|

وقتِ اشاعت :   May 4 – 2021

اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے تحت آئے روز فلسطین کے علاقوں پرچڑھائی کی جاتی ہے تو وہاں کے محکوم اور مظلوم عوام احتجاج کرنے پہنچ جاتے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں ہم یہی چیزیں پاکستان جیسے آزاد ملک کراچی کے تہذیب یافتہ شہرمیں دیکھ رہے ہیں۔ گڈاپ کاٹھوڑ کے علاقے میں بحریہ ٹاؤن کے اہلکارپولیس کے ہمراہ داخل ہوتے ہیں اور نورمحمد گبول گوٹھ،عبداللہ گبول گوٹھ سمیت چھ دیہات پر بلڈوزر چڑھادیتے ہیں ۔ مقامی لوگ حسب روایت احتجاج کرتے ہیںجس طرح صیہونی جارحیت کے سامنے نہتے فلسطینی مزاحمت کار صدابلند کررہے ہوتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ملک ریاض اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے پراپرٹی ٹائیکون ہیں۔ ملک ریاض نے سب سے پہلے اسلام آبادمیں بحریہ ٹاؤن لاؤنچ کیا ،،اس کے بعد لاہور کارخ کیا اور 2014 میں ملیر اور کلفٹن میں پڑاؤڈالا۔سپریم کورٹ نے اپنے ایک حکم میں صرف 16000 ایکڑاراضی بحریہ کے حوالے کی جو سندھ حکومت کی ملکیت تھی البتہ یہ اب چالیس ہزار ایکڑ تک پہنچ گئی لیکن ’’بھوک ختم نہیں ہوئی‘‘اب مزیدقبضہ کیاجارہاہے۔ یہاں تک کے بحریہ ٹاؤن کاپچھلاحصہ جامشورو تک جاکرملتاہے۔ ایک دوست کے مطابق کراچی بحریہ ٹاؤن لاہور،نیویارک سٹی اور ٹورنٹوسمیت دنیاکے کئی شہروں سے بڑا ہے۔
پوری دنیامیں کہیں بھی اس طرح کی بڑی ہاؤسنگ پروجیکٹ لانچ کرنے کے لیے پہلے ایریادیکھاجاتاہے اس کے بعد قانونی معاملات پر بحث کی جاتی ہے پھر ای آئی اے یعنی انوارمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ جس کے تحت ماحولیاتی آلودگی اور دیگر ایسی چیزوں پرغور کیا جاتاہے جس سے کہیں ماحول اور معاشرے کو نقصان کااندیشہ نہ ہو لیکن بدقسمتی سے بحریہ ٹاؤن کے معاملے میں کہیں بھی ایسی معلومات ہمارے علم میں نہیں۔۔۔
گڈاپ اور ملیرکے علاقوں میں برساتی پانی کانظام رہاہے ،، جسے ملیامیٹ کردیاگیاہے،، ندی نالے بندکردیئے گئے ہیں،، پہاڑوں کوکاٹ کرچٹیل میدان میں تبدیل کردیاگیاہے۔۔ علاقے میں سبزہ کاٹ کرکنکریٹ کاجنگل بنایاجارہاہے۔۔اور ڈیموگرافک کاعذاب الگ ایک اژدھے کی طرح پھنکاریںماررہاہے جس کا نتیجہ یقیناً تباہی اور بربادی ہوگی۔ ویسے بھی گزشتہ چندسالوں سے کراچی کادرجہ حرارت ناقابل حد تک بڑھتاجارہاہے شہرمیں ہریالی برائے نام بھی نہیں رہ گئی ہے۔اس وقت کراچی کے لیے تقریباً بارہ ملین گیلن پانی فراہم کیاجارہاہے جس کا بیشتر حصہ یقیناًبحریہ کے حصے میں جائیگا۔کراچی میں بجلی اور گیس کی طلب اور رسد کانظام ویسے ہی آخری سانسیں لے رہاہے۔
اس پورے معاملے میں افسوسناک بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت شراکت دار ہے پولیس اسی کے ایماپرلگائی جارہی ہے اور مقامی لوگوں کو اسی پولیس کے ذریعے ہانکاجارہاہے لیکن پیپلزپارٹی کی مقامی لیڈر شپ کی جانب سے خاص ردعمل سامنے نہیں آرہا۔ شاید وہ اپنے بچوں کو مستقبل میں ہریالی اور باغبانی کے بجائے کنکریٹ کاجنگل تحفے میں دیناچاہتے ہوں۔
کراچی انڈیجینیس رائٹس کے تحت قبضہ کے خلاف احتجاجی تحریک بھی چلائی جارہی ہے۔ اس سلسلے میںمامافیض محمد کے بیٹے مرادبخش گبول کی سربراہی میں گڈاپ کے لوگوں نے عدالت کادروازہ بھی کھٹکھٹایاتوہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک بزنس ٹائیکون ہے۔ ملک ریاض جس ذہانت اور مہارت سے کلرک سے ٹائیکون بنے وہ واقعی قابل دید ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ان کے موجودہ ،سابق اور مستقبل کے متوقع حکمرانوں سے قریبی تعلقات ہیں۔چوہدری نثارجیسی انتہائی طاقت ورشخصیت اور دبنگ وزیرداخلہ ہونے کے باوجود ملک ریاض کاکچھ نہیں بگاڑ سکے ۔۔ ۔۔ملک ریاض اور موجودہ حکومت کی دوستی کے حوالے سے ڈان کی ایک خبرکے مطابق۔
’’2019 کے اواخر میں اسلام آباد میں جاری کابینہ اجلاس میں وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کو ‘ایجنڈا سے ہٹ کر’ ایک معاملہ پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔ ان کے پاس ایک بند لفافہ تھا، انہوں نے بتایا کہ اس لفافے میں ایک غیر اعلانیہ معاہدہ موجود ہے۔ (ڈان 21 اپریل 2021)”
اگرریاست ، اس کے ادارے اور اس کے چلانے والے ہی قبضہ گیروں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنے کے بجائے چندٹکوں کے لیے ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں تو سمجھو کہ زوال آچکاہے۔ اس سلسلے میں نہ صرف ملیرکے سیاسی رہنماؤں بلکہ کراچی کے عوام سے ووٹ مانگنے والی تمام ہی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اہم اور نازک مسئلے پر سامنے آئیں کیوں کہ یہ مسئلہ ملیر اور گڈاپ کانہیں بلکہ اس شہر کے مستقبل کاہے۔۔ معروف شاعر اور نغمہ نگار جاویداخترکے چنداشعار موجودہ صورتحال پرصادق آتے ہیں۔
جینا مشکل ہے کہ آسان ذرا دیکھ تو لو
لوگ لگتے ہیں پریشان ذرا دیکھ تو لو
یہ نیا شہر تو ہے خوب بسایا تم نے
کیوں پرانا ہوا ویران ذرا دیکھ تو لو
ان چراغوں کے تلے ایسے اندھیرے کیوں ہے
تم بھی رہ جاؤ گے حیران ذرا دیکھ تو لو