|

وقتِ اشاعت :   April 12 – 2021

لاطینی امریکی ملک میکسیکو کادارالحکومت میکیسکوسٹی دنیامیں جرائم اور گینگ کے حوالے سے شہرت رکھتاہے جہاں آئینی حکومت کے علاوہ بھی ایک متوازی نظام جسے مقامی وارلارڈز اور مافیا چلارہے ہوتے ہیں۔ منشیات گینگ وار کی لڑائی میں ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ گینگ وار کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال بھی انتہائی بد تر ہے۔متحارب گینگ ایک دوسرے کوکمزورکرنے کے لیے وہ تمام طریقے اپناتے ہیں جس میں انسانیت شرماجائے۔ گینگ کے مابین آئے دن جھڑپیں ، مخالف گینگ کے ارکان کواٹھاکرغائب کرنا،قتل کرنا،اعضا کاٹ کرعبرت کانشان بنانے کیلیے چھوڑدینا۔

اور مخالف کے گھرکی خواتین کی آبروریزی معمول کے واقعات ہیں۔میکسیکوکے صرف ایک شہرمیں درجن سے زائد گینگ مختلف علاقوں میں حکومت کررہے ہوتے ہیں۔ حکومت نے ان پرقابوپانے کیلیے سرتوڑ کوششیں کی لیکن خاطرخواہ کامیابی نہ ملی۔یہ تھامیکسیکوکامختلف تعارف لیکن ہمارے کراچی شہرمیں بھی اب لگتاہے کہ منی میکسیکوسٹی بنانے کی تیاری کی جارہی ہے۔دو ہزار تیرہ میں ن لیگ کی حکومت نے جہاں ملک بھرمیں دہشتگردوں کاصفایاکرنے کااعلان کیاوہیں کراچی کوبھی شرپسندوں،گینگ وار،ڈرگ مافیا اور سیاسی جماعتوں کے زیراثرکام کرنے والے عسکری گروپس کے خاتمے کافیصلہ کیا۔

جس کے تحت سیکیورٹی اداروں کو خاطرخواہ کامیابی حاصل ہوئی اور کراچی کے عوام نے تیس سال بعد کچھ سکھ کاسانس لیناشروع کیا لیکن بدقسمتی سے ملک میں جہاں سابقہ حکومت کے دیگرپراجیکٹس کو ختم کردیاجاتارہاہے وہیں کراچی میں بھی ایک بارپھر جرائم پیشہ عناصر سراٹھانے لگے ہیں۔سماجی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آپریشن کے بعد اصلاحاتی پروگرام نہ ہونے کے باعث آگے جاکرمزیدمسائل جنم لیں گے۔ ایک طرف لیاری کے مختلف علاقوں میں بھتہ خوری،لوٹ مار اور مسلح افرادکے گشت کی کہانیاں سامنے آرہی ہیں تو دوسری جانب منشیات کے دھندے میں ملوث عناصر بھی متحرک ہورہے ہیں۔

جس کے لیے قبرستانوں اور پرانی آبادیوں کے اطراف کمین گاہیں قائم کی جاچکی ہیں۔ کراچی کے قدیم اور تاریخی میوہ شاہ قبرستان،پاک کالونی ،پراناگولیمارکے علاقے اس وقت جرائم کی جنت بن چکے ہیں۔جہاں آئے روز مخالفین کے ایک دوسرے پرحملے،خواتین پرتشدد اور گھروں کوخالی کرائے جانے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں ۔پراناگولیمار کے علاقے واجہ نیک محمدولیج،ولی محمد،ولیج،صالح محمد ولیج،ریکسرلائن اور گورگیج محلہ سمیت اطراف کے علاقوں میں منشیات بقرعید میں مویشیوں کی طرح فروخت ہورہی ہے۔

متاثرہ علاقوں میں مسلح افرادکے ایک دوسرے کے گھروں پر حملے اور بم پھینکنے جیسے واقعات معمول بنتے جارہے ہیں لیکن انتظامیہ کی جانب سے تاحال خاطرخواہ اقدامات نہیں اٹھائے جارہے۔اخباری اطلاعات کے مطابق پاک کالونی کے علاقوں میں گزشتہ دو ماہ کے دوران خاتون سمیت درجن سے زائد افرادکوموت کے گھاٹ اتاراجاچکاہے۔۔لیاری ندی ،دھوبی گھاٹ اور اطراف کے علاقوں میں لاشیں پھینکنے کے واقعات آئے روز اخبارات کی زینت بنتے جارہے ہیں اور صرف ایک مہینے میں بیس سے زائد خاندان نقل مکانی کرچکے ہیں۔

