|

وقتِ اشاعت :   April 17 – 2021

دنیا کا یہ ضابطہ ہے،کوئی انسان تنہا زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ ہرانسان زندگی بسرکرنے میں دوسرے انسانوں کا محتاج ہے۔ ہر انسان کی زندگی دوسرے انسانوں کے تعاون کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔کوئی انسان دوسرے انسانوں کے تعاون کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے اورتعاون لیتے ہوئے ہی انسان کو زندگی کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اور ایک مثالی معاشرہ وہی ہوتا ہے، جس میں تمام انسان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے اورحاجت مندوں کی ضرورت کو پورا کرتے زندگی گزارنے کو اپنا فرض سمجھیں۔

ایک دوسرے کے کام آنا ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کا آغاز ہے۔ بلاتفریق ایک دوسرے کی مدد کرنا تمام معاشروں کا خاصہ ہے۔ دنیا کے ہر مذہب نے انسانیت کی بلا امتیاز خدمت کی تلقین کی ہے۔ ضروت مند کی حاجت روائی ہر مذہب کی بنیادی تعلیم ہے۔اسلام کی حقوق العباد کی تعلیمات معاشرتی ذمے داریوں اور انسانی فلاح وبہبود کی مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔صدقہ، خیرات، زکوٰۃ، فطرانہ اور وقف یہ تمام عمل مال اور وسائل کو معاشرے کے محروم طبقات تک پہنچانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ دین اسلام سراسر انسانیت کی فلاح کا مذہب ہے۔

اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اخوت، ہمدردی، ایثار، قربانی اور محبت کا حکم دیتا ہے۔ دین اسلام میں محتاجوں، غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کے واضح احکامات دیے گئے ہیں۔اسلام نے انسانیت کی مدد کرنے کا درس دیا ہے۔ دکھی انسانیت کی مدد کرنا بہت عظیم کام ہے۔ تمام معاشروں میں خدمت خلق انسانی اقدارکی بلند تر صفات کا حصہ ہے۔ دنیا بھر میں خدمت خلق کے لیے خیرات ایک منظم شعبے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ برطانیہ میں ایک لاکھ 62 ہزار 4 سو 27 خیراتی ادارے ( Charities) رجسٹرڈ ہیں، جن کو حاصل ہونے والی چیرٹی کی سالانہ مالیت 53.4 ارب پائونڈ ہے۔ برطانیہ کے 98 فیصد گھرانے خیراتی اداروں کی جانب سے مہیا کردہ سہولیات کا کسی حد تک استعمال کرتے ہیں۔


امریکا میں بھی صورتحال اس سے ملتی جلتی ہے۔ گیونگ یو ایس اے 2016 رپورٹ کے مطابق 2015 میں امریکیوں نے 373.25 ارب ڈالر انسانی ہمدردی کے مقاصد کے لیے خیرات کیے، جس کا 71 فیصد یعنی 264.58 ارب ڈالر امریکیوں نے انفرادی طور پر عطیہ کیا۔ مغربی معاشرے نے اسلام کے بہت سے احکام پر عمل کر کے خود کو ایک مضبوط اور خوشحال معاشرہ بنا لیا ہے۔ انھوں نے ایک سال میں اتنی بڑی دولت صرف معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کی ہے۔ہم مسلمان جنھیں ہمارا مذہب دکھی انسانیت کی خدمت کا باقاعدہ حکم دیتا ہے۔

ہم پر تو دکھی انسانیت کی خدمت کرنا اور بھی زیادہ ضروری ہوجاتا ہے۔ دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے بہت بڑی رقم خرچ کرنا ضروری نہیں، بلکہ جس کے پاس جتنی استطاعت ہو، وہ اتنی رقم خرچ کرکے خدمت خلق کرسکتا ہے۔ ہم لوگ اپنی زندگی کی سہولیات کو بڑھانے کے لیے اتنے زیادہ پیسے خرچ کردیتے ہیں، جس میں سے اگر تھوڑا سا بچایا جائے تو بہت سے گھرانوں کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔ اپنے گلی محلے میں ضرورت مندوں کو تلاش کریں۔ہر علاقے میں بہت سے سفید پوش حاجت مند ہوتے ہیں، جو اپنی پریشانی صرف اپنے رب کے سامنے بیان کرتے ہیں۔

جوکسی دوسرے کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ خاموشی کے ساتھ ایسے لوگوں کے ساتھ تعاون کریں، ان کی پریشانی حل کرنے میں معاون بنیں۔ ہر علاقے میں ایسے ضرورت مند بھی موجود ہوتے ہیں، جو بھرپور تگ ودو اور محنت مزدوری کرنے کے باوجود اپنے بچوں کی ضروریات پوری نہیں کرسکتے۔ان کے بچے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہتے ہیں، اسکول نہیں جاسکتے۔اسکول کی فیس ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ کتابیں نہیں خرید سکتے۔ تعلیم حاصل کرنے کا دل تو ان بچوں کا بھی کرتا ہے۔

اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا خواب تو ان کے والدین بھی دیکھتے ہوں گے، مگر غربت یہ خواب پورا نہیں ہونے دیتی۔ ایسے گھرانوں کا ساتھ دیں۔ اپنے علاقے کی سطح پر چند صاحب استطاعت افراد کے ساتھ مل کر ایسے گھرانوں کے ساتھ خاموشی سے تعاون کا انتظام کریں۔ تعلیم سے محروم بچوں کو تعلیم دلوانے کا انتظام کریں۔ان بچوں کی تعلیم کا خرچ اپنے ذمے لے لیں۔کتنے لوگ غربت سے تنگ آکر خودکشی تک کرلیتے ہیں۔ اپنے علاقے میں ایسے تنگ دست افراد کو تلاش کریں۔ اس سے پہلے کہ وہ موت کو گلے لگالیں، ان کی مدد کریں اور ان کی ضرورت کو پورا کریں۔ تلاش کرنے سے ایسے غریب گھرانے بھی مل جائیں گے، جن میں صرف وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بچیوں کی شادی نہیں ہوسکی۔

ہمارے ملک میں ایسے واقعات بھی پیش آچکے ہیں کہ والدین کے پاس بچیوں کی شادی کرنے کے وسائل نہ تھے، بچیوں کی گزرتی عمر کے خوف سے بعض واقعات میں والد نے خودکشی کرلی اور بعض واقعات میں بچیوں نے خودکشی کر لی۔ جن کو اللہ نے استطاعت دی ہے، وہ اپنے علاقے میں خاموشی سے کسی غریب بچی کی شادی کا انتظام کریں، اکیلے نہیں کرسکتے تو اپنے ساتھ کچھ کچھ اور لوگوں کو ملا کر یہ نیک کام سرانجام دے سکتے ہیں۔رمضان کا بابرکت مہینہ جاری ہے، جس میں نیکی کمانے اور انسانیت کی خدمت کا بھرپور موقع ہے۔

اپنے گلی محلے میں ایسے افراد کو تلاش کیجیے جو رمضان میں بھی خشک روٹی اور سادہ پانی کے ساتھ روزہ افطار کرتے ہیں۔ کتنے ہی ایسے ہوتے ہیں، جو عید پر بھی اپنے اور اپنے بچوں کے لیے نئے سوٹ سلوانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اپنے بچوں کے لیے نئے جوتے خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ یہ اپنے بچوں کی ضروریات پوری نہیں کرسکتے۔ خاموشی کے ساتھ ایسے افراد کے ساتھ تعاون کیجیے۔ یہ لوگ حقیقت میں تعاون کے حقدار ہیں۔’کرسمس، ایسٹر، تھینکس گوئنگ ڈے‘‘ اور ’’بلیک فرائیڈے‘‘ امریکا میں بڑے تہواروں کے طور پر منائے جاتے ہیں۔

ان دنوں امریکا میں ہر طرح کی ضروریاتِ زندگی 50 فیصد تک سستی کر دی جاتی ہیں۔ لوگ ان دنوں میں سارے سال سے زیادہ خریداری کرتے ہیں۔ امریکا کے بڑے بڑے اسٹورعوام کے لیے دن رات کھلے رہتے ہیں۔ ہرشے ارزاں نرخوں پر دستیاب کردی جاتی ہے۔ معاشی طور پر کمزور امریکی اس موقعے سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آن لائن سودے طے ہوتے ہیں۔ سامان گھروں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔امیر لوگ غریبوں کو خوشیوں میں شامل کرنے کے لیے اپنا فالتوقیمتی سامان مفت بانٹتے پھرتے ہیں۔ وہ اسے اپنے گھروں کے دروازوں پر ڈھیروں کی صورت لگا دیتے ہیں۔

ضرورت مند آتے اور مطلوبہ اشیا ء اٹھا کر چل پڑتے ہیں۔ غریبوں کو بھی ساری اشیاء مفت مل جاتی ہیں، جن سے ان کی زندگیوں میں سکھ اور آرام کی چھاؤں آجاتی ہے۔ یہ امریکا کا حال ہے، جب کہ ہم تو مسلمان ہیں، ہمارا مذہب اسلام تو ہمیں دوسروں کی مدد اور ہمدردی کی تلقین کرتا ہے۔ہمارا مذہب تو ہمیں اس ماہ میں ایک نیکی کے بدلے ستر نیکیاں دینے کا اعلان کرتا ہے، لیکن افسوس ہم اس ماہ میں ضروریات زندگی سستی کرنے کے بجائے مہنگی کردیتے ہیں۔ نیکیاں کمانے کے مہینے کو ہم لوگ منافع کمانے کا مہینہ بنا لیتے ہیں۔افسوس ہم لوگ مسلمان ہوکر بھی اسلام کی روح کو نہ سمجھ پائے۔