|

وقتِ اشاعت :   May 4 – 2021

ظریف بلوچ
پسنی سے کلانچ جاتے ہوئے کچی اور دشوار گزار سڑکوں پر چلتے ہوئے اتنا احساس ضرور ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کا خیال سیاسی پارٹیوں کو ہر پانچ سال بعد اس وقت یاد آتی ہے جب وہ انتخابی مہم کے لئے انکے پاس ووٹ مانگنے جاتے ہیں، ایسا بھی پہلی بار 2018 کے الیکشن میں ہوا تھا جب الیکشن لڑنے والے امیدوار خود ووٹ مانگنے کلانچ کے دور افتادہ گاؤں میں گئے تھے،کیونکہ اس سے پہلے کوئی انتخابی امیدوار کلانچ ووٹ مانگنے نہیں جاتا تھا۔کلانچ میں دو درجن سے زیادہ گاؤں اور دیہات آباد ہیں، کلانچ کے مختلف دیہاتوں کی آدھی آبادی تو پہلے ہی سے کلانچ کو الوادع کہہ کر پسنی اور گوادر میں مستقل طور پر منتقل ہوچکی ہے۔ اس وقت کلانچ میں جو لوگ رہائش پذیر ہیں، وہ یا تو غربت کے آگے بے بس ہوکر کسی قریبی شہر منتقل نہیں ہوسکتے اور کچھ کو کلانچ کے سرزمین کی مٹی وہاں رہنے پر مجبور کررہی ہے۔کیونکہ وہ اب بھی پرامید ہیں کہ کلانچ میں لہلاتی فصلوں پر ایک بار پھر بلبل سریلے گیت گائیں گے، اور فاختائوں کی کوکو کی آواز پھر گونجے گی۔
پکی روڈ اور تعلیم اپنی جگہ ،اب یہاں کے باسی دو گھونٹ پانی کے لئے ترس رہے ہیں۔ کلانچ کے لوگ پینے کے صاف پانی کے لئے بارشوں پر انحصار کرتے ہیں اور وقت پر بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے وہاں اب کربلا کا منظر ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق جو قدرتی چشمے موجود ہیں وہ اب خشک ہورہے ہیں۔
ضلع گوادر کے دیگر علاقوں کی طرح کلانچ میں بھی زیرزمین پانی کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں، اس لئے وہاں کے لوگ کاشت کاری اور پینے کے پانی کے لئے صرف بارشوں پر انحصار کرتے ہیں۔ کلانچ کے لہلاتی فصلوں کی جگہ اب زمین بنجر اور سبز درخت بھی پت جھڑ کے موسم کا نظارہ پیش کررہے ہیں۔ پرندوں کی چہچاہٹ کی جگہ اب انسانی آوازیں پانی پانی کہتے ہوئے سنی جاسکتی ہیں۔
شادی کور ڈیم سے سی پیک کے شہر گوادر کو جاتے ہوئے مین پائپ لائن کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کلانچ کے باسی اب صرف دعا کے لئے ہاتھ اوپر اٹھا سکتے ہیں۔ ’’سوڈ ڈیم‘‘ اور ’’ بیلار ڈیم‘‘ میں وافر مقدار میں پانی موجود ہونے کے باوجود بھی کلانچ کے مختلف دیہاتوں تک پائپ لائن نہ ہونے کی وجہ سے یہ دونوں ڈیم کلانچ کے باسیوں کے دکھوں کا مداواہ نہیں کرسکتے ۔ سنا ہے سی پیک کے شہر گوادر میں مستقبل میں پانی بحران سے نمٹنے کے لئے شزانی ڈیم بھی کلانچ میں بنایا جارہا ہے۔ اس وقت کلانچ میں فی ٹینکر پانی بارہ ہزار سے سولہ ہزار تک دستیاب ہے جو کہ غریب خریدنے کی سکت نہیں رکھتے کیونکہ خشک سالی کی وجہ سے پہلے ہی ان کا روزگار متاثر ہے۔کلانچ کی آبادی چونکہ وسیع رقبے تک پھیلا ہوا ہے اور ہر دیہات و گاؤں صرف چند گھرانے پر مشتمل ہے اور ان کا فاصلہ بھی کئی کلومیٹر تک ہے۔ آبی ماہرین کے مطابق یہ علاقہ بنجر ہونے کی وجہ سے زیرزمین پانی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ پورے کلانچ میں واٹر سپلائی اسکیم بچھانے کے لئے اربوں روپے کے فنڈز درکار ہیں۔ ماضی قریب میں کلانچ میں بحران آب سے نمٹنے کے لئے صوبائی حکومت نے ٹینکروں کے ذریعے پانی سپلائی کی تھی۔ کلانچ میں مستقل طور پر بحران آب سے نمٹنے کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ علاقہ مکینوں کے مطابق اس وقت جو چشمے رہ گئے ہیں، موسم گرما میں وہ کلانچ میں پانی کی ضروریات کو پوری نہیں کرسکتیں کیونکہ صفائی نہ ہونے اور وقت پر بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے ان چشموں میں پانی کی مقدار کم ہوچکی ہے۔
کلانچ کے زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش کاشت کاری اور غلہ بانی پر ہے۔بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف انکا روزگار متاثر ہورہا ہے بلکہ وہ دو گھونٹ پانی کے لئے بھی ترس رہے ہیں۔