|

وقتِ اشاعت :   May 2 – 2021

کراچی کی قدیم بلوچ آبادیوں کو مسمار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان قدیم بستیوں کو ہٹانے کے لئے سندھ پولیس کا استعمال کیا جارہا ہے۔ مقامی افراد کی زرعی اراضی کوزبردستی بلڈرمافیاز کے حوالے کیا جارہا ہے۔ چراگاہوں پرقبضہ کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب ساحلی پٹی پرماحول دشمن منصوبے کے قیام کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ ماہی گیری کے اہم مقامات پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ ضلع ملیر سے لیکر ضلع کیماڑی تک ایک گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ ایک طرف انڈیجینس لوگوں پر ڈھائے جانے والی زیادتی اور ظلم کے خلاف نام نہاد قومی میڈیا خاموش تماشائی بنا ہوا ہے تو دوسری جانب سندھ حکومت اور وفاقی ادارے بلڈرمافیاز اور ملکی وغیر ملکی کمپنیوں کی پشت پناہی میں مصروف ہیں۔

گزشتہ روز بحریہ ٹاؤن کراچی کی انتظامیہ نے سندھ حکومت کی مدد سے کاٹھور کے قدیمی علاقے نورمحمد گبول گوٹھ اور عبداللہ گبول گوٹھ پر چڑھائی کردی۔ احتجاج کرنے پر خواتین اوربچوں پر شیلنگ اورفائرنگ کی گئی، لوگوں کو ان کی جدی پشتی اراضی سے بزوربے دخل کردیا گیا۔ بلوچ متحدہ محاذ، انڈیجینیس رائٹس الائنس اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے مطابق ملیر اور گڈاپ کے مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضے کے عمل میں نجی بلڈرز کو سندھ حکومت کی آشیرباد حاصل ہے۔ ضلع ملیر میں زیرتعمیر بحریہ ٹاؤن نے ان قدیم آبادیوں کا جینا حرام کردیا۔ سندھ پولیس کی معاونت سے گاؤں کے رہائشیوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اوران کے خلاف جھوٹے اور مجرمانہ دفعات کے مقدمے دائر کیے جارہے ہیں۔

بحریہ ٹاؤن کے سربراہ و بانی ملک ریاض ہیں، انہیں ایشیاء کا بل گیٹس بھی کہا جاتا ہے۔ وہ کبھی ایک کلرک ہوا کرتے تھے لیکن اب وہ کھرب پتی بن چکے ہیں اور ان کے دولت کمانے کا سفر جاری ہے۔ انہوں نے اپنے بزنس کے ذریعے ایک ایمپائر قائم کی ہے۔ بلوچ متحدہ محاذ، انڈیجینیس رائٹس الائنس اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے رہنماؤں نے پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری پر یہ الزام لگایا کہ وہ مبینہ طور پر ملک ریاض کا بزنس پارٹنر ہے جس کی وجہ سے سندھ حکومت بحریہ ٹاؤن کی پشت پناہی کررہی ہے۔ جبکہ پیپلزپارٹی اس الزام کو مسترد کرتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ مخالفین کا پروپیگنڈہ ہے۔ تاہم بلوچ متحدہ محاذ، انڈیجینیس رائٹس الائنس اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے رہنما اپنے موقف پر قائم ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ زمینوں پر قبضہ کے لئے سندھ پولیس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ مزاحمت کرنے پر شیلنگ اور فائرنگ کی جاتی ہے۔ لوگوں کے خلاف مقدمات بنائے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی ملیر اور گڈاپ کے مقامی منتخب عوامی نمائندے بھی خاموش تماشائی ہیں کیونکہ اس دھندے میں ان کی پارٹی کا سربراہ ملوث ہے۔ واضح رہے کہ زرداری ایک بلوچی لفظ ہے۔ زرداری کا لفظی معنی زر (پیسہ یا دولت) داری (مالک یا والا) ہوتا ہے۔ زرداری ہوت قبیلے کی ایک ذیلی شاخ ہے۔ اسی طرح کلمتی، جت، تالپوراورلٹھی بھی ہوت قبیلے کے دیگرذیلی شاخیں ہیں۔

