پاکستان میں سیاسی،سماجی اور معاشی تنزل کا راز موجودہ رسمی نظام تعلیم ہے۔جسکے مثبت اثرات کے بجائے معاشرے پر مسلسل منفی اثرات پڑرہے ہیں۔معاشرے کے کسی بھی شعبے کو دیکھا جائیں تو سارے کے سارے زبوں حالی کے شکار ہیں۔اخلاقی طور پر لوگ روز بروز کرپٹ نکلتے جارہے ہیں اور سائنسی طور انکا کوئی خاطر خواہ کنٹربیوشن نہیں۔تخلیقی صلاحیتیوں پر کام کرنے بجائے اور انھیں ابھارنے کے بجائے مختلف طریقوں سے دبایا جاتا ہیں۔تعلیمی ادارے لرننگ انسٹیٹیوشنز کے بجائے کمائی کے ادارے بن چکے ہیں۔جہاں بچپن سے لیکر یونیورسٹی سطع تک نئی نسل کو خوف اور نفرت سکھائی جاتی ہیں۔
جسکی وجہ سے انسان ملک و معاشرے کیلئے فائدہ مند بننے کے بجائے نقصان کے سبب بنتے جارہیہیں۔ایک بہترین ترقی یافتہ ملک کیلئے ایک تعلیمی تبدیلی کی اشد ضرورت ہیں۔جسکے بغیر ملکی خوشحالی اور ترقی ممکن نہیں۔ پاکستان کے سکولز،کالجز اور یونیورسٹیز میں چیزوں کو سمجھانے کے بجائے انھیں یاد کروائیں جاتے ہیں۔بچوں کی یاداشت سے انکی ٹیلینٹ کو ناپنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔انکی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتیوں کے اوپر کام کرنے کے بجائے انہیں سوالات کرنے سے روکا جاتا ہیں۔جہاں سوال کرنیسے پہلے سوالات پوچھنے کا ڈر سکھایا جاتا ہے۔
نمبروں کے چکر میں بچے اپنے زندگیوں کے 16 سال ،17 سال ضائع کردیتے ہیں۔ تعلیمی اداروں سے نکلنے کے بعد انکی تخلیقی صلاحیتیں دب کر رہ جاتی ہیں۔ایک ڈگری کے ساتھ مایوسی کے سوا انہیں کیا ملتا ہیں؟
انتہائی شرمناک بات یہ ہے کہ زندگی کے کئی سال تعلیمی اداروں میں گزارنے کے باوجود انہیں اپنے پاوں پر کھڑا ہونا اگر مشکل محسوس ہوتا ہیں۔تو اسکا مطلب ہے ان تعلیمی اداروں میں تعلیم کے نام پر انکی صلاحیتیوں کو شدید نقصان پہنچایا جاتا ہیں۔شروع دن سے فیل ہونے پر بھی انکی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے نہ کہ توہین۔کامیاب وہ نہیں جو حصول ڈگری میں کامیاب ہوجائیں۔کامیاب دراصل وہی ہے جس کے علم سے اسکی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہورہے ہو۔جو معاشرے کیلئے ایک پروڈکٹیو انسان بن جائیں۔جسکے علم کی بدولت سماج پر مثبت اثرات واضع ہونا شروع ہوجائیں۔مگر موجودہ نظام تعلیم مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں۔
نااہل ڈگری یافتہ اساتذہ جنہیں اپنے سبجیکٹ میں مہارت نہیں یا اپنے علم کو ٹرانسفر کرنے کیلئے وہ مخصوص کمیونیکیشن سکلز نہیں تو ایسے اساتذہ کی زیرنگرانی میں کوئی بچہ چیزوں کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟جو اساتذہ مسلسل اپنی روایتی سوچ کو نئی نسل کے زہنوں میں ٹھونسنے کی ناکام کوششیں کرتے رہتے ہیں۔خود کو محترم اور افضل سمجھ کر نئی نسل کے اوپر اپنے استاد ہونے کا احسان کرتے رہتے ہیں۔خود کو آقا اور بچوں کو غلام یا کسٹمرز کے طور پر ڈیل کرنے والے ایک بہترین مستقبل کیلئے کیا کردار ادا کررہے ہیں؟ایسے معاشرے کو معیاری اساتذہ کی اشد ضرورت ہیں ۔
