|

وقتِ اشاعت :   May 7 – 2021

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ، ‘ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو انکریمینٹل (کم لاگت والی) ہاؤسنگ اسکیم کے لیے زمین کی فراہمی دراصل ملک ریاض کے اس یجنڈا کو پورا کرنے کی ایک چال تھی جس کا مقصد ریاست اور عوام کو نقصان پہنچا کر اپنی دولت کو بڑھانا تھا’۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں مفصل انداز میں بیان کیا جاچکا ہے کہ کس طرح مقامی آبادیوں کو اپنی زمین ‘بیچنے’ پر بزور بازو مجبور کیا جاتا رہا ہے۔ ایک طرف پولیس گوٹھوں پر ریڈ کرتی ہے اور مقامیوں پر دہشتگردی کے جھوٹے الزامات لگا کر پرچہ کاٹ دیتی ہے، تو دوسری طرف وہ یہ کہتے ہوئے پائی جاتی ہے کہ بحریہ ٹاؤن کا عملہ انہیں مسلسل ڈراتا دھمکاتا رہتا ہے۔
ڈان نے ملک ریاض سے ان سوالوں کے جواب مانگنے کے لیے بارہا کوششیں کیں لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔
ویسٹمنسٹر مجسٹریٹ کورٹس نے تصفیے کی انجام دہی کے لیے ایسیکس میں واقع ہیسلرز اکاؤنٹنٹس کو بطور وصول کنندہ مقرر کیا۔ 5 دسمبر 2019ء کو شہزاد اکبر نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ بیرونِ ملک سے پاکستان سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ، جو شاید بحریہ ٹاؤن کے واجبات کی وصولی کے لیے عدالت نے کھولا ہو، میں 14 کروڑ پاؤنڈ کی رقم آچکی ہے اور بقیہ 5 کروڑ پاؤنڈ کی رقم 1 ہائیڈ پارک پلیس کی فروخت پر منتقل ہوجائے گی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں رقم کی منتقلی کس طرح ہوئی تو انہوں نے جواب یہ کہتے ہوئے ٹال دیا کہ حکومت، این سی اے اور ملک ریاض نے ‘رازداری کے قانونی دستاویز’ پر دستخط کیے ہیں جس کی وجہ سے وہ اس معاملے پر زیادہ بات کرنے سے قاصر ہیں۔
‘یہاں تو شیخ حکمرانوں کی عمل داری ہو جیسے’
‘قومی سلامتی’ کے نام پر حقائق کو چھپانے کی یہ کوشش دراصل پاکستانی عوام کو حاصل اس حق سے متعلق بڑا مذاق ہے جس میں وہ عوامی مفاد کے معاملے سے جڑی معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔
حیدر وحید پارٹنزز سے بطور پارٹنر وابستہ عبدالمعیز جعفری کے مطابق، ‘عام لفظوں میں کہیں تو یہ شیخ حکمراں کی عمل داری کے عوامل ہیں۔ ایک غیر منتخب شخص (شہزاد اکبر) ایسا اختیار رکھتا ہے جس سے عوام انجان ہے اور اس اختیار کے تحت عوام کی نظروں سے اوجھل معاملے پر سمجھوتہ کرواتے ہیں اور شرائط کو بھی صیغہ راز میں رکھنے کے پابند بنتے ہیں۔ رازداری کا لبادہ ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، پاکستانی ریاست یہاں صرف اس واحد رازداری کی پابند ہوسکتی ہے جس پر وہ خود اپنی مرضی سے ملزم شخص سے راضی ہوئی ہو نہ کہ ایسی رازداری کی پاپند ہوسکتی ہے جو این سی اے نے اس پر مسلط کی ہوئی ہو’۔
