19 مارچ کو امریکی اور چینی اعلیٰ سفارت کاروں کی الاسکا میں ہونے والی میٹنگ میں دونوں جانب سے تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا اور ایک دوسرے کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی گئی۔ جو بائیڈن کی صدارت میں امریکہ اور چین کے مابین یہ پہلا باضابطہ اعلیٰ سطحی اجلاس تھا۔ امریکی سفارت کاروں نے حسب معمول چین کے ساتھ ہانگ کانگ، تائیوان، سنکیانگ اور اپنے اتحادیوں پر چین کی جانب سے ’’معاشی زور زبردستی‘‘ کا مسئلہ اٹھایا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ چین ’’قاعدے و قانون کے پابند عالمی نظم و نسق‘‘ کو برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔
جواب میں چین نے امریکہ پر عسکری اور معاشی طاقت کے ذریعے دوسرے ممالک کو زیر کرنے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے الزامات لگائے اور انسانی حقوق کے معاملے میں منافقت کرنے اور سیاہ فام امریکیوں سے بدسلوکی پر تنقید کی۔ یہ تمام تر کاروائی میڈیا پر براہ راست نشر ہو رہی تھی۔ دونوںفریق اپنے اپنے ملکوں کے عوام کے سامنے طاقتور دکھنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ لیکن ایک امریکی اہلکار کی رپورٹ کے مطابق جیسے ہی میڈیا کے لوگ کمرے سے چلے گئے تو طرفین کے سفارت کار آرام سے بات کرنے لگے اور گرما گرمی کے بغیر مذاکرات ہوئے۔
حالیہ سالوں میں اس طرح کی گرما گرمی امریکہ اور چین کے پیچیدہ تعلقات کی وجہ سے ایک معمول بن چکی ہے۔ میڈیا کے سامنے تند و تیز جملوں کے تبادلے کے بعد دوبارہ ٹھنڈے ماحول میں مذاکرات کرنا دراصل دونوں ممالک کے مابین پیچیدہ اور گہرے معاشی تعلقات کی غمازی کرتا ہے جس سے وہ ایسی صورت حال میں ہیں کہ نہ تو ایک کھلی جنگ کی طرف جا سکتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کی ’’زیادتیوں‘‘ پر خاموش رہ سکتے ہیں۔
حالیہ عرصے میں اپنی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کے پیش نظر اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر چین عالمی سطح پر اپنی طاقت منوانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ مختلف شعبوں میں چین امریکہ کے ساتھ ٹکرائو کی حالت میں ہے۔ حتیٰ کہ باراک اوباما کے دور میں بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کچھ ٹھیک نہیں تھے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد تعلقات میں کشیدگی مزید بڑھ گئی اور دونوں اطراف سے ایک دوسرے کی مصنوعات پر ٹیکس لگانے کے اقدامات کیے گئے جس سے پہلے سے بحران زدہ عالمی معیشت مزید مشکلات کا شکار ہو گئی۔ اسی طرح سفارتی محاذ پر مغربی میڈیا ہانگ کانگ اور سنکیانگ کے واقعات کو چین کے خلاف اس جنگ کا حصہ بناتے ہوئے خوب اچھال رہا ہے۔
1978ء میں جب چین اور امریکہ نے باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کیے تو اْس وقت چین کی معیشت محض 149 اَرب ڈالر کی تھی جبکہ امریکی جی ڈی پی 2.3 ٹریلین ڈالر تھا۔ لیکن معیشت کو عالمی اجارہ داریوں کے لیے کھولنے اور سرمایہ دارانہ اصلاحات کے بعد معیشت کے حجم میں اضافہ ہوا اور آج چین 15.42 ٹریلین ڈالر جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔ اس بظاہر ’’معجزاتی‘‘ تبدیلی کی بنیاد دراصل اْس ہنرمند سستی چینی محنت کو عالمی منڈی میں بیچنا ہے جو مائوزے تنگ کی پچیس سالہ مرکزی منصوبہ بند معیشت کے تحت تخلیق ہوئی تھی۔