جو نئی نسل کو سوال کرنے پر ابھارے۔جو انھیں سوچنے پر مجبور کریں اور تخلیقی صلاحیتیوں کو پروان چڑھانے کیلئے اپنے علم کو استعمال میں لانے کیلئے ایک پریکٹیکل ماحول فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے مگر یہاں علوم کتابوں تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔وہ علم بیفائدہ ہے جسکا عملی زندگی میں کوئی استعمال نہیں۔ایک بہترین معاشرے کی تعمیر کیلئے ایجوکیشنلی سکلڈ اساتذہ کا کردار فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہیں۔اس ملک کے تعلیمی نظام میں سکولز ،کالجز اور یونیورسٹیز تک طلباء کو مقابلہ اور خوف کا درس دیا جاتا ہیں۔ایک دوسرے سے مقابلے کی وجہ سے بچے آگے بڑھنے کی لالچ میں آکر حسد،بغض اور نفرتوں کے شکار ہوجاتے ہیں۔
ایک دوسرے کو ساتھ لیکر چلنے کے بجائے ایک دوسرے کو پیچھے دھکیلنا شروع کردیتے ہیں۔مقابلہ اور کم نمبر لیکر فیل ہونے کی ڈر کی وجہ سے انکی زہنی صلاحتیں مفلوج ہوجاتے ہیں۔کم نمبرز لینے والوں کی توہین اور زیادہ رٹہ لگانے والوں کو انعامات سے نوازنے سے انکی صلاحیتیں کیسے بہتر ہوسکتے ہیں؟ چند نمبروں کی بنیاد پر کسی کو ناکام قرار دینا ایک جرم عظیم سے کم نہیں۔کسی انسان کے حوصلوں کو پست کرنا اور ان کیلئے کندزہن ،نکمے جیسے الفاظ کا چناو کرنا کونسی باشعور ہونے کا درس ہیں؟ جو ہمارے اساتذہ خوشی سے کررہے ہیں۔
نظم و ضبط کے ذریعہ بچوں کو غلامی کا درس دیا جاتا ہیں۔جسکی وجہ سے بچیایسے بیحس ہوجاتے ہیں کہ غلط کو غلط قرار دینا مشکل ہوجاتا ہے اور تنقید کرنے سے کتراتے ہیں۔آج اگر معاشرہ اخلاقی طور پر کرپٹ ہیں تو اسکا سب سے زیادہ ذمہ دار تعلیمی ادارے ہیں جو تربیت خانوں کے بجائے غیراخلاقی پن کو بڑھا رہے ہیں۔بچوں کے زہنوں میں فضول پرانی چیزیں نسل در نسل ٹھونسنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ تعلیمی بہتری کی راہ میں ایک رکاوٹ میڈیئم آف انسٹرکشن کا بھی ہیں۔مادری زبانوں کو چھوڑ کر دوسرے زبانوں میں درس دینے سے علوم کا حصول مشکل ہیں۔
بچے میٹرک تک اردو صحیح طریقے سے نہیں سیکھ پاتے۔میٹرک کے بعد انگلش لینگوئج سیکھ کر چیزوں کو سمجھنا ان کیلئے مشکل ہوتا ہیں۔معصوم بچے میٹرک تک آکر اردو لینگوئج کو اچھی طرح سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔تو اردو اور انگلش میں پڑھائی گئی چیزوں کو کیسے سمجھیںگے؟ مختلف علوم کو سمجھنے کیلئے مادری زبانوں کو میڈئم آف انسٹرکشن کے طور پر اپنانا ہوگا۔ورنہ یہ تعلیم بچوں کے زندگیوں کے کئی سالوں کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں۔اردو اور انگلش کو ایک لینگوئج کے طور پر سکھایا جائے تو الگ بات ہیں۔
تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کیلئے تعلیمی اداروں کو ان ایجوکیشنل سکلز پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہیں۔
لیکن کیا ہمارے تعلیمی اداروں سے فراغت پانے والے طلباء میں یہ سکلز پائے جاتے ہیں؟
زہنوں کو بیچین اور انتشار کے شکار بنانے والے تعلیمی اداروں کے ذریعہ معاشرتی تبدیلی کیسے ممکن ہیں؟
موجودہ نظام تعلیم کے ذریعہ ملکی ترقی و خوشحالی ممکن نہیں۔سیاسی، معاشی اور معاشرتی انقلاب لانے کیلئے ایک تعلیمی انقلاب کی ضرورت ہیں۔
حقیقی تعلیمی سکلز کو نئی نسلوں میں پروان چڑھانے کی کوششیں کرنے کی اشد ضرورت ہیں۔ان تعلیمی سکلز کو بروئیکار لانے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہیں۔تاکہ کل کا نوجوان ایک جاب کے چکر میں پڑنے کے بجائے جاب جنریٹ کرنے والا بن جائیں۔دوسروں سے توقعات رکھنے کے بجائے ان کیلئے ایک سہارا اور امید کی کرن بن جائیں۔اپنے اپنے شعبوں میں اپنی مخصوص سکلز کو بڑھاکر معاشرے میں ایک بہترین کردار ادا کرنا شروع کردیں۔