لندن میں واقع کورکر بِننگ لا فرم سے بطور سینئر پارٹنز وابستہ ڈیوڈ کورکر کے مطابق اس طرح کے خفیہ سمجھوتے اس مالیاتی جرم کی حکمتِ عملی ( strategy crime financial) کا نتیجہ ہیں جس میں مجرموں کے خلاف مقدمہ بازی سے زیادہ رقوم کی ری کوری پر توجہ دی جاتی ہے۔ ‘سفید پوش اور مالیاتی جرم سے وابستہ نفاذِ قانون کا عمل ادارہ جیوری ٹرائل کی کارروائیوں، حاضری میں تاخیروں اور اخراجات کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے اور کتنی رقم انہوں نے ضبط کی اور کتنے مبینہ پلاٹ انہوں نے متاثر کیے، اس کی بنیاد پر اپنے مؤثر کام کی حیثیت میں تبدیلی کا خواہاں ہے۔ اس عمل کا یہ ایک فطری نتیجہ ہے: این سی اے اچھا نتیجہ تو حاصل کرتا ہے لیکن وہ یہاں تک پہنچنے کے لیے رعایتیں دینے پر بھی راضی ہوجاتا ہے۔’
وہاں لندن میں 1 ہائیڈ پارک پلیس کو نائیٹ فرینک نامی ریئلٹرز یا جائیداد کی خرید و فروخت کے ادارے کے ذریعے فروخت کے لیے پیش کیا گیا: ان کے بروشر میں اسے ‘لندن میں کھڑی آخری جارجیئن عمارات میں سے ایک عمارت’ کے طور پر بیان کیا گیا۔ تاہم اس کا کوئی خریدار نہیں مل سکا جس کی وجہ بظاہر 4 کروڑ 50 لاکھ پاؤنڈ کی بھاری قیمت ہے۔لندن میں مقیم ایک ذریعے کے مطابق جائیداد کے نگران ریئلٹرز میں سے ایک نے بتایا کہ اس کی قیمت ‘3 کروڑ پاؤنڈ یا اس کے درمیان کی کوئی رقم’ بنتی ہے۔ یہ جائیداد اس وقت بیوچیمپ اسٹیٹس کے حوالے ہے جس نے اس کی خرید و فروخت کے حوالے سے سنجیدہ سوالات کھڑے کیے ہیں۔ اس کے مطابق کہیں کسی مقصد کے تحت تو اتنی بھاری قیمت پر یہ جائیداد فروخت نہیں کی گئی تھی؟ڈان نے حسن نواز سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔تاہم فی الحال 1 ہائیڈ پارک پلیس فروخت کے لیے دستیاب نہیں ہے۔ اس عمل سے جڑے ایک ذریعے کے مطابق ‘اس وقت اس جائیداد کی فروخت کو روک دیا گیا ہے لیکن یہ جلد ہی فروخت کے لیے دستیاب ہونی چاہیے، دراصل فروخت کے عمل سے قبل اس میں تھوڑا بہت کام ہونا باقی ہے’۔
این سی اے نے جائیداد کی موجودہ حیثیت کے حوالے سے متضاد پیغامات دیے ہیں اور معاملہ پْراسراریت میں لپٹا ہوا ہے۔ ادارے کے ایک سینئر افسر نے دسمبر 2019ء میں ڈان کو بتایا تھا کہ ‘این سی اے نے جائیداد کا قبضہ حاصل کرلیا ہے اور اس کی فروخت سے ملنے والے پیسے پاکستان بھیج دیے جائیں گے‘، تاہم اگلی ای میل میں یہ ادارہ اپنے الفاظ سے پیچھے ہٹ گیا۔
دوسری جانب ملک ریاض کے خاندان کے کئی افراد 1 ہائیڈ پارک پلیس سے چند قدم کی دوری پر واقع ڈیلکس لینکیسٹر گیٹ میں رہائش پذیر ہیں۔ برٹش ورجن آئی لینڈز میں واقع فورچون ایونٹس لمیٹڈ نامی ایک آف شور کمپنی نے یہاں 2011ء اور 2018ء کے درمیان تقریباً ساڑھے 3 کروڑ پاؤنڈ کی مالیت کے کْل 9 اپارٹمنٹ خریدے تھے۔