کسی زمانے میں ہوت بلوچ ریاست مکران کے حاکم تھے۔ وہ مزاحمت کار قبیلوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے پرتگیز ایمپائر کے خلاف مزاحمت کی۔ پرتگیزیوں نے بلوچستان کے ساحلی علاقے مکران پر قبضے کے لئے حملہ کیا جہاں میرحمل کلمتی حاکم تھا۔ جب پرتگیز بلوچستان کے ساحل پر حملہ آور ہوئے تو میرحمل کلمتی نے اس حملے کو پسپا کیا۔ ہوت حکمرانوں کا ہیڈکوارٹر کیچ تھا تاہم میرحمل کلمتی نے پرتگیز حملہ آوروں سے مکران کو بچانے کے لئے ہیڈ کوارٹر ساحلی بستی کلمت منتقل کردیا۔ جب ہوت کلمت آئے تو انہوں نے اپنے نام کے ساتھ علاقے کا لقب لگانا شروع کردیا۔ اس طرح وہ کلمتی کہلانے لگیں۔ ہوت بلوچ ایک کاروباری کمیونٹی بھی ہے انہوں نے کاروبار کی غرض سے وادی سندھ کا رخ کیا۔ اس طرح ہوت قبائل کے لوگ پورے سندھ میں پھیل گئے جن میں ملیر،گڈاپ، لٹھ بستی، گھارو، ٹھٹہ، بدین، نواب شاہ، حیدرآباد، میرپورخاص ، ٹنڈو محمد خان، خیرپور اور دیگرعلاقے شامل ہیں۔ آج بھی ہوت قبیلے کے تاریخی مقبرے اور قبرستان ان علاقوں میں ملیں گے جن میں چوکنڈی کا قبرستان سرفہرست ہے۔ یہ کلمتی اور جوکھیوں کا مشترکہ قبرستان ہے۔

جب انگریز سامراج نے برصغیر پر قبضہ کیا تو اس زمانے میں موجودہ صوبہ سندھ میں پانچ بلوچ ریاستیں قائم تھیں جن میں ریاست حیدرآباد، ریاست میرپور خاص، ریاست خیرپور، ریاست ٹنڈو محمد خان اور چانڈکا ریاست شامل ہیں۔ چانڈکا ریاست، موجودہ لاڑکانہ ہے جہاں چانڈیو بلوچ حکمران تھے۔ چانڈیو بلوچ رند قبیلہ کے ذیلی شاخ ہیں جبکہ حیدرآباد، میرپورخاص ، ٹنڈو محمد خان اور خیرپور ریاستوں کے حکمران تالپور بلوچ تھے جنہوں نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی تاہم شکست کے بعد ان کی ریاستیں ختم کردی گئیں۔

امریکہ میں مقیم بلوچ صحافی، احمرمستی خان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ایشیاء کا بل گیٹس بحریہ ٹاؤن کا ٹھیکیدار ہے۔ اس کا پس پردہ مالک مسٹرٹین پرسنٹ ہے۔ اس وقت مسٹرٹین پرسنٹ سے ہنڈرڈ پرسنٹ بن چکا ہے۔ سیاسی بنیادوں پر ہزاروں ایکڑ اراضی ہاؤسنگ اسکیم کو اونے پونے داموں الاٹ کی گئی جس کی مالیت 460 ارب روپے بنتی تھی جس پرعدالت عظمیٰ کے احکامات کی روشنی میں بحریہ ٹاؤن کو دی جانے والی ہزاروں ایکڑ زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی گئی تھی جس پر بحریہ ٹاؤن نے 460 ارب روپے واپس کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ جبکہ ملیر ایکسپریس وے منصوبے کو بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے فیز نائن کے لئے منظوری دی گئی ہے۔ سرکاری خزانے سے بننے والا یہ اربوں روپے کا منصوبہ نجی ہاؤسنگ اسکیموں کے لئے تیار کیا جارہا ہے۔

جبکہ دوسری جانب ضلع ملیر کے لوگ تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محروم ہیںاور حکومت نجی اسکیموں پرتوجہ دے رہی ہے اور اربوں روپے خرچ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ملیرایکسپریس وے ڈی ایچ اے کریک ایونیو سے شروع ہوکر جام صادق پل، شاہ فیصل کالونی روڈ، فیوچرکالونی سے ہوتا ہوا ایم نائن پر کاٹھور تک جائیگا۔ اس منصوبے کے بننے سے تقریباً دو درجن سے زائد قدیم گوٹھ متاثر ہونگے۔ بے شمار زرعی اراضی صفحہ ہستی سے مٹادی جائے گی۔ یہ منصوبہ ترقی کے نام پر ملیر کے قدیم باسیوں کے لئے ایک موت کاپیغام ثابت ہوگی۔

ملیراور گڈاپ کی طرح کراچی کے ساحلی پٹی پر قائم قدیم بلوچ بستیاں بھی حکومتی اداروں کے نشانے پرہیں۔ ان کی آبادی پر ماحول دشمن آئل ریفائنری جیسے منصوبے بنانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ کراچی کی قدیم بلوچ آبادی، مبارک ولیج اور کیپ ماؤنز، کراچی (راس موری) کے مقام پر ایک ملکی فاؤنڈیشن ایک غیر ملکی کمپنی کے اشتراک یا مدد سے ایک آئل ریفائنری بنانے کی منصوبہ بندی کررہی ہے جس سے راس موری اور مبارک ولیج کا ساحل ماحولیاتی لحاظ سے تباہ ہوجائیگا۔ اور وہاں پائی جانے والی آبی حیات کی زندگیاں خطرے میں پڑجائیں گی۔

