|

وقتِ اشاعت :   April 6 – 2021

پاکستان میں خون کے عطیات دینے کا رجحان کافی کم ہے۔ عام طور پر خون کے عطیات کی وصولی کے لئے تقریبا 90 فیصد متاثرہ افراد کو اپنے اہل خانہ اور قریبی حلقہ احباب پر انحصار کرنا پڑتا ہے جبکہ 10 فیصد سے 20فیصد افراد خون کے عطیات پیشہ ورانہ بنیادوں پر فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں سالانہ خون کے 15 لاکھ عطیات کی ضرورت ہوتی ہے جس میں سے 40 فیصد خون کی طلب صحت کے شعبے میں کام کرنے والے سرکاری اداروں کی جانب سے پوری کی جاتی ہے۔ تاہم، اب خون کے عطیات جمع کرنے کے لئے بھی سوشل میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

اس حوالے سے سال 2017 میں عالمی سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک نے پاکستان سمیت جنوبی افریقہ، سنیگال کینیا، امریکہ، برازیل، بھارت، بنگلہ دیش سمیت متعدد ممالک میں خون کے عطیات کی وصولی میں سہولیت کا فیچر متعارف کرایا۔ اس لئے اب فیس بک پر خون کا عطیہ دینے کا فیچر عام نظر آتا ہے۔ رواں سال کرونا وائرس کے باعث دنیا بھرکے متعدد ممالک میں ہنگامی ضرورت میں استعمال کے لئے خون کی قلت پیدا ہوئی کیونکہ لاک ڈاؤن کے باعث خون کے عطیات دینے والے رضاکاروں کی نقل و حرکت محدود ہوگئی تھی اور اسکے نتیجے میں خون کے عطیات کی فراہمی میں کمی آئی۔

اس ضمن میں فیس بک نے اپنے بلڈ ڈونیشن فیچر کو مزید سہل بنایا ہے تاکہ لوگوں کو مقامی بلڈ بینکس سے رابطہ کرنے میں آسانی رہے اور انہیں رہنمائی میسر ہو کہ کس بلڈ بینک میں خون کا عطیہ دینا محفوظ رہے گا۔صرف پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، اور برازیل میں خون کے عطیات دینے کا اعلان کرنے والے افراد کی تعداد ساڑھے تین کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ بھارت اور برازیل کے اندر خون کے عطیات کی وصولی کے مراکز میں 20 فیصد افراد کا ماننا ہے کہ فیس بک نے انہیں خون کے عطیات دینے کی جانب مائل کیا۔ اس فیچر کے آغاز سے اب تک فیس بک پر 7 کروڑ سے زائد افراد اپنے آپ کو رجسٹرڈ کرواکر خون کا عطیہ دینے کا اعلان کرچکے ہیں۔

فیس بک پر خون کا عطیہ دینے کا فیچر استعمال کرنا بہت آسان ہے۔ فیس بک پر اپنی پروفائل کی معلومات کے سیکشن میں جائیں۔ جب آپ کے قریبی بلڈ ڈونیشن مراکز کو خون کے عطیات کی ضرورت ہوتی ہے، تو وہ خون کا عطیہ دینے کی درخواست بھیجتے ہیں اور اسکے قرب و جوار میں رہنے والے رجسٹرڈ رضاکاروں کو نوٹیفکیشن موصول ہوتا ہے۔ پھر لوگ خون کا عطیہ دینے کے لئے درخواستیں اور مواقع بھی دیکھ سکیں گے۔پاکستان میں وزارت قومی صحت نے فیس بک کے خون کا عطیہ دینے کے معاون فیچر سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

دنیا میں آبادی کے اعتبارسے پاکستان پانچواں سب سے بڑا ملک ہے – اسکی آبادی 22 کروڑ ہے، 15 کروڑ سے زائد موبائل فون صارفین ہیں جبکہ 4 کروڑ سے زائد افراد فعال انداز سے فیس بک استعمال کرتے ہیں۔ اس حوالے سے وزارت قومی صحت نے رواں سال کرونا کے باعث حالات کے دوران فیس بک کے ذریعے خون کے رضاکارانہ عطیات جمع کرنے کا عمل آسان بنایا۔ اس عمل کے نتیجے میں جو لوگ خون کے عطیات نہیں بھی دیتے، ان میں بھی رضاکارانہ طور پر خون کے عطیات دینے کے لئے سازگار ماحول پیدا ہوا ہے۔

