|

وقتِ اشاعت :   April 25 – 2021

عزیز سنگھور
بلوچستان کے تاریخی وادی ’’بولان‘‘ سے پنجاب کی معیشت چلتی ہے۔ پنجاب کی صنعتوں کا پہیہ صدیوں سے چل رہا ہے۔ بولان کے سنگلاخ پہاڑپنجاب کی فیکٹریوں اور بھٹوں کو ایندھن فراہم کرتے ہیں۔ بولان کے سینے میں دفن بلیک گولڈ یعنی کوئلہ نکالنے کا سلسلہ 1883ء سے شروع کیا گیا تھا۔ اس کا آغاز برطانوی سامراج نے کیا تھا جو ہنوز جاری ہے۔ ٹرینوں اور گاڑیوں کے ذریعے پنجاب کے شہروں کو کوئلہ سپلائی کیا جارہا ہے۔ مگر نااہل حکمرانوں کی جانبدارانہ پالیسیوں کی وجہ سے بولان کے باسی خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وہ دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ آج بھی ان کا ذریعہ معاش مال مویشی پالنا ہے۔ وہ بلیک گولڈ کے اصل مالک ہونے کے باوجود کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ ہر طرف بدحالی اور مفلسی کا دور دورہ ہے۔ جبکہ دوسری جانب بولان سے نکلنے والے ایندھن سے پنجاب ایک صنعتی صوبے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بولان سے نکلنے والا کوئلہ ایک وافر قدرتی خزینہ ہے۔ جسے بڑا بھائی (پنجاب) توانائی کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ پنجاب میں صنعتی یونٹوں کی وجہ سے روزگار کے بے شمار مواقع پیداہوتے ہیں، ہرطرف خوشحالی ہے۔ جبکہ حکومتی جانبدارانہ پالیسیوں کی وجہ سے بولان کے باسی ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ جیسی صورتحال سے گزر رہے ہیں جس کی وجہ سے علاقے میں ’’انسرجنسی‘‘ کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ ایک پرامن علاقے میں امن و امان کی صورتحال ابتر ہوگئی۔ موجودہ انسرجنسی ایک طویل تسلسل رکھتا ہے۔ اس کا آغاز انگریز سامراج کی آمد سے ہوا تھا۔ انگریز کے خلاف بولان کے شاعر، ادیب، دانشور، سیاسی اور قبائلی رہنماؤں نے آواز بلند کی۔ ان رہنماؤں میں میر محمد حسین عنقا، محمد حسن نظامی، میرعبدالعزیز کرد، میرعبدالواحد کرد اور دیگر شامل ہیں۔ انگریز فوج نے انہیں گرفتار کرکے مچھ جیل میں قید کردیا اور تحریک کو بندوق کے زور پر دبایا گیا۔ مقامی افراد کو دبانے اور کمزور کرنے کے لئے پنجاب سے لوگوں کو بسایا گیا۔ انہیں محکمہ ریلوے میں ملازمت دی گئی۔ ان کے لئے رہائشی کالونیاں بنائی گئیں۔ کوئلے کی کانیں ان کے حوالے کردی گئیں۔ آج بھی مچھ بولان کے 95 فیصد کوئلہ کانوں کے مالکان کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے۔ جہاں بڑی تعداد میں کوئلے کی کانیں ہیں۔ کوئلے کی کانوں کی تعداد 62 ہے۔ جن میں 52 فعال ہیں۔یہ کانیںبلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر درہ بولان میں واقع ہیں۔ یہ علاقہ ایک دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے۔ بولان کی تاریخی شہر مچھ میں ملک کی سب سے بڑی جیل بھی واقع ہے جسے انگریز سامراج نے 1929ء میں تعمیرکیا تھا۔ جس میں برصغیرہندوپاک کی نامور شخصیتیں قید رہیں جن میں نواب خیر بخش مری، میرغوث بخش بزنجو، سردارعطااللہ مینگل، نواب اکبربگٹی، میرگل خان نصیر، خان عبدالغفارخان، خان ولی خان، آغا عبدالکریم خان، میر عبدالواحد کرد، میرمحمد حسین عنقا، محمد حسن نظامی،میر عبدالعزیز کرد، روزنامہ آزادی، کوئٹہ اور بلوچستان ایکسپریس کوئٹہ کے بانی محمد صدیق بلوچ، معروف صحافی اور مصنف لطیف بلوچ کا نام قابل ذکر ہے۔ لاتعداد سیاسی ورکرز نے پھانسی گھاٹ پر شہادت نوش کی۔
