|

وقتِ اشاعت :   April 26 – 2021

بلوچستان میں جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس کے کان میں آزان ٹوٹی ہوئی چارپائی پہ دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے بیٹا بیٹا سن ہم بہت غریب ہیں۔
اور جب بچہ بلوچستان کی سر زمین پہ دو سال کی عمر میں گھومنے پھرنے لگتا ہے تو ماں پہلا سبق سوکھی روٹی کھلاتے ہوئی کہتی ہیں پڑھ بیٹا ہم بہت غریب ہیں۔چار سال کی عمر میں جب بچہ پہلی بار قرآن مجید پڑھنے پرانی مسجد جاتا ہے تو مولوی صاحب کہتا ہے بیٹا پڑھ ہم غریب دیس کے باسی ہیں_

جب بچہ بیمار ہوتا ہے مان بچے کو ہسپتال لے جاتی اور ڈسپینسر دوائی کی پرچی لکھ کے کہتا پڑھ بچہ ہم غریب قوم سے ہیں۔جب بچہ چھ سال کی عمر میں پرائمری سکول جاتا ہے تو استاد ڈنڈی مار کے اس کو کہتا کہ بیٹھ بیٹا ہم بہت غریب دنیا کے لوگ ہیں۔جب وہی بچہ بلوچستان کی سر زمیں پہ مڈل سکول میں جاتا ہے تو استاد ٹوٹی ہوئی بینچ پہ بیٹھا کے کہتا ہے پڑھ بیٹا ہم امیر صوبے کے غریب باسی ہیں۔جب بچہ ہائی سکول میں جاتا ہے تو استاد ٹوٹی ہوئی چھت کے نیچے بیٹھا کے کہتا ہے پڑھ ہم غریب اور سچے دل والے ہیں۔

جب بچہ بڑا ہو کر کالج پہنچتا ہے تو لیکچرر چار کمروں کے کالج میں بیٹھا کے آہستہ سے کہتا ہے پڑھ ہم غریب ہیں۔جب بچہ بلوچستان کی واحد یونیورسٹی میں جاتا ہے تو اس کو خوبصورت خواب دیکھا کے پھر پروفیسر آہستہ سے کہتا ہے پڑھ ہم امیر صوبے کے غریب طالب علم ہیں۔بلوچستان کا بچہ روٹی کے گرد گھومتا ہے اور کہتا ہے سن ہم بہت غریب ہیں۔

بلوچستان کا بچہ مٹی میں مل جاتا ہے اور آہستہ سے کہتا ہے سن ہم بہت غریب ہیں۔بلوچستان کا بچہ جب نوجوان بن جاتا ہے تو یہ ملک پیارا پاکستان اس سے مطالبہ کرتا ہے اے غریب صوبہ ہمیں کچھ اچھا دے دو تو ہمارا صوبہ اس ملک کو سوئی گیس دے دیتا ہے اور کہتے ہیں کہ اب لکڑیاں جلانا بند کردو اب گیس پہ کھانہ پکاﺅ۔ لیکن کچھ سال گزرنے کے بعد یہ پیارا ملک کہتا ہے کچھ اور مجھے دے دو تو ہم اس ملک کو آٹھ ہزار پہلے وجود میں آنے والی نشانی مہر گڑھ دے دیتے ہیں۔

لیکن چند سال گزرنے کے بعد پیارا پاکستان کہتا ہے کچھ اور مجھے دو تو ہم اس ملک کو ریکوڈیک اور سیندک دے دیتے ہیں اس میں سونا چاندی اور بہت سی معدنیات ہیں۔پھر چند سال مزید گزرنے کے بعد یہ پیارا پاکستان کہتا ہے تواس ملک کو کچھ دو تو ہم اس ملک پاکستان کو گوادر دے دیتے ہیں۔ جس پہ دنیا کی نظر ہے۔وہی بچہ جب مر جاتا ہے تو قبر میں اتارتے ہوئے لوگ کہتے ہیں ہم غریب ہیں ہم غریب ہیں مگر ہم پسماندہ نہیں ہیں۔ ہم پہ غربت کی مہر لگائی گئی ہم غریب نہیں ہیں غریب وہ ذہن ہیں جو ہم کو غریب سمجھتے ہیں۔ ہم بڑے صوبے کے ساتھ بڑے دل والے غریب ہیں۔