے جنت ہے” کیا واقع ماں کے پیرو تلے جنت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو لوگ پھر کیوں اسے رنج پہنچاتے ہیں؟ اگر ہے پھر اسے گھر سے کیوں نکالتے ہیں؟ اگر ہے پھر اسے کیوں مارتے پیٹتے ہیں؟ اگر ہے پھر لوگ اپنے مرضی کے کام کو پورا کرنے کے خاطر اپنی ماں کو کیوں ٹھیس پہنچاتے ہیں؟ کیا کبھی غور کیا ہے لوگ جنت کیوں چاہتے ہے لوگ دوزخ کیوں نہیں چاہتے؟کیا کبھی یہ بات کسی شخص سے سنا ہے کہ مجھے جنت کے بجائے دوزخ چاہیے شاید کبھی نہیں شاید اْن سے بھی نہیں جو اللہ کے وجود سے منکر ہیں، نہ ملحد سے. کیونکہ جنت وہ جگہ ہے۔
جہاں ہر کوئی پر سکون رہے گا، جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان جو چاہے کرسکے گا، جنت وہ جگہ ہے جہاں ہر کوئی خوش رہے گا غم نام کی کوئی چیز نہیں ہوگی، جنت وہ جگہ ہے جہاں ہم موت کبھی نہیں دیکھ پائے گے. اس وجہ سے ہر کوئی چاہتا ہے کہ میں دوزخ کے بجائے اپنے رب سے جنت کی آرزو کروں. کیا اس دنیا میں رہنے والوں نے کبھی غور کیا ہے کہ جنت حقیقتاً ماں کے پیرو تلے ہے میرا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بقیہ کام کرنے سے ہمیں انکے عیوض میں جنت نہیں ملے گا. شاید دنیا کا کوئی بھی ایسا قانون یا ملک نہیں ہوگا جو ماں کے عزت اور احترام دینے سے قاصر ہو ہر مذہب، ہر قانون، ہر سماج میں ماں کا ایک الگ ہی حیثیت اور مقام ہے۔
لیکن بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ لوگ جو خود کو بہت اللہ والے سمجھتے ہیں وہ اپنی والدہ کے اخلاقی حقوق کی پامالی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے آسان الفاظ میں اگر میں اس بات کو قلم بند کرو تو اسے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقر میں ماں باپ کے سامنے اف تک کہنے سے منع کیا ہے۔ اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ والدین کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی ہے۔ایک چھوٹی سی کہانی کو یہاں قلم بند کرنا چاہتا ہوں، یہ کہانی تین بھائی اور ایک ماں پر مشتمل ہے. ان تین بھائیوں میں سے سب سے بڑا بھائی ہمیشہ اپنے ماں پر چلاتا رہتا تھا۔
وہ جب بھی گھر میں داخل ہوتا تھا تو اپنے کام کا تھکاوٹ اپنی ماں پر غصہ کرنے سے نکالتا تھا، اور ماں بس سنتی رہتی تھی. اور وہ یہ سب کچھ سننے کے باوجود بھی اپنے بیٹے کے لئے کھانا لاکر اس کے قریب رکھ کر اسے کھانا کھانے کے لئے کہتی. اس کی ماں جب بھی کمرے میں چلی جاتی تھی تو پوری رات آنسو بہا کر سونے لگتی، اور ہمیشہ پریشان رہتی تھی. ایک دن ان تین بیٹوں میں سے دو بیٹے اپنے ماں کے پاس آکر کہنے لگے کہ ماں جی یہ بھیاں ہر روز آپکو کیوں برا بھلا کہتا ہے، ماں یہ سن کر بس اپنے اداس چہرے پر مسکراہٹ لانے کی کوشش کرتی ہے۔
اور اس مسکراہٹ سے اپنے کرب کو چْھپانے کی کوشش کرتی اور خاموش ہوجاتی. ایک ایسا دن آتا ہے کہ اماں جی اس دنیا سے چلی جاتی ہے اور اپنے بڑے بیٹے کے نام ایک خط چھوڑتی ہے۔میرے لختِ جگر جب آپکا جنم ہوا تو اس وقت میں بہت کمزور تھی، میں آپکو دودھ دینے سے قاصر تھی، اور ہم بہت غریب تھے، اور آپکے ابو کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کہ آپ کے لیے دودھ لاتا. جب بھی آپ دودھ پینے کی ضد کرتے تھے اور روتے تھے تو میں آپکو دودھ پلانے کے خاطر رات کے وقت ایک سہیلی کے گھر دو میل دور جا کر آپکو دودھ پلاتی اور جب بھی آپکو دودھ ملتا تو آپ رونا بند کرتے تھے۔
اور میں سکون محسوس کرتی. لیکن آپ نے مجھے اپنی زندگی میں کبھی بھی سکون نہیں دیا آپ ہمیشہ مجھ پر چلاتے رہتے تھے اور میں کچھ نہیں کرتی بس یہ سوچتی رہتی کہ ایک نہ ایک دن میرا بیٹا مجھے “ماں جی” کہہ کر بلائے گا لیکن یہ کبھی نہیں ہوا. خط پڑھنے کے بعد اس شخص کے آنسو بہانے لگے اور افسوس کرنے لگا اور پچھتا رہا تھا کہ میں نے اپنے ماں کے ساتھ ایسا کیوں کیا۔
لہٰذا اپنے ماں کو اس کی حیات میں ہی عزت، قدر، احترام اور خوشیاں دیں تاکہ آپ بھی بعد میں اس شخص کی طرح نہیں پچھتائے. اپنے ماں کے ہر فرمان کو فرض سمجھ کر نبھائیں. وہ لوگ جو اپنے ماں کے ساتھ تلخ کلامی کرتے ہیں یا ان سے ناراض ہیں خدارا آج جاکر انکے پیرو میں گر کر معافی مانگے کیا پتہ یہ سفر کب، کہا اور کیسے اختتام تک پہنچ جائے۔