بلوچستان میں غریبی، بے روزگاری، بے وسی ، بے حسی اور پد منتگی کی بیماریاں کیا کم تھے کہ کینسر بھی بلوچ کے حصے میں آیا۔ اب تک بلوچستان میں کسی کے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کینسر آخر کس چیز کا بدلہ بلوچ سے لے رہا ہے کیوں کہ بلوچ نے آج تک کیسنر کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا ہے ہاں اگر غصے میں بول دیا ہوگا کہ “کینسر ترا کینسر بجنت” کینسر آپکو کینسر مارے تو یہ کونسی غلط بات ہوئی کیوں کہ اگر کینسر موت بن کر آئے گا تو بدلے میں کوئی مظلوم بد دعا دینے کے سوا اور کر بھی کیا سکے گا۔ بلوچستان میں ادیب شاعر یا گشندہ ہونا یا زبان کے لیے خدمت کرنا سب سے بڑا گناہ تصور کیا جاتا ہے، جن کو زمینی خدا مارتا تو ہے۔
ہی مگر بیماریاں بھی ہمیشہ انہی کے حصے میں آتے ہیں، بیماریاں بھی عام سا نہیں۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ کینسر۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ سب سے بڑا بد بخت یہی ایک طبقہ ہے جن کے حصے میں درد ہی درد ہوتا ہے زندگی میں عیش و عشرت آرام ، پیسہ کچھ بھی نہیں استاد رحیم بخش ناز، استاد سبزل سامی، عبداللہ ثناء یا ہم سب کا حمل ظفر حمل ظفر بلوچی زبان کے نامور شاعر و ادیب ظفر اکبر کا بیٹا، مکران کے علاقے گومازی کے رہائشی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں وہی ظفر اکبر جسکا حمل کل رات اپنے ظفر اکبر کا نہیں رہا صرف ظفر اکبر ہی نہیں بلکہ حمل نے پورے بلوچستان پاکستان اور جہاں جہاں بلوچ یا انسان بستے ہیں ان سب کو غمزدہ کر کے اس دنیا فانی سے کوچ کر کے ہم سب کو یہ میسج دے دیا کہ کسی ادیب اور شاعر کے گھر میں زندہ رہنا۔
کتنا بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے کہ آدمی تو آدمی کینسر کو برداشت نہیں ہوتا ہے، کیوں کہ حمل بھی اس بد بخت باپ کا بیٹا تھا جو ایک شاعر تھا زبان کی خدمت کرنے والا انسان و انسانیت کا درس دینے والا محبت پھیلانے والا مگر بلوچستان کے ادیبوں کے حصے خوشیاں کہاں۔۔۔۔۔ آخر کار کینسر سے ظفر اکبر کی محبت بھری داستانوں کا گلدستہ برداشت نہیں ہوا آتے ہی ظفر اکبر کے معصوم بیٹے حمل کو اپنے گرفت میں لے لیا دو تین سال بلوچستان اور ملک کے کونے کونے اور خلیج میں حمل کے علاج کے لیے کمپئن چلائے گئے پیسے اکٹھے ہوئے مگر کیسنر بھی کیا کوئی عام سا دشمن ہے۔
جو آسانی سے شکست دیا جا سکے گا۔۔۔۔۔ گو کہ سرکاری حوالے سے ظفر اکبر سے زیادہ تعاون نہ ہو سکا مگر اوست ویلفیئر آرگنائزیشن جو وجود میں آیا بھی حمل ظفر کی وجہ سے، جس نے حمل کو کینسر جیسی ناسور سے نکالنے کے لیے کافی کوششیں اور محنت کی اسی طرح بلوچ میوزک پروموٹر سوسائٹی نے بھی کافی جد و جہد کی مگر وائے شومیں قسمت۔میرا ایک دوست جو اوست ویلفیئر آرگنائزیشن کے ساتھ کیچ میں کام کرتا ہے حمل ظفر کے علاج کے لیے جس ٹائم کمپئن چل رہی تھی تو اس دوست نے اس وقت کا قصہ ہمیں سنایا۔
