|

وقتِ اشاعت :   May 2 – 2021

کراچی میں این اے 249کے ضمنی انتخاب کا معرکہ پیپلزپارٹی نے مار لیا البتہ 2018ء کے عام انتخابات میں اسی امیدوار کے ساتھ پیپلزپارٹی بہت بڑے مارجن سے ہاری تھی مگر اس بار انہوں نے زیادہ ووٹ لیا جو یقینا ایک حیران کن بات ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن اس بار بھی مقابلہ میں اول پوزیشن پر تھی، اب ایسے میںالیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ جنرل الیکشن کی نسبت اس بار ٹرن آؤٹ کم رہا جبکہ ووٹوںکی تعداد بھی کم تھی اور کراچی جیسے بڑے شہر میں ووٹوںکی گنتی کا عمل اتنی سست روی کا شکار کیوں رہا، پہلے تیزی سے نتائج سامنے آرہے تھے۔

یکدم سے اس میں بریک لگ گیا اور تاخیر کے بعد نتائج سامنے آئے جس کے بعد ہارنے والی تمام جماعتوں نے اسے دھاندلی قرار دیا۔ الیکشن کمیشن ایک بہت بڑا ادارہ ہے اور اس کے پاس وسائل کے ساتھ افرادی قوت بھی ہے جبکہ ووٹ بھی اتنے نہیں تھے کہ جن کی گنتی میں اتنی دیر لگے لہٰذاس طرح کے عمل سے الیکشن کامشکوک ہونا اچھنبے کی بات نہیں ۔ اس لئے الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس حوالے سے ماضی کے الزامات اور دھاندلی کے شکوک وشہبات کے تجربات کومد نظر رکھتے ہوئے اس میں بہتری لائے تاکہ انتخابات مشکوک نہ ہوں کیونکہ جو جماعت جس صوبے میں برسرِ اقتدارہوتی ہے۔

اگر ضمنی انتخاب میں اس کی جیت ہوتی ہے تو اسے ملی بھگت اور مختلف الزامات کے ذریعے الیکشن کو ہدف بنایاجاتا ہے جو کہ الیکشن کمیشن جیسے ادارہ کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے۔ گوکہ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں ن لیگ کی جیت ہوئی اور وہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے مگر اقتدار میں رہنے والی جماعت کے جیتنے پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ اسے ایک تجربہ کی بنیاد پر لیتے ہوئے آئندہ ہونے والے انتخابات کے دوران تاخیرکی بجائے جلد نتائج سامنے لائے جائیں، جو علاقے دور دراز پڑتے ہیں وہاں سے تاخیر کی تو سمجھ میں آتی ہے مگر کراچی جیسے شہر میں اور ایک حلقے کے انتخاب میں اتنی تاخیر سمجھ سے بالاتر ہے۔

بہرحال ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی جنگ چھڑی جو پہلے سے جاری ہے مگر کراچی این اے 249کے انتخاب میں دو بڑی اپوزیشن جماعتیں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان مدبھیڑ ہونے جارہی ہے۔ گزشتہ روز مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کے تلخ بیانات اس کی مثال ہیں۔پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کاکہناہے کہ مسلم لیگ ن تب ہار تسلیم کرے گی جب اس کو ہرایا جائے، شیر کا شکار کرنا آسان نہیں، ہرانے کیلئے جو ہتھکنڈے آپ نے آزمائے، ان کی داستان سامنے آنے والی ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں مریم نواز نے کہا کہ انتظار فرمائیے اور یاد رکھیے! نون لیگ اپنا اور این اے 249 کے عوام کا حق واپس لے کر رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن میں شکست اگر عوام کے فیصلے کی وجہ سے ہوگی تو سرِ تسلیم خم ہوگا۔ مگر باکس چوری اور دھاندلی سے ہونے والا ہر فیصلے کے آخر تک مقابلہ کیا جائے گا۔دوسری جانب چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے پاکستان مسلم لیگ نواز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کے دوستوں کو ہار ماننا سیکھنا ہو گا۔ این اے 249 کراچی میں ڈسکہ کا شور سن رہا ہوں، بتائیں کہاں فائرنگ ہوئی، ن لیگ دھاندلی کا الزام نہ لگائے، ثبوت دے،الزام سے ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ پیپلز پارٹی نے دھاندلی کی ہے۔ کون سی جماعت اوریجنل سلیکٹڈ ہے، سب کو پتا ہے، وہ ہمیں اب لیکچردے گی۔

دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی بیان بازی کے بعد مولانا فضل الرحمان کی جانب سے دوبارہ پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم میںلانے کی کوششیںاب بے سود ہوں گی اور پی ڈی ایم پر اس کا براہ راست اثر پڑے گا اب اپوزیشن بمقابلہ اپوزیشن ہو گااور پی ڈی ایم جو بڑی تیزی کے ساتھ بڑی اپوزیشن اتحادکے طور پر ابھر کر سامنے آئی تھی اب اس کے شیرازے بکھر چکے ہیں۔ مولانافضل الرحمان کی آخری امید بھی اب شاید اس ضمنی انتخاب کے بعد ختم ہوجائے گی۔