آج سے کئی سال پہلے کی بات ہے کہ اس خطہ پر ایک گاؤں ہوا کرتا تھا جو کہ ایک ایسے قوم کی ثقافت کا امین تھا جو خود اپنی بقاء کی خاطر اپنے اقدار و روایات کو تحفظ دینے میں مگن رہتا تھا۔چونکہ قوموں کی پہچان ثقافت سے ہے لہذٓا ثقافت انسان کے اظہار کا ذریعہ ہے۔مزید برآں برطانوی اور فرانسیسی آثار قدیمہ کی سروے ٹیموں نے اس قوم کی ثقافت کو دنیا کا ایک منفرد ، مخصوص اور دوسری قدیم ثقافتوں کے مقا بلے میں مضبوط ثقافت قرار دیاہے، اس گاؤں میں ایسا دن نہیں تھا کہ یہاں کے باسی اپنی ثقافت کو زندہ نہ رکھتے تھے۔
مذہبی تہوار کے دنوں میں مالد (سماع) اور شے پرجاء کے ذریعے اپنے ثقافتی فن کا اظہار کیا جاتا تھا اور دور دور سے لوگ ان ثقافتی رسومات کو دیکھنے شوق سے آتے تھیفاس گاؤں کے عین مرکز میں ایک چبوترہ ہوا کرتا تھا جہاں پر دکانیں ہوتی تھیں یہ لوگ ایک مخصوص قسم کی کڑھائی چپلوں پر سجاتے تھے جسے چکن کاری کہا جاتا رہا ہے۔یہاں کی زراعت کا بھی کوہی نعم البدل ہی شاید کہیں اور ملے۔ نہری نظام کے ذریعے آبپاشی کی جاتی تھی غرضیکہ ایک دوسرے کے ساتھہ بھائی چارہ اور نہ ختم ہونے والا رشتہ قائم تھا۔ خوشی اور غم کے اوقات میں اتحاد ناگزیر ہوا کرتا تھا۔
مگر اچانک اس گائوں کو کسی بد کی نظر لگ گئی، ایک دن آیا جب اس گاؤں کو سیلاب کی تغیانی بہا کر لے گیا۔ مگر لوگوں نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور اپنی مدد آپ کے تحت پھر سے گاؤں کو آباد کرنے لگے۔ اب بھی یہاں کے رہنے والوں کو زندہ دلانِ کیچ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مگر ایک بار پھر سیلاب نے اس گاؤں کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا، بہت سے لوگ نقل مقانی کرنے پر مجبور ہوگئے بالآخر یہاں کے نوجوانوں نے سیلاب ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم پر اپنے جائز حقوق کی خاطر جہد و جہد تیز کردیا۔
چنانچہ بند کا مسئلہ ہو یا بجلی کی عدم فراہمی کا ، یہاں کے با شعور عوام نے اپنی آواز احکامِ بالا تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آج تک مزکورہ بالا کمیٹی علاقائی مسائل پر تندہی سے کام کررہا ہے۔بلاشبہ اس گاؤں کی مٹی بہت زرخیز ہے جس سے کئی شخصیات کی آبیاری ہوچکی ہے جن میں مذہبی حوالے سے واجہ مولوی حامد صاحب اور مولوی محمد آدم صاحب، تعلیم کے میدان میں واجہ ماسٹر خورشید، واجہ علی بلوچ، واجہ قاضی عبدالغفور ،واجہ محسن بلوچ، ڈاکٹر ڈی کے ریاض بلوچ، واجہ پروفیسر منیر گچکی، واجہ غلام حیدر، نے اپنا لوہا منوایا اور ایک سنہرا باب پیدا کیا۔
سماجی اور سیاسی میدان میں زیادہ متحرک دہقان علی، سردار رسول بخش درزادہ، سردار عبدالرحمان، ماسٹر بشیر اور سردار رفیق قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ ادبی شخصیات میں یار محمد نوقلاتی،امجد رحیم شاعر محمد بخش ہلکو، معروف سرجن اور ادیب ڈاکٹر بیزن بلوچ نے بھی اسی سرزمین پر سکونت اختیار کی جب وہ عطا شاد کالج میں زیرِ تعلیم تھے جبکہ کھیلوں کے میدان میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کھیلنے والے ستار منصوری، معشوق منصوری اور رافیع منصوری شامل ہیں ہردلعزیز شخصیت ڈاکٹر عصاء بلوچ کا تعلق بھی یہیں سے ہے۔اسکے علاوہ مشہور و معروف بلوچی گلوکار عارف بلوچ اور مشہور موسیقار استاد رفیق کا تعلق بھی اسی گاؤں سے ہے۔
یاد رہے کہ سیاست اور ادب، بیوروکریسی میں نام کمانے والے واجہ جان محمد دشتی اور اسکے بڑے بھائی شاعر واجہ کریم دشتی نے بھی زندگی کے ابتدائی ایام اسی سرزمین پر گزارے ہیں۔ چکن کاری کی دنیا میں بے تاج بادشاہ قاضی لعل بخش کا تعلق بھی اسی گاؤں سے ہے۔ شہید چاکر رند ایڈوکیٹ نے بھی مختلف پروگرام اور فورم پر اپنی بساط کے مطابق یہاں کے مسائل اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر جدید دور کی سہولیات سے محروم اس ثقافتی مرکز کو بھلا دیا گیا ہے جسے ہم کوشقلات کہتے ہیں۔چونکہ یہ ایک قدیم علاقہ ہے تو اس علاقے سے مکران کی تہذیب کے آثار نمایاں رہے ہیں۔ تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وراثتی اور ثقافتی مرکز کو محفوظ کیا جا ئے۔