حال ہی میں بلوچستان ،پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سرکاری ملازمین کا پر امن احتجاج جاری ہے۔اصل کہانی کچھ اس طرح ہے کہ بجٹ 2020 سے پہلے اخبارات میں یہ خبر بار بار چھپتی رہی کہ وفاقی حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔حکومت یہ بھی کہتی تھی کہ اس حوالے سے پے اینڈ پنشن کی سفارشات بھی موصول ہوئی ہیں جو سرکاری ملازمین کے حق میں ہیں۔سرکاری ملازمین جن کی امیدیں بجٹ سے وابستہ ہوتی ہیں اورجن کی نظریں بجٹ پر مرکوز رہتی ہیں وہ حسب دستور بجٹ سے پہلے تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کچھ نہ کچھ بیانات دیتے رہتے ہیں۔
اور اسی حوالے سے حکومت کو متنبہ بھی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ میٹنگز بھی کرتے ہیں۔ملازمین نے جب تنخواہوں میں اضافے کی خبر کو دیکھا تو بہت حد تک مطمئن ہوگئے اور اسی حوالے سے کچھ کہنے یا کچھ احتجاج ریکارڈ کرانا مناسب نہیں سمجھا مگر جب بجٹ 2020 اسمبلی سے پاس ہوا تو اس میں دیگر محرومیوں کی طرح یہ محرومی بھی سرفہرست تھی کہ حکومت نے تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سے ملازمین کے حلقوں میں بے چینی کا طوفان برپا ہوا اور یوں ملازمین نے مطالبات منوانے کے لئے احتجاج کا فیصلہ کیا۔
ستمبر میں ایک احتجاج ہوا جس کے نتیجے میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے مطالبات کی منظوری کا پکا وعدہ کیا۔اس پر احتجاج کو ختم کیاگیا اور یوں ملازمین اضافے کی امید لئے گھروں کو واپس ہوگئے۔ وقت گزرتا رہا اور ملازمین یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ حکومت نے اضافے کا وعدہ کیا ہے تو ایک دن اس کا اعلامیہ جاری ہوگا مگر بعد میں پتہ چلا کہ حکومت وعدے سے مکر گئی ہے اور اضافے کا وعدہ محض جھوٹ اور دھوکہ تھا۔یہ بہت پریشان کن بات تھی،اس کے بعد مذاکرت کا نیا دور شروع ہوا مگر مسلسل ناکامی۔آخر آل گورنمنٹ ایمپلائیز کے قائدین نے ایک فیصلہ کن احتجاج کا فیصلہ کیا ۔
جس کے لئے 10 فروری 2021 کے دن کا انتخاب کیاگیا۔ملازمین اس گھڑی کے انتظار میں تھے۔بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگئیں اور 10 فروری کو ملازمین جوق در جوق احتجاج کے لئے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوگئے۔ملازمین کی بہت زیادہ تعداد جو 40 ہزار کے قریب تھی اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔ہزاروں کی تعداد میں آئے ہوئے ملازمین یہ تاثر دے رہے تھے کہ اب اضافہ ناگزیر ہے اور ملازمین اس کے علاوہ کسی بھی سمجھوتے پر رضامند نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ ملازمین مطالبات منوانے پر ڈتے رہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پریشر بڑھتا جارہاتھا۔
شام کے وقت ایک بار پھر مذاکرات ہوئے۔حکومت نے آمادگی ظاہر کی اور مذاکرات کے نتیجے میں طے پایا کہ وفاقی حکومت ملازمین کے لئے بہت جلد 25 فیصد اضافے کا اعلان کرے گی اور ساتھ پچھلے 4 سالوں کے ایڈہاک ریلیف کو آئندہ بجٹ سے بنیادی تنخواہوں میں ضم کرے گی۔ اس سے 18 محکمے مستثنیٰ تھے ان کے لئے اضافہ نہیں کیا گیا۔اس پر ملازمین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی،جشن منایا یاگیا۔لیکن اب بھی کچھ ملازمین کو شبہ تھا اور یقین نہیں آرہا تھا کہ وفاقی حکومت اپنا وعدہ پورا کرے گی لیکن وعدہ وفا ہوا، وفاقی حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کردیا ۔
اور ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کوہدایت کی کہ وہ ملازمین کے لئے 25 فیصد ڈسپیرٹی ریڈیکشن الائونس جاری کریں۔اب صوبائی ملازمین خوش تھے کہ جب وفاق نے اضافہ کردیا تو صوبے بھی ضرور کریں گے۔اس حوالے سے قائدین صوبائی حکومت سے رابطوں میں تھے اور حکومت یہ جواب دیتی کہ آپ ہمیں مہلت دیں ہم اضافہ کردیں گے۔پہلے 12 مارچ کا بتایا گیا لیکن حکومت نے وعدہ پورا نہیں کیا،حکومت سے رابطہ ہوا تو کہا گیاکہ ہم کردیں گے مگر ہمیں مزید وقت چاہئے۔مشورے کے بعد طے پایا کہ حکومت کو 29/03/2021 تک مہلت دیں گے۔
اس بار صوبائی وزیر خزانہ نے باور کرایا کہ اضافے کا نوٹس ضرور جاری ہوگا۔ملازمین سمیت قائدین اس دن کے انتظار میں تھے اور پر امید بھی تھے۔ مگر جوں ہی 29 مارچ پہنچا تو قائدین نے نوٹیفیکیشن مانگا تو پتہ چلا کہ سابقہ وعدہ محض جھوٹ اور فراڈ تھا۔اس دن صوبائی وزیر خزانہ قائدین سے بات کرنے تک سے گریزاں تھا اور وہ میٹنگ سے غیر حاضر بھی ہوئے۔اس دن ملازمین کے قائدین بہت زیادہ غم وغصے میں تھے۔مذاکراتی کمیٹی نے ایک بار پھر مہلت مانگی مگرقائدین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکاتھا اور وہ کچھ سننے کے لئے تیار نہیں تھے اور انہوں نے 6 اپریل کو ایک فیصلہ کن احتجاج کے لئے مقرر کردیا۔6
اپریل کے لئے سب تیارہوئے مگر ہوا یہ کہ 5 اپریل رات 11 بجے کو قائدین اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہوئے اور یہ طے پایا کہ حکومت دو ہفتوں کے اندر اندر تمام معاملات حل کردے گی اور یوں احتجاج کو کینسل کردیا گیا۔اس پر کچھ ملازمین کی تنظیمیں ناراض بھی تھے اور انہوں نے اس مذاکرات کو احتجاج ختم کرنے کے لئے ایک سازش سمجھا اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پشاور میں ڈھیرے ڈال دیے ہیں اور سراپا احتجاج ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت جلد آز جلد مطالبات کوتسلیم کرے۔
یہی حال بلوچستان کے ملازمین کا بھی ہے۔وہاں 11 دن سے احتجاج جاری ہے۔وقت کا تقاضہ ہے کہ ہر صوبائی حکومت وفاقی حکومت کی ہدایات کو عملی جامہ پہنائے اور مطالبات کو فوراً تسلیم کرے کیونکہ ملازمین کی معاشی خوشی، بہتری اور ترقی ایک بہتر مستقبل کی ضمانت دیتا ہے اور پر امن احتجاج نہ صرف ایک ملازم بلکہ ہر شہری کا بنیادی حق بھی ہے۔