عالمی اجارہ داریوں نے دراصل اسی سستی ہنرمند محنت کا استحصال کر کے اپنی تجوریاں بھریں اور چین میں سرمایہ دارانہ ترقی ایسے وقت میں سامنے آئی جب عالمی سرمایہ داری زوال کی کیفیت میں تھی۔ اس دوران چین نے منڈی کو اپنی معیشت میں بتدریج متعارف کروایا اور آج چینی صدر شی جن پنگ علی الاعلان کہتا ہے کہ ہمیں منصوبہ بند معیشت کے پرانے راستے پر نہیں جانا ہے۔تیز معاشی نمو کے نتیجے میں 2010ء میں جاپان کو پچھاڑتے ہوئے چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بنا۔
اس بنیاد پر چین نے سیاسی، سفارتی اور جیو سٹریٹجک میدان میں بھی اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا شروع کیا۔ دوسری طرف تمام تر سرمایہ دارانہ معیشتیں اور ریاستیں اپنے نامیاتی زوال کی جانب گامزن ہیں۔امریکی سامراج کی سابقہ عسکری منہ زوری اس کے معاشی زوال کی وجہ سے اب پہلے کی طرح نہیں رہی۔ وہ مشرق وسطیٰ اور افغانستان سے نکل رہا ہے اور امریکہ کی عالمی قیادت کا سورج غروب ہو رہا ہے۔
جبکہ اس کی جگہ علاقائی طاقتیں لے رہی ہیں۔ایسی کیفیت میں امریکہ اپنی ڈوبتی ہوئی ’’عالمی قیادت‘‘ اور نام نہاد ’’قاعدے کے پابند لبرل نظم و نسق‘‘ کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین اور امریکہ کی رقابت ایک پیچیدہ اور متنوع پہلو کی حامل ہے جو سابقہ سوویت یونین کے ساتھ ہونے والی سرد جنگ سے بہت مختلف ہے۔ حالیہ دنوں میں اس رقابت کی سب سے واضح شکل دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی تجارتی جنگ ہے۔ امریکی حکومت چین پر ’’غیرمنصفانہ تجارتی ہتھکنڈے‘‘ استعمال کرنے اور انٹیلکچول پراپرٹی کی چوری کا الزام لگاتی رہی ہے۔ ٹرمپ نے چین کو ’’کرنسی کی قیمت میں رد و بدل کرنے والا‘‘ کہا اور ’’ٹیکنالوجی کی جبری منتقلی‘‘ پر شدید تنقید کی۔
سالوں سے چین بیرونی کمپنیوں کو چینی منڈیوں تک رسائی کے بدلے ان کمپنیوں کو اپنی ٹیکنالوجی چین کو منتقل کرنے پر مجبور کرتا رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی تک چین کی رسائی نے اس کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سے انہیں اپنی معیشت میں جدت لانے اور پیداواریت بڑھانے کا موقع ملا۔ لیکن جس طریقے سے چین نے ان جدید ٹیکنالوجیوں تک رسائی حاصل کی وہ اس نام نہاد ’’قاعدے کی پابند لبرل نظم و نسق‘‘ کے اصولوں کے خلاف ہے۔ موجودہ نظم و نسق کی بنیاد ہی نجی ملکیت اور انٹیلکچول پراپرٹی کی حفاظت پر مبنی ہے۔ چین اسی ٹیکنالوجی اور انٹیلکچول پراپرٹی کی چوری کا مرتکب ہو رہا ہے۔
تاریخی اعتبار سے تمام تر ٹیکنالوجی ہزاروں سالوں کی انسانی محنت کی پیداوار ہے۔ اسے نجی ملکیت میں لانا دراصل صرف چند سرمایہ داروں کی دولت میں اضافہ کرنا ہے جبکہ وسیع تر انسانی سماج کو اس سے محروم رکھنا ہے۔ آج کے سرمایہ دارانہ چین کے پاس اس ٹیکنالوجی تک رسائی صرف اسی جبری اور چوری چکاری کے طریقے سے ہی ممکن ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ ممالک اور کمپنیاں والہانہ طریقے سے اپنی ٹیکنالوجی کی حفاظت کرتی ہیں جو ان کی تمام تر دولت کی بنیاد ہے۔ وہ کسی صورت اپنی اس دولت میں کسی کو حصہ دار نہیں بنانا چاہتے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شروع کی گئی تجارتی جنگ سے پوری دنیا کی سپلائی چین اور عالمی معیشت کو خطرہ لاحق ہے۔ امریکہ کے لیے چینی برآمدات پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کا مقصد امریکی مینوفیکچرنگ شعبے کو بحال کرنا، صنعتوں کی دوبارہ امریکہ منتقلی اور امریکی تجارتی خسارے کو کم کرنا تھا۔ لیکن تمام تر اقدامات کے باوجود کوئی بھی مقصد حاصل نہیں کیا جا سکا۔ وال سٹریٹ جرنل نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ ’’معاشی اعشاریوں کے مطابق ٹرمپ کی جانب سے چین کے خلاف تجارتی جنگ اور اربوں ڈالر کی چینی مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنے کے باوجود امریکی مینوفیکچرنگ کے زوال کو ختم کرنے کا اہم مقصد حاصل نہیں کیا جا سکا۔