سال 2018 میں وزارت قومی صحت کے سیف بلڈ ٹرانسفیوڑن پروگرام (Safe Blood Transfusion Program) نے ملک میں خون کے عطیات میں 100 فیصد اضافہ لانے کے لئے فیس بک کے ساتھ اشتراک کیا تاکہ لوگوں میں خون کے عطیات سے متعلق پائی جانے والی عام غلط فہمیوں کا خاتمہ ہو۔ اس اشتراک کے بعد اب تک پاکستان میں 50 لاکھ سے زائد افراد نے فیس بک پر خون کا عطیہ دہندہ بننے کے لئے خود کو رجسٹرڈ کرایا۔مزید برآں، پاکستان سیف بلڈ ٹرانسفیوڑن نے صوبائی سطح پر بلڈ ٹرانسفیوڑن حکام اور صحت کی وزارتوں سے رسائی حاصل کی اور فیس بک ٹیم کے ساتھ رابطے قائم کئے۔
اس عمل کا مقصد یہ ہے کہ بلڈ بینکس کے ذریعے تمام اداروں کو ایک جگہ لاکر کام کیا جائے اور صوبے میں فیس بک بلڈ ڈونیشن کے استعمال کو فروغ دیا جائے۔
اس اشتراک کی بدولت حکومت کو رضاکارانہ خون کے عطیات 100 فیصد یقینی بنانے اور متاثرہ شخص کے حلقہ احباب پر انحصار کا نظام تبدیل کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ اس حوالے سے لوگوں میں خون کے عطیات کی آگہی پھیلانے اور عطیات کی وصولی میں سہولت فراہم کرنے کے لئے فیس بک کے بلڈ ڈونیشن فیچر سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔

اس سلسلے میں پانچ بلڈ بینکوں کی نشاندہی کرکے انہیں اشتہارات کا کوپن دیا گیا۔ ان بلڈ بینکوں کے عملے کو فیس بک بزنس منیجر ایڈ اکاؤنٹس بنانے اور کوپن کے اندراج کی تربیت دی گئی۔ فیس بک نے ان بلڈ بینکوں کے لئے تین ٹریننگز منعقد کیں۔ ستمبر تک ان بلڈ بینکوں کے لئے متعدد ٹریننگ سیشنز کئے گئے تاکہ وہ خون کے عطیات جمع کرنے کے لئے کامیابی سے اپنے ایڈ کی مہم چلاسکیں۔ اس ضمن میں وزارت قومی صحت کے خصوصی سیف بلڈ ٹرانسفیوڑن پروگرام (ایس بی ٹی پی) نے پاکستان کے بڑے شہروں کے پانچ اسپتالوں میں فیس بک کے بلڈ ڈونیشن فیچر کے استعمال کا آزمائشی طور پر آغاز کیا۔

اس آزمائشی منصوبے میں اگلے چھ ماہ کے دوران لوگوں کی رجسٹریشن، فون کالز،دورے اور عطیات شامل تھے جس کے نتائج کافی دلچسپ نکلے۔ اس عرصے کے دوران نہ صرف رضاکارانہ خون کے عطیات دینے کیلئے فیس بک کے فیچر کی افادیت میں اضافہ نظر آیا بلکہ ایس بی ٹی پی کو بھی مزید رہنمائی ملی کہ خون کے عطیات جمع کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ افراد تک مزید رسائی کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس منصوبے کے نتائج میں انکشاف ہوا کہ منتخب شدہ پانچ بلڈ بینکس میں سے تین بلڈ بینکس میں براہ راست فیس بک کے ذریعے 50 فیصد خون کے عطیات جمع ہوئے۔ مثال کے طور پر، بہاولپورریجنل بلڈ سینٹر (آر بی سی) اب براہ راست فیس بک کے ذریعے ماہانہ 58 فیصد خون کے عطیات وصول کرتا ہے۔

