بلوچستان میڈیا میں اس وقت زیادہ زیر بحث آتا ہے جب کوئی بڑا سانحہ رونما ہوتا ہے حالانکہ بلوچستان میںکرپشن سمیت دیگر عوامی مسائل کی بھرمار ہے مگر بدقسمتی سے میڈیا میں بدامنی کی خبریں زیادہ چلتی ہیں اور اسی وجہ سے بلوچستان میں آج بھی لوگ آنے سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں چاہے کتنے بھی تسلی بخش بیانات اور خوش کن ترقی کے دعوے کئے جائیں ایک سانحہ تمام بیانات پر پانی پھیر دیتا ہے ۔یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس سے نظریں نہیںچرائی جاسکتیں۔ حال ہی میں سریناہوٹل میں ہونے والے خود کش دھماکے کے بعد ایک بار پھر بلوچستان ملکی وغیرملکی خبررساں اداروں کی زینت بن گیا اور سب اسی کو رپورٹ کررہے تھے ،حملے کی نوعیت سے ہی کوئٹہ میںموجود انویسٹی گیشن رپورٹنگ اور کرائم کی خبروں پر گرفت رکھنے والے صحافیوں نے پہلے سے ہی اس کااندازہ لگاتے ہوئے اسے خود کش حملہ قرار دیا تھا گوکہ وہ الیکٹرانک میڈیا پر آکر فوری طور پر اس کو رپورٹ نہیں کرسکتے کیونکہ جب تک سیکیورٹی اداروں کی جانب سے تمام تحقیقات کے بعداس کی تصدیق نہیںہوتی تب تک وہ اسے روک کر رکھتے ہیںالبتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ بعض رپورٹر فوری خبر دینے کے دوران اس کا ذکر کرتے ہیں کہ خود کش حملے کے امکان کو رد نہیں کیاجاسکتااور پوری کوریج کے دوران یہی سب کچھ دیکھنے کوملا۔
بہرحال بلوچستان میں بدامنی کے سانحات کی فہرست بہت لمبی ہے اور اس میں سب سے زیادہ متاثر پڑھا لکھا طبقہ ہوا ہے، اس میں ایک بڑی تعداد صحافتی برادری کی بھی ہے جو کوریج کے دوران دھماکے میں شہیدہوئے یا پھر انہیں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے شہید کیا گیا۔بالکل اسی طرح کا واقعہ روزنامہ آزادی سے وابستہ نوجوان صحافی شہید عبدالواحد رئیسانی کے ساتھ 24اپریل 2021ء بروز ہفتہ کی شب سریاب روڈ کے علاقے قمبرانی روڈ پر پیش آیاجب وہ گھرسے آفس کی طرف آرہے تھے کہ دہشت گردوں نے پیچھے سے وار کرتے ہوئے چارگولیاں اس پر فائر کیں جس میں سے ایک گولی عبدالواحد رئیسانی کو لگی اور وہ کافی دیر تک زخمی حالت میں جائے وقوعہ پرپڑے رہے، گنجان آبادی والے علاقے میں کسی نے ہمت نہیں کی کہ اسے اٹھاکر فوری اسپتال پہنچایاجائے ،ان کے ایک قریبی دوست نے عبدالواحد کو پہچانا تو اسے رکشہ میں ڈال کر سول اسپتال کی طرف روانہ ہوا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راستے میں چل بسا۔
اس خبر کو پہلے چوری کی واردات سے جوڑاجارہا تھا مگر تحقیقات جوں جوں آگے بڑھتی گئیں تو پولیس نے ابتدائی رپورٹ میں اسے ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ قرار دیا جو کہ ظاہرکرتا ہے کہ عبدالواحد رئیسانی کو ہدف بناکر شہید کیا گیا۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں، صحافتی تنظیمیں، انسانی حقوق سمیت سول سوسائٹی کی جانب سے مذمت اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیاجارہا ہے اور امید ہے کہ سیکیورٹی ادارے ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے ملزمان تک پہنچیں گے اور حقائق کو سامنے لائینگے جس کے سب منتظر ہیں۔ بہرحال عبدالواحد رئیسانی انتہائی قابل نوجوان تھے جو کم عمری میں ہی خبروں پر بہترین انداز میں گرفت رکھتے تھے
جس کا اندازہ آزادی ویب نیوز پر روزانہ کی بنیاد پر لگنے والی شہ سرخیاں ہیں جوعبدالواحدرئیسانی نیوز کی اہمیت کو پرکھتے ہوئے نکالتے تھے اور قارئین کی دلچسپی کو خبر کی طرف کھینچنے پر مجبورکرتے تھے، اس کے ساتھ ہی وہ آزادی ڈیجیٹل کیلئے رپورٹ اور ویڈیوز خود بناتے تھے یہ بھی ان کے پاس خدادادصلاحیت تھی ۔شہیدعبدالواحد رئیسانی کا زیادہ وقت خبروںکی کھوج میں گزرتا تھا اس طرح کے باصلاحیت نوجوانوں کی شہادت صرف ایک خاندان یا ادارے کا نہیں بلکہ صوبہ اور ملک کا نقصان ہے جو مستقبل میں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کے ذریعے عوام کی بہتر انداز میںخدمت کرسکتے تھے مگر افسوس شہید عبدالواحد رئیسانی کو دہشت گردوں نے انتہائی کم عمری میں ہم سے جدا کرلیا مگر ادارہ عبدالواحد رئیسانی کی شہادت اور اصل محرکات سامنے لانے کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے گی تاکہ ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچاکر ان کو کڑی سزادی جاسکے۔ بلوچستان کی بدامنی کا ذکر اس لئے پہلے کیا کہ حکمران امن وامان کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے عملی طور پر اپنا کردار ادا کریں محض تسلی بخش دعوے اور بیانات سے بلوچستان میں امن کا خواب پورا نہیںہوگا ۔