یہ اشارے ملتے ہیں کہ ملک ریاض کا خاندان ان 9 اپارٹمنٹس کا حقیقی مالک ہے۔ ملکیت کی دستاویزات میں سے ایک پر علی ریاض کی ای میل کو رابطے کے پتے کے طور پر لکھا گیا ہے، دوسری دستاویز میں دبئی پی او باکس ایڈریس درج ہے جس کا تعلق علی ریاض کی پی 69 ایمیریٹس ہلز میں واقع جائیداد سے ہے۔ کئی جگہوں پر مسکون ڈی ریال نامی لا فرم کا پتا بھی رابطے کے پتے کے طور پر لکھا ملتا ہے۔22 نومبر 2019ء کو ویسٹمنسٹر مجسٹریٹ کورٹ نے 21 اگست 2019ء کو جاری ہونے والے ان 8 اے ایف اوز اور دسمبر 2018ء کو جاری ہونے والے اس ایک اے ایف او کو ایک طرف رکھ دیا تاکہ اکاؤنٹس میں موجود پیسہ پاکستان واپس بھیجا جاسکے۔2 اکاؤنٹس فورچون ایونٹس کے تھے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک ریاض کا خاندان ہی لینکیسٹر گیٹ کی ملکیت کا حقیقی مالک ہے۔ تصفیے سے بظاہر ملک ریاض کے اس 3 کروڑ 60 لاکھ پاؤنڈ کی مالیت کے لگژری سرمایے کو دْور رکھا گیا ہے جو ایک ایسی کمپنی کی ملکیت ہے جسے 2 اے ایف اوز موصول ہوچکے ہیں۔
اے ایف اوز کو ایک طرف رکھنے سے متعلق عدالتی حکم نامہ
برطانیہ میں انسدادِ بدعنوانی کے نگران ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اس تصفیے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سے بطور ایڈووکیسی ہیڈ وابستہ ریچل ڈیویز ٹیکا نے بذریعہ ای میل بتایا کہ، ‘چوری شدہ دولت کو واپس لوٹانا کسی بھی کرپشن کیس کا سب سے پیچیدہ اور مشکل حصہ ہوتا ہے، لیکن یہ سب سے اہم مرحلہ بھی ہوتا ہے۔ اگر غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی دولت کو بند دروازوں کے پیچھے سول سوسائٹی کی نگرانی کے بغیر لوٹایا جائے تو یہ پتا لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ آیا انصاف ہوا ہے یا نہیں؟’
حال ہی میں این سی اے نے اپنی سول مالیاتی تحقیقات کو انجام دینے اور عوام کے سامنے پیش کرنے کے طریقوں میں اہم تبدیلیاں کی ہیں۔
برطانیہ میں انسدادِ بدعنوانی پر کام کرنے والے اسپاٹ لائٹ آن کرپشن نامی ادارے کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر سوزان ہالے ان اقدامات کو مثبت تصور کرتی ہیں۔ انہوں نے بذریعہ ای میل ڈان کو بتایا کہ ‘ملک ریاض کے تصفیے اور اس کی وجہ سے پاکستان میں پیدا ہونے والے تنازع کے بعد این اسی اے نے واضح طور پر اپنے کام کے طریقوں پر سوچ بچار کیا ہے۔ ان کی جانب سے شفافیت اور کسی بھی تصفیے سے عوامی اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچانے کی یقین دہانی کروانا ایک خوش آئند امر ہے۔ ان کی جانب سے صحافیوں اور این جی اوز کو کھلی عدالت میں چلنے والی ان کی آئندہ سماعتوں سے متعلق تفصیلات کی فراہمی کے عزم کا اظہار کیا ہے جو ایک بڑی پیش رفت ہے۔ ہم نہیں چاہیں گے کہ برطانیہ میں ضبط ہونے والا پیسہ جب کسی ملک کو لوٹایا جائے تو یہ گمان پیدا ہو کہ وہ دوبارہ مجرموں کی جیبوں تک پہنچ گیا ہے یا پھر مجرم سزا سے بچ گیا ہے’۔