اس منصوبے سے تین سوسال پرانی بلوچ ماہی گیروں کی پوری آبادی بھی متاثر ہوگی اور خوبصورت ساحل سمندر گندگی کا شکار ہوجائیگا۔ ماہی گیر رہنما سرفرازہارون نے اس منصوبے کو ماحول اور انسان دشمن قرار دیا اور کہا کہ ایسے اقدامات اٹھانے سے گریزکیا جائے۔ اور یہاں پر ماہی گیروں کے حقوق تسلیم کرتے ہوئے اس پر کسی بھی قسم کی تعمیرات پر پابندی لگائی جائے۔اور قدیمی بستی کو بنیادی سہولیات مہیا کرکے ان کے روزگار کے وسائل کی حفاظت کی جائے۔

یاد رہے کہ 2018 کو چرنا آئی لینڈ سے مبارک ولیج کے ساحل تک تیل بہنے اور سمندر کو آلودہ کرنے کے ذمہ داروں کا ابھی تک پتا نہیں لگایا گیا۔ مبارک ولیج کے سمندر میں تیل بہنے کے باعث ساحل بری طرح آلودہ ہوگیا تھا جس کی صفائی میں کئی روز لگے تھے۔مبارک ولیج کے ساحل پر تیل کے باعث شدید آلودگی سے مچھلیوں سمیت دیگر آبی حیات کو نقصان پہنچا تھا اور اسی وجہ سے ماہی گیروں کا روزگار بھی متاثر ہوا تھا۔

میرین پروٹیکٹڈ ایریا (ایم پی اے) ایک بین الاقوامی قانون ہے جس کا مقصد نایاب نسل کے آبی جانداروں کی نسل کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے جن کی نسلیں معدوم ہورہی ہیں۔ جن میں وھیل مچھلی، ڈولفن، کچھوے اور دیگر آبی حیات شامل ہیں۔ جن کی نسلیں معدوم ہورہی ہیں کیونکہ کمرشل بنیادوں پر منصوبوں کو روکنا ہے۔ وھیل مچھلی، ڈولفن، کچھوے اور دیگر آبی حیات کی بڑی تعداد کیپ ماؤنز، کراچی (راس موری) میں پائی جاتی ہے۔ یہ علاقہ ایکالوجیکلی اور حیاتیاتی تنوع کے لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے جبکہ مبارک ولیج کے پہاڑی علاقوں میں بڑی تعداد میں گیدڑ، لومڑی، خرگوش اور پرندوں میں ایگل، تیتر کبوتر اور دیگر پائے جاتے ہیں۔ آئل ریفائینری بننے سے نہ صرف ان جانوروں کی پناہ گاہیں ختم ہوجائینگی بلکہ کنارے میں موجود آبی پرندوں کی پناہ گاہیں بھی تباہ ہوجائینگی۔

پاکستان دنیا میں میرین پروٹیکٹڈ ایریا سے متعلق بین الاقوامی کنونشنوں میں کم از کم سترہ فیصد ساحلی اور سمندری علاقہ کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دینے پر دستخط کرچکاہے لیکن اب تک پاکستان نے صرف ایک فیصدکا ٹارگٹ حاصل کیا ہے۔ 2017 کو ہفت تلار المعروف استولا آئی لینڈ کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دے دیا۔اس قانون کے تحت اب یہ جزیرہ کسی بھی کمرشل مقاصد کے لئے لیز یا الاٹ نہیں ہوسکتا اور اب یہ جزیرہ نایاب نسل کی سمندری حیات اور پرندوں کے لئے مختص کیاگیاہے۔ جبکہ سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کی درخواست پر دو شاخہ دریائے سندھ کو براعظمی شیلف سے ملانے والے مقام پر واقع انڈس کنیان کو بھی کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دیاہے۔

جبکہ ڈبلیو ڈبلیو ایف اور آئی یو سی این جیسے ماحولیاتی تنظیمیں چرنا آئی لینڈ، کیپ ماؤنز (راس موری، کراچی) اور میانی ہور (لسبیلہ) اور کئی دیگر علاقوں کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا قراردینے کے لیے حکومت پر دبائو ڈال رہے ہیں۔ واضح رہے کہ راس موری کراچی کی خوبصورت ترین ساحلی پٹی ہے جہاں 1914 کو برٹش حکومت نے ایک لائٹ ہاؤس بھی تعمیر کیا تھا جو آج بھی اصلی حالت میں ہے۔ یہ ساحلی پٹی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہے۔ اس تناظر میں ماحولیاتی تنظیمیں اور مقامی افراد میں تشویش پائی جاتی ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ راس موری اور مبارک ولیج کے مقام پر آئل ریفائنری کے منصوبے کو ترک کیا جائے تاکہ آبی حیات کی سلامتی سمیت انسانی آبادی کو بھی نقصانات سے بچایاجاسکے۔