|

وقتِ اشاعت :   April 18 – 2021

ضلع آواران بلوچستان کے سورش زدہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ خطہ اپنے محل وقوع اور جغرافیائی حوالے سے افغانستان کے تورہ بورہ کے پہاڑی سلسلہ سے مشابہت رکھتا ہے۔ اونچے اونچے پہاڑ اور سینکڑوں غاروں پر مشتمل تین سے زائد پہاڑی سلسلے یہاں واقع ہیں۔ جو آواران سے شروع ہوکر ضلع پنجگور، ضلع کیچ اور ضلع گوادر کے مختلف سمتوں میں جاملتے ہیں۔ سورگر پہاڑی سلسلہ اورناچ سے شروع ہوکر جھاؤ، ہنگول اور اورماڑہ تک چلا جاتا ہے۔ اسی طرح نال سے کوہ شاشان کا سلسلہ جھاؤ سے لیکر بحرہ بلوچ تک جاتا ہے۔

تیسرا پہاڑی سلسلہ مشکے سے ہوتا ہوا ضلع پنجگور سے ہوتا ہوا ضلع کیچ کے علاقوں تک چلا جاتا ہے۔ جن میں گچک، تمپ، مند، بلیدہ، زامران اور دیگر علاقے شامل ہیں۔ قیام پاکستان سے لیکر اب تک یہاں ہر طرف بدحالی اور افلاس موجود ہے۔ لوگ معاشی اور سماجی مسائل کی لپیٹ میں ہیں۔ ہر طرف مایوسی اور بے چینی کی فضا قائم ہے۔ یہ معاشی اور سماجی مسائل ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ یہ مسائل اچانک پیدا نہیں ہوئے بلکہ معاشی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ان کے حل کے لئے حکومت نے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ضلع آواران مختلف ادوار میں دو خاندانوں کے حوالے کیا گیا۔ ان خاندانوں کو سرپرستی حاصل تھی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

معاشی اور سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق کسی بھی خطے میں معاشی بدحالی اور سماجی نابرابری قائم ہو۔ جہاں ریاست لوگوں کے بنیادی حقوق دینے میںناکام ہو، وہاں لوگ بغاوت پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ آواران کی کہانی بھی کچھ اسی طرح کی ہے۔ ضلع آواران میں سرکار نے اپنے عوامی نمائندے تیار کئے۔ انہیں انتخابات میں زبردستی جتوایا جاتا ہے۔ انہیں وزیراعلیٰ، اسپیکر اسمبلی اور وزرائے اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتاہے۔ انہیں اقتدار اور اختیارات کے مالک بنایا جاتاہے۔ آج کل ضلع آواران کو ایک کمپنی کے طور پر چلایا جارہا ہے۔

جس کو ’’مجید بزنجو اینڈ سنز‘‘کہا جاتا ہے۔ اس سے قبل ’’گچکی برادرز اینڈ سنز‘‘ ایک گڈز کیریئر کی طرح ضلع کو چلاتے رہے ہیں۔ ان سرکاری نمائندوں نے علاقے میں نہ سڑک بنائی اور نہ ہی پینے کا پانی فراہم کیا، اور نہ تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کیں۔ اس صورتحال کے تناظر میں لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ انتخابات میں عوام جو اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں اس کا کوئی احترام نہیں کیا جاتا ۔ جب موجودہ اسپیکر اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان، عبدالقدوس بزنجو پانچ ہزار ووٹ سے شکست کھاتا ہے تو تیسرے دن ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کروایاجاتا ہے۔

ووٹرز نے یہ محسوس کیا کہ یہاں ووٹ دینا یا نہ دینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اور نہ ہی ووٹ کے ذریعے تبدیلی آتی ہے۔ یہاں مرضی اور پسند ناپسند کی بنیاد پر نمائندوں کو جتوایا جاتا ہے۔ اس تمام صورتحال کی وجہ سے لوگوں کو احساس محرومی اور بے چینی نے اپنے گھیرے میں لے لیاہے۔ اور لوگوں کا یقین پارلیمانی سیاست سے اٹھتاجارہا ہے اوروہ پارلیمانی سیاست کے خلاف بغاوت کرنے لگے ہیں۔ضلع آواران اپنے قدرتی محل وقوع اور جغرافیائی اعتبار سے ایک معاشی حب بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس بدحال ضلع کو ایک معاشی ڈھانچہ دینے کے لئے کبھی بھی کام نہیں کیا گیا۔