گیارہ جون 1981 کو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے رہنما حمید بلوچ کو بھی مچھ جیل میں پھانسی دی گئی۔ حمید بلوچ کی میت کوان کے خاندان کے حوالے نہیں کیا گیا بلکہ ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے مکران کے علاقے دشت کنچتی میں ایک پہاڑی چوٹی پر پھینک کر چلے گئے۔ لاش پھینکنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ مشرف دور حکومت میں تربت شہر سے تین بلوچ رہنما غلام محمد بلوچ، لالا منیر اور شیر محمد بلوچ کو سابق اپوزیشن لیڈر بلوچستان اسمبلی اور انسانی حقوق کے رہنماء کچکول علی ایڈوکیٹ کے دفتر سے اٹھایا گیا۔ بعد میں ان کی لاشوں کو مکران کے علاقے ’’مرگ آپ’’ کے مقام پر پھینک دیا گیا۔ تینوں کی شہادت کے بعد کچکول علی ایڈوکیٹ کو مجبوراً پاکستان چھوڑنا پڑا۔ آج کل وہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
1935ء میں کوئٹہ کے تباہ کن زلزلے کا مرکز بولان تھا۔ زلزلے سے بولان بھی تباہ کاری کا شکار رہا۔ زلزلے کے بعد انگریز سامراج نے مچھ بولان کو ایک نو آبادیاتی شہر میں تبدیل کردیا۔ جہاں پنجاب بھر سے لاکرلوگوں کو آباد کروایا گیا جن میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس افتخار محمد چوہدری کا خاندان بھی شامل ہے۔ ان کے والد یہاں کوئلے کے کاروبار سے منسلک تھے۔ جسٹس افتخارچودھری نے اپنی ابتدائی تعلیم مچھ شہر میں حاصل کی اس طرح بولان ان کا آبائی علاقہ بن گیا۔
1880ء میں انگریز نے مچھ بولان میں ایک خوبصورت ریلوے اسٹیشن قائم کیا جس کا ڈیزائن سوئزرلینڈ کے ایک ریلوے اسٹیشن کے طرزپر بنایا گیا ہے۔ اس طرح بولان کو ملک کے دیگر حصوں سے ریلوے کے ذریعے منسلک کیاگیا۔
2008ء میں حکومت بلوچستان نے ضلع بولان کا نام تبدیل کر کے ضلع کچھی رکھ دیا ۔اس علاقے کو ’’جیل اور ریل‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم بولان کو مقامی (براہوئی) زبان میں’’ درلان‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ’’درلان‘‘ اونچے اونچے پہاڑ کو کہتے ہیں۔ کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ درہ بولا ن کرد قبیلہ کے ایک نامور شخص ’’بولان‘‘ کے نام سے منسوب ہے۔ بولان کی اولاد بولانزئی کے نام سے درہ بولان ہی کی وادی میں سکونت پزیر ہیں۔ کرد قبیلہ دوسرے بلوچوں کے ساتھ بلوچستان میں اس وقت داخل ہوا جب میرجلال خان نے چوالیس قبیلوں کے ساتھ اس سر زمین پر قدم رکھا۔ کردستان سے ہجرت کرکے کردوں نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں رہائش اختیار کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی کردی زبان چھوڑ کر بلوچی اور براہوئی زبانیں اپنالیں۔موجودہ کردستان کے علاقے ترکی، شام، ایران اور عراق میں تقسیم ہیں۔ کرد قوم نے بے شمار نامور شخصیات پیدا کیں۔ جن میں صلیبی جنگوں کے فاتح اور مصرکے فر مانروا، سلطان صلاح الدین ایوبی بھی شامل ہیں۔
