گزشتہ روز کچلاک بائی پاس پر ٹریفک کی رش اور سنگل روڈ کی وجہ سے میرے ماموں کی کار کا ایکسڈنٹ ہوا جس میں میرے ماموں ملک محمد خان کھیتران شہید ہوگئے ، اور اس کے ساتھی ڈاکٹر حمید زخمی ہوئے۔پہلے صرف ہم سوشل میڈیا پر دیکھتے تھے کہ آج بلوچستان میں ایکسڈنٹ ہوا، اتنے بندے جاں بحق ہوگئے لیکن آج جب میں نے اپنے ماموں کی لاش اپنے ہاتھوں سے اٹھائی تو مجھے اندازہ ہواکہ کتنا مشکل وقت ہوتا ہے جب بغیر کسی گناہ کے، بنا کسی بیماری کے ایک عام انسان اپنے بچوں کی خاطر جب دور دراز علاقوں سے کوئٹہ تک کا سفر ان سنگل روڈوں پر کرتا ہے اور ٹریفک حادثے میں لقمہ اجل بنتا ہے اور اس کی لاش واپس گھر جاتی ہے تو اس کے صرف گھر والوں کی نہیں بلکہ تمام رشتے داروں کی عجیب سے کیفیت ہوتی ہے، غم سے نڈھال ہوتے ہیں۔
محمد خان کھیتران صرف ایک فرد نہیں تھا بلکہ علاقے کا لیڈر تھا، کیوں کہ اس نے اپنی پوری زندگی میں اپنا نہ کوئی ذاتی کاروبار نہیں کیا بلکہ اس نے ہمیشہ اپنے علاقے کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔اپنی زندگی لوگوں کی خدمت میں گزار دی، محمد خان کھیتران نے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھر پر کردار ادا کیا اس کے جانے سے صرف اسکے گھر والے یتیم نہیں ہوئے بلکہ وہ اپنے تمام دوستوں، رشتے داروں اور علاقے کو محروم کر گیا۔ محمد خان کھیتران سے بہت سے لوگوں کی امیدیں وابستہ تھیں۔
ظلم تو یہ ہے کہ انہی خونی شاہراؤں سے ہمارا روزگار وابستہ ہے ،ہماری پوری زندگی انہی سڑکوں پر گزر ہونی ہے تو ہم بلوچستان والے کب تک اپنے پھول جیسے جوانوں، بزرگوں اور اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے ۔ بے گناہ اور معصوم لوگ خونی سڑک کے ہاتھوں روزانہ کی بنیاد پر قتل ہوتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کے بعد اور کتنے بیگناہ لوگ یونہی بغیر کسی جرم کے مارے جاتے رہینگے، شاید اس قتل کو آخری سمجھ کر ہم بھی دل پر پتھررکھ لیتے۔۔۔ لیکن ملک محمد خان کھیتران روزانہ کی بنیاد پر مارے جاتے رہینگے۔۔ ہم نہیں جانتے ہماری آنکھوں کے سامنے اور کتنے یونہی ٹریفک حادثات کے نام پر قتل ہوتے رہینگے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ اسکی زد میں نہیں آئے گا تو یہ اس کی سب سے بڑی بھول ہے۔۔ وہ سارے پیارے جو ایک لمحہ کے لیے بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جائیں تو ہم پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے لیکن کل کو یہی خونی شاہرائیں اسے ہمیشہ کے لئے ہم سے چھین لیں تو۔۔۔۔ کیا کوئی شخص تصور کر سکتا ہے۔ ایک دو ماہ گھروں میں بیٹھ کر شاید ہم کرونا سے بچ پائیں لیکن وہ کرونا جو شاہراہوں اور خاص طور پر کوئٹہ کراچی اور کوئٹہ ٹو ڈی جی خان خونی شاہراہ کی صورت میں موجود ہے اس سے بچنا محال ہے۔۔ آج میرا ماموں محمد خان کھیتران، کل کو کوئی اوردوست، اس کے بعد میں یا میرا کوئی دوست سارے ایک ایک کرکے مارے جائینگے۔ اگر کرونا کا علاج ہوسکتا ہے تو اس خونی شاہراہ کو دورویہ بناکر قانون کے ذریعے۔۔ موٹر وے پولیس کے جدید نظام اور بھاری جرمانے عاید کرنے کی صورت میں ہم خود اور اپنے پیاروں کو بچا سکتے ہیں۔۔۔ ایسا آسانی سے تو نہیں ہوگا لیکن اگر لوگ متحد ہو کر سامنے آئیں تو ہم ہزاروں جانوں اور خاندانوں کو بچاسکتے ہیں۔ ہم اس مقصد کے لئے کچھ اور اگر نہیں کرسکتے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا یہ درد دکھ حکمرانوں تک ضرور پہنچا سکتے ہیں۔
لیکن یقین مانیے کہ ہم اتنے بے حس اور نکمے ہیں کہ ہم ایک ساتھ مل کر آواز بھی نہیں اٹھا سکتے تو لہذا یہ عہد کر لیں آج کے کے بعد جتنے بھی واقعات ہونگے ہم ان کے ذمہ دار ہونگے۔۔ ہوسکتا ہے کہ ہماری خاموشی کی صورت میں کل ہم خود اسی روڈ پر مارے جائیں اس کے ذمہ دار بھی ہم ہونگے۔۔ اگر ہمارے پیارے، رشتے دار یا کوئی علاقے کا روڈ حادثے کی وجہ سے مارا جاتا ہے تو ذمہ داری ہماری ہوگی۔۔
آج محمد خان کھیتران جیسے لوگوں کے اپنے علاقوں کی سخت ضرورت تھی، اس نے بے تحاشا خدمات کی ۔ وہ ہمیں آج ایک انسانیت کا درس دے کے گیا ہے۔ محمد خان کھیتران ایک خدائی خدمت گار تھے، بہت ہی مخلص اور وفادار انسان تھے، اور آخر میں میں اپنے تمام دوستوں سے دْعا کی درخواست کرتا ہوں۔ میرے ماموں کی مغفرت کے لیے تمام دوست دعا کریں اور اللہ تعالیٰ میرے ماموں کے روح کو صبر دے اور اس کے گھر والوں اور رشتے داروں کو صبر دے ۔آمین ثمہ آمین۔