آواران ایک زرعی علاقہ ہے۔ بارانی ندی نالوں کا ایک بڑا مرکز ہے۔ جہاں متعدد بارانی ندیاں گزرتی ہیں۔ جن میں نال کور، مشکے کور اور دیگر چھوٹی اور بڑی ندیاں شامل ہیں۔ اگر ان پر ڈیمز بنائے جائیں، تو یہاں زراعی انقلاب آسکتا ہے۔ ہر طرف خوشحالی آسکتی ہے۔ملین کیوسک پانی بارانی ندی نالوں سے گزرتا ہوا بحرہ بلوچ میں جا گرجاتا ہے۔ ان ندی نالوں کا ملاپ ہنگول دریا سے ہوتا ہے۔ ہنگول دریا کا کیچمنٹ ایریا قلات اور ضلع پنجگور سے شروع ہوتا ہے۔ جو ضلع کیچ کے علاقے ڈنڈار کے بعض ندی نالوں کا ایک جنکشن ہے۔

جہاں یہ سارے ندی نالے ایک دریا کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ہنگول دریا ضلع آواران سے گزرتا ہے۔ 350 میل لمبا یہ دریا بلوچستان کا سب سے بڑا دریا ہے۔ اس دریا کا پانی ہنگول نیشنل پارک میں سارا سال رہتا ہے۔ ہنگول نیشنل پارک پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو تقریباً چھ لاکھ 19 ہزار ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ پارک بلوچستان کے تین اضلاع آواران، لسبیلہ اور گوادر، میں پھیلا ہوا ہے۔حکومتِ بلوچستان کے ایک نوٹیفیکیشن کے تحت 1992میںآواران کو ضلع کا درجہ دیدیا گیا۔

ضلع کا درجہ ملنے سے قبل آواران ضلع خضدار میں شامل تھا۔دراصل آواران کا نام بھی ان ندی نالوں کے ملاپ کی وجہ سے پڑا۔ یہ بلوچی لفظ ہے جس کا مطلب ہے ایک سے زائد چیزوں کو ایک جگہ شامل یا ان کا ملنا ہوتا ہے۔ یعنی چیزوں کے باہمی ملاپ کو کہتے ہیں۔ آواران کے علاقے کا پرانا نام ’’کولواہ‘‘ تھا۔ کولواہ کا علاقہ بلوچستان کے دو اضلاع میں پھیلاہوا ہے۔ جن میں ضلع آواران اور ضلع کیچ شامل ہیں۔ اس کا بیشترعلاقہ ضلع آواران میں آتا ہے۔ کولواہ ایک بڑی تاریخ رکھتا ہے۔ جو بلوچ قوم کے تمام قبائل کی جنم بھومی ہے۔ جن میں رند، جتوئی، لاشاری، کورائی اور ہوت شامل ہیں۔

بلوچ تاریخ کے مطابق سردار میر جلال خان بلوچ تمام بلوچ قبائل کے سردار تھے جس نے گیارہویں عیسوی میں کرمان کے پہاڑوں اور لوط کے ریگستان میں سے گزرتا ہوا۔ کولواہ کو اپنا مسکن بنایا۔ جہاں ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ چار بیٹوں میں رند، کورائی، لاشار اور ھوت جبکہ بیٹی جتوئی شامل تھی۔ آگے چل کر چودھویں صدی کے آخر میں رند کی اولاد سے میر چاکر خان رند پیدا ہوا۔جب شیرشاہ سوری نے مغل شہنشاہ ہمایوں کو شکست دے کر ہندوستان پر اپنی حکمرانی قائم کی۔ مغلیہ سلطنت کے بادشاہ ہمایوں نے میر چاکر خان رند سے مدد مانگی۔

اس زیادتی اور ناانصافی کے خلاف چاکر خان رند نے ان کا ساتھ دیا اور انہیں دوبارہ تخت پر بٹھادیا۔ بعدازاں مغلیہ سلطنت چارسوسال تک جاری رہی۔ چاکر خان نے اپنے آخری ایام اوکاڑہ (پنجاب) شہر میں گزارے۔ جہاں آج بھی میر چاکر خان رند کا مقبرہ خستہ حالت میں موجود ہے۔ضلع آواران کی معاشی ترقی موٹروے ایم 8 منصوبہ سے منسلک تھا۔ یہ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف حکومت کا منصوبہ تھا۔ اس کا بنیادی مقصد گوادر پورٹ کو ملک کے دیگر شہروں سے لنک کرنا تھا۔ یہ منصوبہ گوادر سے شروع ہونا تھا۔

