باڈرز کی بندش سے مقامی مزدوروں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں افطاری کیلئے سوکھی روٹی تک دستیاب نہیں، اب عید میں صرف دو ہفتے ہی رہ گئے ہیں ان ہزاروں مزدوروں کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں آخر وہ بھی عید کی خوشیوں کے لئے اپنے باپ سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ انہیں بھی کپڑے اور جوتے ملیں گے ۔ جب یہ بچے اوربچیاں اپنے ابا جان سے سوال کرتے ہیں کہ ابا کب بازار لے چلو گے ہمیں عید کی خدیداری کیلئے۔اف وہ لمحہ کیسا ہوگا اس خشک ہونٹوں والی والدین پر۔یقینا قیامت برپا ہوگا، وہ لاچار بدقسمت باپ کیا جواب دے گا؟
لمحہ فکریہ ہے ،ایرانی اور افغان باڈر کی بندش سے ہزاروں مقامی مزدوروں کا معاشی قتل عام ہورہا ہے زامیاد گاڑی والے ہوں یا تفتان زیرو پوائنٹ پر دیہاڑی دار طبقہ، انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں وہ بمشکل اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں ۔چاغی کو اللہ تعالیٰ نے معدنی دولت سے مالا مال کررکھا ہے لیکن اس صدی میں یہ معدنی دولت ان غریبوں کے دکھوں کا مداوا نہیں ہے، غریب کو بس دو وقت کی سوکھی روٹی چاہیے ۔باڈرز کے دونوں اطراف مقامی لوگ رہتے ہیں ان کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں وہ دونوں اطراف کے لوگوں کا ذریعہ معا ش مزدوری ہے ۔ چاغی سے متعصل سرحدی علاقے دالبندین،نوکنڈی،تفتان اور اسی طرح سے ماشکیل،پنچگور،تربت،مند تک سب مزدوروں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے اور عید کی خوشیاں دیکھنے والی بچیوں کی آنکھوں سے آنسو نکل رہی ہیں والدین سخت دہنی دبائو کا شکار ہیں۔ رمضان المبارک میں بھی افطاری سادہ پانی سے کرنے پر مجبور ہیں۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ،اگر باڈر اسی طرح بند رہا تو یقینا لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو جائینگے ۔ایک طرف کورونا کی تیسری لہر کی وجہ سے مقامی تاجر پریشانی میں مبتلا ہیں ،لاک ڈائون کی وجہ سے جو شہری آبادی ہے ان کی زندگیوں کو بھی شدید خطرات ہیں کیونکہ باڈرز کی بندش سے روزگار ختم ہورہا ہے ۔ہر طرف تباہی کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ نااہل حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی بدولت ملک میں ایک نیا معاشی بحران جنم لے رہا ہے جس کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری طور پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے لیکن ہمارے ملک میں معاملات اس محاورے کے مصداق چل رہے ہیں جب روم جل رہا تھا تو نہرو بانسی بجا رہا تھا۔آج وہی صورتحال ہمارے ہاں ہے مزدور اور متوسط طبقہ نان شبینہ کا محتاج ہے ہر طرف افراتفری کا عالم ہے ۔بدامنی، ڈکیتی وغیرہ کے واقعات اسی کی کڑی ہیں جوکہ ہمیں خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہیں لیکن حکمران طبقہ اپنی کرسی بچانے اورکرپشن کرکے لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ ملازمین طبقہ سرا پااحتجاج ہے، جب سے تبدیلی سرکار آئی ہے انہیں سالانہ الائونس سے محروم کررکھا ہے ،دوسری طرف مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ تمام اشیائے خوردونوش ان کی قوت خرید سے باہر ہوچکی ہیں۔
افغان ،ایران باڈر کی بندش، ہزاروں مزدوروں کی عید کی خوشیاں مانند پڑنے لگیں
وقتِ اشاعت : April 30 – 2021