|

وقتِ اشاعت :   April 8 – 2021

الجزیرہ انگریزی نیوز چینل کی ایک رپورٹ کے مطابق چین اور ایران کے درمیان ایک تاریخی، وسیع اور کثیرالجہتی معاہدہ طے پایا ہے اس تاریخی معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان بنیادی ڈھانچہ،معاشیات، توانائی، ڈفینس، ٹریڈ،ثقافت، انٹلیجنس اور ریسرچ کے شعبے میں تعلقات کو بہتر اور وسیع تر بنانا ہے۔ اس معاہدے کے لیے تقریبا ًچار سو ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔مستقبل میں چائنہ کو ایرانی معیشت کے تمام شعبوں تک رسائی حاصل ہوگی ، چین کو سستا تیل ملے گا ،چین کو بلوچستان کی بندرگاہوں تک بھی رسائی حاصل ہوگی اور چین آبنائے ہرمز پر تسلط قائم کرنے کے لئے جزیروں اور اسٹریٹجک اراضی کو بھی لیز پر دے سکے گا۔

کہا جاتا ہے کہ یہ وسیع معاہدہ آج سے تقریبا چھ سال پہلے یعنی دو ہزار سولہ میں ہواتھا لیکن ایران کے اوپر اقوام متحدہ،,امریکہ اور دوسری عالمی تنظیموں کی جانب سے لگا ئی گئی بھاری پابندیوں کی وجہ سے منظر عام پر نہیں لا یا جا سکاکیونکہ پہلے سے لگائی گئی پابندیوں کے اثرات مزید بڑھ سکتے تھے۔ مزید،امریکہ کے سابقہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں یو ایس اور ایران کے کشیدگی میں اضافہ ہوا تھاحتیٰ کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے امکانات بہت بڑھ گئے تھے.بہرحال ٹرمپ کے چار سالہ مدت کے بعد چین اور ایران کے درمیان پہلے سے تہہ شدہ معاہدہ کو منظر عام پر لایا گیا۔

ماہرین کے مطابق، چین مشرقی وسطیٰ میں اپنی طاقت کو وسیع دینے کے لیے دوسرے ملکوں کے ساتھ معاہدہ کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں تاکہ مشرقی وسطیٰ میں مستقبل میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھا اور اپنے دفاعی اور معاشی طاقت کو جما سکے۔اسی طرح ایران اپنے پہلے سے خراب معاشی حالات کو بہتر بنانے کیلیے چین کے طرف بڑھ رہا ہے۔ یو ایس اور عالمی تنظیموں کے جانب سے پابندیوں کی وجہ سے ایران کے معاشی حالات خراب ہیںجو دیگر شعبوں کو بھی متاثر کررہا ہے ۔مزید برآں، ایران کی آبادی تقریباً آٹھ کروڑ تیس لاکھ کے برابرہے، کہا جاتا ہے کہ ایران کی نصف آبادی غربت کے نیچے زندگی گزاررہی ہے ۔

دراصل وہاں کسی عالمی چینل بی بی سی اور سی این این سمیت کسی کو بھی سروے کرنے کی بالکل بھی اجازت نہیں ہے۔ اگر ایران کو بھاری پابندیوںکے باوجود اگر کوئی ملک سہارا دے رہاہے تو وہ چین ہی ہے۔ چائنہ عالمی دباؤ میں آئے بغیر ایران سے باقاعدگی سے تیل درآمد کرنا شروع کردیا ہے حالانکہ اگر عالمی سطح پر دیکھا جائے تو پورپی یونین، یو این، اور یو ایس نے نہ صرف ایران پر پابندیاں عائد کی ہیں بلکہ ایران کے ساتھ دوسرے ممالک سے درآمدات اور برآمدات پر بھی پابندیاں لگا دی ہیں۔ اس منصوبے کے تحت ایران کے معاشی حالات کافی بہتر ہو سکتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایران کی رسائی وسطی ایشیا اور یورپ تک ممکن ہو گااور چین کی بھی رسائی سوئز کینال کے بغیر یورپی ممالک تک ہو گا۔ ایک اندازے کے مطابق اس منصوبے کو قدیمی سلک اینڈ روٹ سے مشابہہ کہا جا رہاہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ اس تاریخی معاہدے کے کیا اثرات پیدا ہونگے ؟ ظاہر سی بات ہے کہ ایران کے مشرقی وسطیٰ سمیت اکثر بڑے یورپی ملکوں کے ساتھ تعلقات پہلے سے خراب ہیں۔ اگر منصوبہ فعال ہونا شروع ہواتو ایران اور چین کو بے شمار اندرونی اور بیرونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا.جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ اس معاہدے کی ایک شق دفاعی تعاون کو بھی بڑھا نا ہے۔

یعنی مستقبل میں چائنیز آرمی ایرانی سر زمین پر ملٹری بیس بنا کر باقاعدہ گی سے فو جی مشقیں کر ے گا۔ اگر یہ عمل شروع ہوا توایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ سعودی عرب ایک عرصے سے ایرانی حکام پر یہ الزام لگا رہاہے کہ ایران یمن عوثی باغیوں کو مالی اورعسکری مدد دے رہاہے جو سعودی عرب کے خلاف استعمال ہو رہا ہے ۔ اسی طرح چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور پر کسی حد اثر پڑھ سکتا ہے۔ سی پی ای سی کو شروع سے ون بیلٹ ون روڈ کا نام دیا گیا تھالیکن اب چین اس گوادر بندرگاہ سے آگے یعنی بندر عباس تک رسائی حاصل کرچکا ہے۔

مزید، چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کی کل رقم تقریباً باسٹھ بلین ہیں۔اس کے بر عکس چائنہ اور ایران منصوبہ کے کل چار سو بلین ہیںیعنی اس کے لیے مختص رقم سی پی ای سی سات گناہ زیادہ ہے۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے شاید چین سی پیک سے بڑھ کر ایران کے ساتھ طے شدہ معاہدہ پر زیادہ توجہ دے۔یہ ایک عام سی بات ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ چل رہا ہے۔ اس ضمن میں امریکہ چائنہ پر بھی بھاری ٹیرف نافذ کرچکا ہے۔ امریکہ کے سابقہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں جولائی 2018 سے چین پر دفعہ 301 محصولات عائد کردیئے گئے تھے ۔

لیکن چین سے محصولات کی اشیاء کی درآمد میں 2017 سے 2018 تک تقریباً 30 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔دلچسپ بات یہ کہ امریکہ چین اور ایران کو وسطی ایشیاء میں اہم حریف سمجھتاہے۔ان مضبوط دلائل کو مدنظر رکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگر آنے والے وقتوں میں چائنیز اور ایران کے درمیان طے شدہ معاہدہ فعال ہونا شروع ہوا تو یہ بے شمار عالمی و علاقائی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