جسے گوادر، دشت، تربت، ہوشاب، آواران، خضدار، رتو ڈیرو تا پنجاب اور کے پی کو لنک کرنا تھا۔ تاہم وہ سیاست کی نذر ہوگیا۔ اور اس وقت کے حکمرانوں نے لاہور سے پنڈی تک موٹروے تعمیر کردیا۔ جبکہ آج اس منصوبے کو موٹروے کے بجائے سنگل ٹریک تک محدود کردیا گیا ۔ یعنی دو رویہ موٹر وے کو 24 فٹ سڑک میں تبدیل کردیا گیا۔ جس کی وجہ سے اس منصوبے کی اہمیت اور افادیت ختم ہوگئی۔ اور تو اور 24 فٹ والی سڑک کا منصوبہ بھی سست روی کا شکار بھی ہے۔2002 میں اس وقت کے ضلعی ناظم خیرجان بلوچ کی کوششوں سے آواران کو چھ جنریٹرز مل گئے تھے۔

یہ جنریٹرز عمانی حکومت نے مکران کے ساحلی علاقوں کے لئے دیئے تھے۔ تاہم ضلعی ناظم نے اس وقت کے گورنر امیر الملک مینگل سے اسپیشل درخواست کی تھی۔ اس طرح چھ جنریڑرز آواران کو مل گئے۔ آج کل ان کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ آواران اور گردونواح کے علاقوں کو ان جنریٹروں کے ذریعے بجلی فراہمی کی جاتی ہے۔ شروع میں بارہ گھنٹے تک بجلی ملتی تھی اور اب صرف 3 گھنٹے بجلی فراہم کی جاری ہے۔ جبکہ وفاقی حکومت نے نیشنل گرڈ اسٹیشن سے بجلی کی فراہمی اور شمسی توانائی متعارف کرانے کے اعلانات کیے تھے۔

تاہم مسئلہ جوں کا توں ہے۔ یہ اعلان 2013 کو ضلع آواران کو زلزلہ کی تباہی کے بعد کیا گیا۔ زلزلے میں 616 افراد ہلاک جبکہ 700 کے قریب زخمی ہوگئے تھے اسی طرح ہزاروں گھر مکمل یا جزوی طور پر متاثر ہوئے۔ نواز شریف حکومت شہر کو ماڈل سٹی بنانے کا اعلان کیا۔ اور متاثرین کو گھروں کی جلد تعمیر، شمسی توانائی کی فراہمی اور سڑکوں کا جال بچھانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ تاہم ان وعدوں پر کچھ خاص عمل نہیں ہوا۔ جبکہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی ذاتی کوششوں سے صرف 24 ہزار گھر بنانے کیلئے لوگوں کو پیسے فراہم کئے گئے۔

جبکہ نیشنل گرڈ اسٹیشن سے بجلی کی فراہمی ایک ادھورا خواب بن کر رہ گیا۔ آج بھی پورے ضلع میں سڑکیں ناقابلِ سفر ہیں، تعلیم و صحت کی صورت حال ابتر ہے، بیروزگاری و غربت عام ہے۔ علاقہ ویرانے کا منظر پیش کرتا ہے۔ ضلع میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے علاقے میں امن و امان کامسئلہ گھمبیر ہوگیا ہے۔ جہاں آج بھی امن و امان کی صورتحال ابتر ہے۔ لوگ سر چھپانے کے لئے بلوچستان اور سندھ کے مختلف اضلاع میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔اس حوالے سے پورے بلوچستان میں رہائش ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔

آواران کے ہزاروں خاندانوںنے ضلع تربت، ضلع لسبیلہ اور کراچی میں پناہ لی ہے۔ ہزاروں خاندان آئی ڈی پی کی حیثیت سے ان علاقوں میں رہتے ہیں۔ ان کی آبادکاری کے کیے حکومت کے پاس کوئی جامع پالیسی نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ غربت، بھوک اور افلاس اور بے روزگاری جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہیں۔
آواران کی موجودہ بھوک اور افلاس اور بے روزگاری کی صورتحال کے پیش نظر شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
’’جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی
مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی‘‘