’’درہ بولان‘‘ کولپور کے قریب دروازوئی سے سڑک کے ذریعے ڈھاڈر تک 57 میل اور ریل کے ذریعے مشکاف تک 63 میل لمبا ہے۔ یہ درہ جو برصغیر پاک و ہند کے اہم ترین دروازوں میں سے ایک ہے۔درہ بولان صدیوں سے ایران اور قندھار سے ہندوستان کو جانے والے قافلوں کی گزرگاہ رہا ہے۔ فردوسی نے بھی اپنی مشہورکتاب شاہنامہ میں اس کی اہمیت کو واضح طور پر اجاگر کیا ہے۔ جب اکتوبر میں کوئٹہ اور قلات ڈویژنوں کے پہاڑی علاقوں میں سردی شروع ہوتی ہے تو یہاں کے مالدار ( مال مویشی پالنے والے ) قافلہ در قافلہ بولان کے راستے کچھی کے میدانی علاقوں کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں جہاں سردیوں میں موسم حد درجہ خوشگوار ہوتا ہے اور مارچ کے مہینے میں گرمیوں کا موسم شروع ہوجاتا ہے تو خانہ بدوش خاندان کاروانوں کی شکل میں دوبارہ بولان آنا شروع ہوجاتے ہیں جس سے بولان ایک دفعہ پھر مویشیوں کی ٹاپوں اور گھنگھرؤں سے گونج اٹھتا ہے۔ خانہ بدوشی کی زندگی قلات کے پہاڑی سلسلہ ’’ہربوئی‘‘ تک جاتی ہے۔
مچھ شہر کی 70فیصدآبادی کا ذریعہ معاش معدنی کوئلہ کی ترسیل سے منسلک ہے لیکن سالانہ کروڑوں روپے حکومتی ٹیکس ادا کرنے والے مزدوروں کے اس شہر کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ کان مالکان ارب پتی بن گئے۔ جبکہ ان کی غفلت اور لاپروائی کے باعث ہر سال سینکڑوں مزدور جان بحق اور لاتعداد معذور ہوجاتے ہیں۔ مزدوروں کو ان کی جائز مزدوری نہیں دی جاتی کیونکہ بلوچستان کے مائنز ڈیپارٹمنٹ اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کے متعلقہ افسران کی مائن اونرز کو سرپرستی حاصل ہے۔حکومت اور مائن اونرز کی ملی بھگت سے مقامی افراد کی جدی پشتی اراضی بھی محفوظ نہیں ہے۔ مقامی افراد کی چراگاہوں کو لیز کیا جاتا ہے۔ ان کی آبادی کے اردگرد مائننگ کی جاتی ہے۔ کوئلہ مائننگ کی وجہ سے گھروں میں دراڑیں پڑجاتی ہیں جبکہ علاقے میں مختلف بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ دوسری جانب پورے علاقے میں صحت اور تعلیم کی سہولیات ناپید ہیں۔ اگرچہ صحت یا تعلیمی اداروں کی عمارتیں تو موجود ہیں مگر ان میں درکار عملہ اور ادویات موجود میسر نہیں ۔
بولان کے علاقے میں سیاحتی مقامات پیر غائب آبشار، بی بی نانی، گوکرت کا فی مشہور ہیں۔ یوں تو پورا بولان قدرتی حسن اور حسین نظاروں سے بھرا ہوا ہے لیکن ان میں کچھ مقامات نہ صرف ملک بھر میں بلکہ بین الاقومی طور پر بھی شہرت رکھتے ہیں۔ تاہم پرویز مشرف حکومت کے دوران بلوچ بزرگ سیاستدان، نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد یہ خطہ بھی مسلح جنگ کی زد میں آگیا۔ ٹرینوں پر راکٹ برسانا اور روڈ سائیڈ بم دھماکے روز کا معمول بن گئے۔
بولان کی پہاڑیوں میں ایک خاص نسل کی بھیڑ پائی جاتی ہے جس کی اون اتنی ملائم اور ریشہ اتنا لمبا ہوتا ہے کہ ماہرین کی رائے میں یہ اون اسپین کے’’ میرینو‘‘ نسل کی بھیڑوں کے اون سے بہتر ہے۔ اس نسل کو فروغ دے کربہتراون مہیا کرنا ایک نہایت منفعت بخش صنعت کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اس علاقے میں اون اور چمڑے کی فیکٹریاں لگائی جائیں تاکہ مال مویشی کے پیشے کو مزید فروغ مل سکے۔ علاقے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوسکیں اور توانائی کی کمی دور کرنے کے لئے کوئلے سے بجلی گھر بھی تعمیرکی جاسکتی ہے۔ ان دونوں منصوبوں کی تکمیل سے قبل یہاں ٹیکنیکل یا پروفیشنل ایجوکیشنل ادارے بنائے جائیں تاکہ مقامی افراد ان دونوں منصوبوں میں ہنر مند یا انجینئرز کی حیثیت سے کام کر سکیں۔ جس سے علاقے میں خوشحالی آسکتی ہے، اس کے لئے حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور مقامی افراد کے لئے مثبت پالیسی مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ علاقے میں موجود سیاسی فرسٹریشن کا خاتمہ ہوسکے جس سے جاری انسرجنسی میں کمی آنے کے کافی امکانات ممکن ہوسکتے ہیں۔