علاقے کے سماجی کارکن عظیم بلوچ کے مطابق پولیس کی جانب سے ہمیشہ روایتی انداز میں نمائشی کارروائی کی جاتی ہے۔ جرائم پیشہ عناصر باآسانی لیاری ندی کے راستے ایک طرف جمشیدٹاؤن کے علاقے تھارولین کے راستے لسبیلہ اور پھرلالوکھیت اور گلشن اقبال کے پوش علاقوں میں روپوش ہوجاتے ہیں وہیں اسی ندی کے راستے لیاری کے علاقوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔عظیم کے مطابق علاقے میں 22 سے 25 کے درمیان نوجوانوں کی اکثریت منشیات کی لت میں مبتلاہوچکی ہے۔ علاقے میں مختلف محلوں میں جرائم پیشہ عناصر نے اپنی ریاستیں قائم کردی ہیں ۔

جہاں مقامی لوگ خوف کاشکارہیں۔ جبکہ ایک عرصے تک تعلیمی ادارے بھی منشیات فروشوں کے قبضے میں رہے جس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم تباہ ہوکر رہ گئی ہے۔ دو لاکھ سے زائد کی آبادی والے علاقے میں 80 فیصدبچے تعلیم جیسی بنیادی سہولت سے محروم کردیئے گئے ہیں۔ لیاری سے تعلق رکھنے والے سابق طالب علم رہنماعبدالواحدبلوچ کے مطابق گولیمار کاعلاقہ برٹش راج کے دوران فوجی ٹریننگ کیمپ کے طور پر استعمال ہوتارہاہے، جہاں ایک آزادی کے متوالے چاکرنوتک کلمتی نے ایک برطانوی فوجی افسر کیپٹن ہاؤنڈ کوموت کے گھاٹ اتار دیاتھا ،بعد ازاں چاکرکلمتی کوگرفتارکرکے ڈالمیاکے قریب پھانسی دیکرشہیدکردیاگیاتھا۔۔متحدہ ہندوستان کے یہ پہلے شہیدہیں جس کی لاش بھی نہیں دی گئی۔

پراناگولیمار میں تنازعے کی بڑی وجہ چودہ سوایکڑ پرمحیط گٹرباغیچہ ٹرانس لیاری پارک کوبھی قرار دیا جارہاہے۔جس پر سن دو ہزار سے مختلف قبضہ گروپوں اور جرائم پیشہ عناصر نے نظریں گاڑھ رکھی ہیں۔ کسی زمانے میں گٹرباغیچہ کاشت کاری کے حوالے سے مشہورتھاجہاں مقامی لوگ کاشتکاری کرکے شہرمیں سبزی اور ترکاری کی ضرورت کوپورا کرتے تھے لیکن آج یہ زمین خود کسی مسیحاکی منتظر ہے۔۔ پارک کوقبضہ مافیاسے چھڑانے کیلیے سماجی کارکن نثاربلوچ نے علم اٹھایاتاہم نومبر2009 میں دہشتگردی کانشانہ بنے اس کے بعد نادر بلوچ نے جرائم پیشہ اور قبضہ مافیاکیخلاف آواز بلندکی تاہم وہ بھی ابدی نیند سلادیاگیا۔

اتناکچھ ہونے کے باوجود بھی مقامی لوگوں نے ہمت نہیں ہاری ،نادر کی موت کے بعد ضعیف العمر طاہر سواتی نے نعرہ حریت بلند کیا اور آج بھی عدالتوں کے دروازہ کھٹکھٹارہے ہیں۔۔ایک ملاقات میں طاہرسواتی نے کہاکہ گٹرباغیچہ کی زمین پرقبضے شہرکے سارے بڑے شامل ہیں لیکن ہم بھی ہمت نہیں ہاریں گے آخری وقت تک انصاف کی امیدکادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑوں گا۔

مقامی سماجی حلقوں کے مطابق حکومت کوچاہیے کہ فی الفور علاقے سے جرائم پیشہ عناصر اور قبضہ مافیا کاقلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ انتظامیہ میں موجود کالی بھیڑوں کابھی صفایاکرے اور اصلاحاتی پروگرام کے تحت بحالی کے کام کاآغاز کرے۔ جب تک تعلیم اور صحت کے مسائل حل نہیں ہوتے علاقے سے جرائم کامکمل خاتمہ ناممکن ہے۔ بصورت دیگرپھر یہ چھوٹے چھوٹے جرائم پیشہ عناصر ایک ریاست کی شکل اختیار کرلیں گے۔