اس حوالے سے ریجنل بلڈ سینٹر (RBC) کوئٹہ کے آر بی سی سی منیجر ڈاکٹر حنیف مینگل سے بھی انتہائی مثبت ردعمل سامنے آیا ہے کیونکہ یہاں فیس بک کے بلڈ ڈونیشن فیچر کے استعمال کی وجہ سے زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد خون کے عطیات دینے آرہے ہیں۔ بلوچستان بلڈ ٹرانسفیوڑن اتھارٹی کے سیکریٹری ڈاکٹر ندیم صمد نے بتایا، جب سے کرونا وائرس کے معاملے کا آغاز ہوا، ہمارا بلڈ ڈونیشن کیمپس کا معاملہ ذرا رکا، یہ صورتحال صرف کوئٹہ میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں رہی۔ فیس بک نے ہمارے ساتھ پارٹنرشپ کی اور اسکے بعد ہم نے دیکھا کہ پچھلے چند مہینے سے بہت زیادہ فائدہ ہوا۔

فیس بک پر ہماری درخواست جاتی ہے اور جو لوگ فیس بک استعمال کرتے ہیں، انکی ہمیں کالز آتی ہیں اور وہ ہم سے رابطہ کرتے ہیں اور روزانہ تقریبا 10 بلڈ ڈونرز صرف فیس بک کی وجہ سے ہمارے پاس آرہے ہیں۔اسی طرح، آر بی سی کوئٹہ کے تکنیکی ماہر عبدالحلیم بلوچ نے بتایا، کرونا کے دوران ہمیں کافی زیادہ مشکلات رہیں کیونکہ ہمارے پاس 2 ہزار سے زیادہ تھیلیسیمیا کے بچے رجسٹرڈ ہیں، ڈائیلاسز کے مریض ہیں، کینسرا، سڑکوں پر حادثات، ٹراما وغیرہ میں خون کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

کرونا کی وجہ سے سب کچھ اچانک تھم گیا لیکن ہم فیس بک کے ذریعے جو میسج کرتے ہیں، لوگ ان پر رابطہ کرتے ہیں اور ایک ایک کرکے بلڈ ڈونرز ہمارے پاس آنے لگے، اور آہستہ آہستہ ہماری ضرورت پوری ہونے لگی۔فیس بک کا ارادہ ہے کہ دسمبر تک اس پروجیکٹ کے اہداف حاصل کرلئے جائیں اور جس کام کا بیڑا اٹھایا ہے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ اپنے اہداف کی تکمیل کے بعد فیس بک پرامید ہے کہ بلڈ ٹرنسفیوڑن حکام کی جانب سے معلومات جاری کی جائیں گی۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں موجود لائسنس یافتہ یا رجسٹرڈ اسپتال اور بلڈ بینکس میں تکنیکی مہارت اور تعاون کی فراہمی کے ساتھ باریک بینی سے ان پر عمل درآمد کی نگرانی کی جائیگی۔

بلڈ بینکس کمیونٹی کو اپنے آپریشنز میں اس فیچر کے استعمال کے ساتھ تعاون فراہم کیا جائے گا تاکہ وہ جلد از جلد اس فیچر کی بدولت تیزی سے کام سرانجام دے سکیں۔ بلڈ بینک کی موجودہ فہرست میں توسیع دے کر 400 سے زائد لائسنس یافتہ یا رجسٹرڈ بلڈ بینکس کو شامل کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بلڈ ٹرانسفیوڑن حکام، صحت کی صوبائی وزارتوں اور بلڈ بینکس کو فعال انداز سے شامل کرکے انکی صلاحیتوں میں اضافہ لایا جائے گا۔فیس بک کے ساتھ اس اشتراک کے نتیجے میں ملکی سطح پر عوام میں رضاکارانہ خون کے عطیات کو فروغ دینے۔

اسکی کی حفاظت سے متعلق آگہی بڑھانے اور مجموعی طور پر لوگوں کو راغب کرنے والی کاوشوں میں کافی تیزی آئی ہے۔ وزارت قومی صحت کا ایس بی ٹی پی پروگرام اب سوشل میڈیا کے کردار کو انتہائی اہم سمجھتا ہے۔ اسی وجہ سے رضاکارانہ خون کے 100 فیصد عطیات کے لئے متاثرہ شخص کے حلقہ احباب پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی توجہ سوشل میڈیا کی جانب مبذول کی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں نئے ڈونرز کے اضافے کے ساتھ لوگوں میں خون کے عطیات سے متعلق بہت ساری غلط فہمیوں کا بھی خاتمہ ہورہا ہے۔