ہم دن کو کبھی بازار کبھی دفاتر کبھی کھیل کے گراونڈ یا انسان کے غم کھانے والے لوگوں کے پاس جاتے تھے اور رات کو تھک ہار کر آرام کرتے تھے تو ایک دن مجھے شام کے وقت کال آیا میں کمپیئن سے فارغ ہو کر گھر پہنچ چکا تھا اس ٹائم، کال پے جو بات کر رہا تھا وہ ضعیف العمر لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے کہا کہ بیٹا کہ آپ کہاں ہیں کیا آپ اسی ٹائم فلاں جگہ آ سکتے ہیں مجھ سے حمل کا درد برداشت نہیں ہو رہا ہے حمل کے علاج کے لیے میں آپ سے تعاون کرنا چاہتا ہوں، میں نے سوچا کہ کوئی بوڑھا شخص ہوگا کہ بازار نہیں آسکتا اس لئے اب تھوڑی سی تعاون کر کے دل کو سکون دینا چاہتا ہے۔
میں نے ہاں بولا مگر تھکاوٹ کی وجہ سے خود کو تسلی دے کر نہیں گیا کہ کل اس سے رابطہ کرونگا۔۔۔۔۔۔ چند لمحوں کے بعد پھر اسکا کال آیا کہ بیٹا آپ آجائیں پھر کافی دیر ہوجائے گا اس بار وہ کافی پریشان سا لگ رہا تھا تو میں اس کے دیئے ہوئے ایڈریس پے گیا انہیں دیکھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ وہ ضعیف شخص کافی دنوں سے میرے انتظار میں رہے ہونگے میرے پہنچتے ہی مجھے ایک لفافہ دے گیا اور کہا بیٹا میں نے اپنی زندگی جی لیا ہے اور زندہ ہو کر کونسا تیر مارونگا یہ پیسے میرے حمل تک پہنچا دینا یہ پیسے مجھے میرے بیٹے نے خلیج سے بیجھے ہیں تا کہ میں اپنا علاج کر سکوں مگر مجھ سے زیادہ حمل کو انکی ضرورت ہے۔
کیوں کہ حمل کینسر سے لڑ رہے ہیں میری اپنی بیٹی اس ناسور کا شکار ہو کر مر گئی مجھے پتا ہے کہ یہ باپ کو کتنا درد دیتا ہے یہ یا تو میں جانتا ہوں کا حمل کا باپ۔۔۔۔۔۔ حمل سے ضرور کہنا بیٹا۔۔۔۔۔۔ حوصلے بلند کرنا جیت آپ ہی کی ہوگی حمل کبھی ہارا ہے کہ کینسر سے ہارے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست کہتا ہے اس ضعیف العمر انسان نے مجھے بلوچی زبان دیا کہ تم نے کسی کو بولنا نہیں کہ میں نے اپنے علاج کے پیسے حمل کے لیے آپ کو دیئے ہیں کیوں کہ حمل میرا بیٹا ہے باپ بیٹے کا حساب کتاب کیسا۔۔۔ دوست کہتا ہے کہ اس لفافے میں ستر ہزار روپے تھے جو میں نے اوست ویلفیئر آرگنائزیشن کے ذریعے ظفر اکبر تک پہنچا دیئے۔
یہ سب کچھ اوست ویلفیئر آرگنائزیشن کی وجہ سے ہی ممکن ہوا کہ ضعیف العمر انسان نے اپنا سب کچھ حمل کو دے ڈالا، کہاں کہاں سے حمل سے تعاون کرنے کے لیے لوگ سامنے آگئے کیوں کہ حمل ایک عام سی جنگ نہیں لڑ رہا تھا بلکہ حمل نے کینسر کو چیلنج کیا تھا وہی کینسر جس نے بلوچستان کے ادیب شاعر سیاست دان عظیم سوچ اور عظیم ہستیوں کو ہم سے جدا کر دیا تھا آج اسی کینسل کا مقابلہ بلوچستان کا ایک بچہ حمل ظفر کر رہا تھا کیسنر کو اسکا اوقات دکھانے کے لیے کہ آپ ایک ڈرپوک بیماری ہو جو بچوں سے نفرت کرتے ہو مگر یہ کبھی نہیں سوچنا حمل تم سے ڈرے گا حمل ڈرنے والوں میں سے نہیں حمل تمہارا مقابلہ کرے تمہیں شکست دے گا۔۔۔۔۔
حمل گو کہ کل رات ہم میں نہیں رہے مگر میں سمجھتا ہوں آخر کار حمل ظفر نے اوست ویلفیئر آرگنائزیشن کی صورت میں بلوچستان کو ایک انسانیت پسند غریب دوست پلیٹ فارم دے کر کینسر کو شکست دے دیا جو اب ہر اس حمل کا ساتھ دے گا جو کینسر کے خلاف لڑے گا تا کہ کسی ظفر اکبر کا حمل ان کے بچھڑ نہ جائے۔آخر میں اوست ویلفیئر آرگنائزیشن سے ایک ریکویسٹ ہے کہ اگر اوست ویلفیئر آرگنائزیشن کا نام حمل کے نام سے منسوب کیا جائے تو حمل کافی خوش ہونگے۔۔۔!