اس سے 2019ء میں چین کے ساتھ تجارتی خسارہ کم تو ہوا لیکن اس سال مجموعی تجارتی خسارہ پہلے سے بھی بڑھ گیا اور مسلسل بڑھ رہا ہے کیونکہ امریکی درآمد کنندگان ویتنام، میکسکو اور دوسرے سستی مصنوعات کے حامل ملکوں کی طرف گئے۔ کورونا وبا کے دوران چین کے ساتھ تجارتی خسارہ پھر بڑھ گیا اور دوبارہ اسی سطح پر آ گیا ہے جہاں ٹرمپ کی صدارت کے آغاز کے وقت تھا۔‘‘درحقیقت یہی وہ اقدامات تھے جس سے سرمایہ دارانہ ’’لبرل‘‘ نظم و نسق کو نقصان پہنچا اور عالمی معیشت کی نمو کم ہوئی۔ انتقامی کاروائیوں سے چین اور امریکہ دونوں کی معیشتوں کو نقصان پہنچا۔
امریکی تھینک ٹینک بروکنگز انسٹیٹیوٹ کے مطابق ان اقدامات سے 2019ء میں امریکہ کو تین لاکھ ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور جی ڈی پی پر 0.3 فیصد کا بوجھ پڑا۔ بالآخر جنوری 2020ء میں طرفین کو ایک معاہدے پر دستخط کرنا پڑا جس کے تحت چین امریکہ سے اگلے چند سالوں تک 200 اَرب ڈالر کی مصنوعات خریدے گا، انٹیلکچول پراپرٹی کی حفاظت کرے گا اور ٹیکنالوجی کی جبری منتقلی کو روکے گا۔اگر امریکہ تمام تر اقدامات اور تجارتی جنگ کے باوجود اپنا ایک مقصد بھی حاصل نہیں کر سکا تو سوال یہ ہے کہ ایسی جنگ شروع کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ پیداوار کی چین سے امریکہ منتقلی اور ٹیکنالوجی کی جبری منتقلی کو روکنا ناممکنات میں سے ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان رقابت اتنی گنجلک اور شدید ہے کہ طرفین کو خود بھی نہیں پتہ کہ اسے کیسے سلجھائیں۔ اس طرح کے مزید احمقانہ اقدامات عالمی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔یہ رقابتیں نئی جیو پولیٹیکل صف بندیوں میں بھی نظر آتی ہیں۔ پاکستان چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کا حصہ ہے۔ حالیہ سالوں تک پاکستانی میڈیا میں سی پیک کے فوائد اور معجزات کے بارے میں ’تجزیہ نگار‘ اپنی رائے دیتے تھے۔ لیکن عمران خان کی حکومت قائم ہونے اور گہرے ہوتے ہوئے معاشی بحران کی وجہ سے پاکستان کو آئی ایم ایف (امریکہ) کی جانب رخ کرنا پڑا۔
پاکستان کو معاشی بیل آئوٹ دیا گیا لیکن ملک کو چینی حلقے سے نکالنے کی قیمت پر۔ نتیجتاً سی پیک پر کام رک گیا ہے یا انتہائی سست ہو گیا ہے۔ اس تبدیلی سے ملک میں شدید سیاسی اتھل پتھل نے جنم لیا۔ اسی طرح نیپال میں بھی چین اپنا معاشی اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ نیپال روایتی طور پر انڈیا (امریکہ) کا حلقہ اثر رہاہے لیکن پچھلے کئی سالوں سے ملک میں چینی سرمایہ کاری بہت بڑھ گئی ہے اور پہلی دفعہ نیپالی حکومت کو انڈیا کے اثر و رسوخ سے نکلنے کا موقع ملا ہے۔ پچھلے سال نیپال اور انڈیا کے درمیان سفارتی سطح پر تلخی دراصل ملک میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی غمازی کرتی ہے۔