تاہم این سی اے کی نئی سوچ کا بحریہ ٹاؤن کراچی کے تیز پھیلاؤ سے متاثر ہونے والی مقامی کسانوں کی آبادیوں کی زندگیوں پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ ان کے سر پر اپنی آبائی زمینوں سے نقل مکانی کا منڈلاتا خطرہ ہر دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔چند ماہ قبل دیہات کے چند باسیوں نے صحافیوں کو دعوت دی کہ وہ سپریم کورٹ کے 21 مارچ 2019ء کے اس متنازع حکم نامے سے متاثر علاقے کا دورہ کریں، جس کے تحت بحریہ ٹاؤن کو کراچی کے منصوبے کے لیے 16 ہزار 896 ایکڑوں پر تعمیراتی کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ صحافی خود آکر دیکھیں کہ کس طرح انہیں ان کی ہی زمینیں خالی کروانے کے لیے تنگ کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک تشویشناک واقعہ پیش آیا۔ چند مقامی افراد جب گڈاپ سے اپنے گھر کو لوٹ رہے تھے تو گاؤں تک پہنچنے کے اپنے روایتی راستے کو ناقابلِ رساں پایا کیونکہ بحریہ ٹاؤن کے گارڈز نے بحریہ ٹائون کراچی کی حدود پر کھڑے دروازے پر تالا چڑھا کر ان کا داخلہ روک دیا تھا۔ گھوم کر جانے میں 45 منٹ کا وقت لگ جاتا۔ جب وہاں زیادہ گاؤں والے جمع ہوگئے تو ٹکراؤ شروع ہوگیا۔ بحریہ ٹاؤن کے چند عہدیداران واقعے کی جگہ پر پہنچے۔ وہاں موجود کم از کم ایک شخص پستول سے لیس تھا جس نے گاؤں والوں کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ شروع کردی۔ ایک دیہاتی نے کڑوے لہجے میں کہا کہ، ‘ہمیں فلسطین کی طرح گھیرا ہوا ہے’۔
حاجی علی محمد گبول نامی گوٹھ کے اسکول ہیڈ ماسٹر رستم گبول نے بتایا کہ کس طرح بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اسکول میں موجود کھیل کے میدان کے بیچ میں سڑک تعمیر کی جارہی ہے اور میدان کی زمین سکڑتی جا رہی ہے۔ شکستہ حال اس گاؤں کے چھوٹے اسکول کے پیچھے بحریہ ٹاؤن کراچی کے گالف سٹی میں فائیو اسٹار ہوٹل کی عمارت زیرِ تعمیر ہے۔ یاد رہے کہ یہ گالف سٹی پاکستان کا پہلا 36 ہول پی جی اے اسٹینڈرڈ گالف کورس کی آسائش کا اعزاز رکھتا ہے۔چند دن قبل اسی دیہات میں بحریہ ٹاؤن نے ایک غیر ضروری مصنوعی ‘پیدل چلنے کا راستہ’ بنانے کی خاطر برساتی پانی کے قدرتی آبی ذخیرے کو ٹنوں مٹی سے بھر کر اسے 2 حصوں میں تقسیم کردیا۔ اس عمل سے کیرتھر کے پہاڑی سلسلے سے آنے والے برساتی پانی کا راستہ رْکے گا اور آبی ذخیرے میں پانی جمع نہیں ہوپائے گا۔ یاد رہے کہ یہ آبی ذخیرہ گاؤں والوں اور ان کے کم ہوتے مویشیوں کے لیے حصولِ آب کا قریب ترین ذریعہ ہے۔ اس زمین پر بسنے والوں کے لیے پیغام واضح ہے: زمین چھوڑو یا مرجاؤ۔(اضافی معلومات: عاتکہ رحمٰن)
(بشکریہ ڈان ) ختم شد