اس کے علاوہ چند دن پہلے چین اور ایران نے 25 سالہ باہمی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت باہمی تجارت اور عسکری تعاون کو فروغ دیا جائے گا اور چین ایران کی معیشت میں سرمایہ کاری کرے گا۔ میانمار کے حالیہ واقعات میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی چین بھرپور حمایت کر رہا ہے۔ چین نے لبرل آن سانگ سوچی کی حکومت کی برطرفی کو ’’کابینہ میں تبدیلی‘‘ کا نام دیا ہے۔ امریکہ اور چین کی ان پراکسی جنگوں میں ان ممالک کا امن اور سیاسی استحکام تہ و بالا ہو گیا ہے۔اسی طرح بحیرہ جنوبی چین میں امریکہ اور چین کے درمیان چپقلش چل رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق عالمی تجارت کا 3.37 ٹریلین ڈالر ہر سال اسی سمندری راستے سے گزرتا ہے۔
چین اس سمندر کے 90 فیصد وسائل پر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ برونائی، ملائیشیا، فلپائن، تائیوان اور ویتنام بھی ان وسائل پر دعویٰ کرتے ہیں۔ اسی طرح یہاں کے مختلف جزیروں پر بھی تنازعات موجود ہیں۔ چین نے متعدد مصنوعی جزیرے تعمیر کر کے ان پر فوجی تنصیبات نصب کی ہیں۔ دوسری طرف امریکہ اس اہم آبی گزرگاہ پر چینی دعوئوں کو مسترد کرتا ہے اور وقتاً فوقتاً اپنے بحری جنگی جہازوں کو علاقے میں بھیج کر چینی دعوئوں کو چیلنج کرتا رہتا ہے۔ کئی مرتبہ یہ بحری جنگی جہاز چینی بحری جنگی جہازوں کے نزدیک سے بھی گزرے ہیں جس سے ایک تصادم کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
کئی سالوں سے بورژوا ماہرین چین اور امریکہ کے درمیان کشمکش کو ماضی کی سرد جنگ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ لیکن اس تمثیل کی اپنی حدود ہیں۔ سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ کے دوران امریکہ نے پوری سرمایہ دارانہ دنیا کو اپنے گرد اکٹھا کیا ہوا تھا۔ سوویت یونین کا معاشی نظام دیگر سرمایہ دارانہ ممالک سے مکمل طور پر مختلف بلکہ متضاد تھا۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان بمشکل ہی کوئی معاشی رابطہ تھا۔ بلکہ سوویت یونین کا دوسرے سرمایہ دارانہ ممالک سے معاشی رابطہ بھی انتہائی محدود تھا۔ دوسری طرف چین 1978ء کی سرمایہ دارانہ اصلاحات کے آغاز کے بعد آج ایک بڑی سرمایہ دارانہ معیشت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اگرچہ ’’لبرل نظم و نسق‘‘ کے حامل سرمایہ دارانہ ممالک چین کے اس ماڈل کو ناپسند کرتے ہیں۔
کیونکہ چین اپنی معیشت کو پوری طرح ان کے لیے نہیں کھول رہا اور چینی معیشت میں ابھی بھی گہرا ریاستی عمل دخل موجود ہے۔ اسی وجہ سے مغربی ممالک اپنے منافعوں کی ہوس کو منافقانہ انداز میں چھپاتے ہوئے اسے چین میں ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘‘ اور ’’آمریت‘‘ وغیرہ کا نام دیتے ہیں۔ آج چین اور امریکہ کی معیشتیں زیادہ گہرے انداز میں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ امریکہ چینی مصنوعات کی ایک بہت بڑی منڈی ہے۔ دونوں ممالک کی ہزاروں کمپنیوں نے ایک دوسرے کی معیشتوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے دونوں معیشتوں کو جدا کرنے (Decouple) کا منصوبہ انتہائی احمقانہ اور دیوانے کا خواب ہے۔ چینی معیشت نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کی معیشتوں کے ساتھ اٹوٹ انداز میں جڑی ہوئی ہے جسے کسی طرح بھی الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے کسی طرح کے اقدام سے گلوبل سپلائی چین میں خلل پیدا ہو گا جو پوری عالمی معیشت کو ڈبو دے گا۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کے نظام سرمایہ داری کے ہوتے ہوئے یہ تضادات بھڑکتے رہیں گے اور دنیا کو تباہ کاری کی طرف دھکیلتے رہیں گے۔سرمایہ داری کے خاتمے سے ہی یہ تضادات اور بربادیاں ختم ہوں گی اور انسانیت مقابلہ بازی اور جنگ و جدل کی بجائے باہمی تعاون اور یکجہتی کی بنیاد پر ترقی کی راہوں پر گامزن ہو گی۔