|

وقتِ اشاعت :   May 9 – 2021

سنکیانگ، جوکہ چین کا شمال مغربی حصہ ہے، ایک ایسے خطے کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے جو معاشی ترقی کو انتہائی اہمیت دے رہا ہے اور جس نے گزشتہ کئی برسوں سے اس سرزمین کے باسیوں کو اطمینان اور مسرت کا احساس دلانے میں مدد فراہم کی ہے۔یہ خطہ ترقی کے اس راستے پر گامزن رہتے ہوئے جس کا اعلان گزشتہ پانچ سالہ منصوبوں میں کیا گیا تھا، چین کے مغربی حصے میں ایک مستحکم معاشی مرکز ابھرکر سامنے آیا ہے جو اپنی سرحدوں کو مختلف ملکوں سے منسلک کررہا ہے۔اس خطے کے معاشی استحکام نے مقامی باشندوں کو مختلف شعبوں میں ترقی اور نشونما کے عمل کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے ہیں۔

چین کی کمیونسٹ پارٹی کی اختیار کردہ پالیسیاں اور اس کے ذریعے ان پر عمل درآمد کے اقدامات نے لوگوں کے تشفی، خوشیوں اور تحفظ کے احساس کو بڑھاوا دینے میں معاون کردار ادا کیا ہے۔یہ ایک تاریخی کارنامہ ہے کہ اس خطے نے مکمل غربت کا خاتمہ کردیا ہے جس کے تحت گزشتہ پانچ برسوں میں تقریبا ً30 لاکھ دیہی باشندوں نے غربت کو خیر آباد کہہ دیا ہے۔سنکیانگ میں غربت کے خاتمے کی اس کامیابی کا سہرا چین کی مرکزی زرعی بنیادوں بشمول مرکزی کپاس کی صنعت میں ہونے والی ترقی کوجاتا ہے۔اس بات کی بھی نشاندہی ہوئی ہے کہ ثانوی شعبہ بشمول مینوفیکچرنگ اور تعمیرات نے اس ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ مستقل اثاثوں کی سرمایہ کاری میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 16.2 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ان سب سے قطع نظر اس خطے میں نئی معاشی ترغیبات کی بدولت مضبوط ترقی ریکارڈ کی گئی، جس میں آن لائن خوردہ فروشی میں گزشتہ سال کی نسبت 27.6فیصد سالانہ اضافہ ہوا اور ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں سالانہ اضافے کی شرح 25 فیصد بڑھ گئی ہے۔

جیسے ہی خطے میں غربت کے خلاف مہم بار آور ثابت ہوئی تو اس کے ساتھ ہی دیہی باشندوں کی فی کس قابل خرچ آمدنی 7.1 فیصد اضافے کے ساتھ14ہزار56یوآن (تقریبا ً1ہزار712امریکی ڈالرز) تک پہنچ گئی۔اس اضافے کی شرح گزشتہ پانچ برسوں میں اوسطا ًسالانہ 8.3 فیصد کی سطح پر پہنچ گئی کیونکہ زیادہ تر زائد از ضرورت دیہی لیبر فورس کو مستحکم ملازمتیں ملیں۔حکومتی ورک رپورٹ کے مطابق اعلیٰ معیار کی ترقی کے حصول کے لئے سنکیانگ کا مقصد 2021سے 2025کے عرصے کے دوران اپنی اوسط سالانہ معاشی نمو کی شرح کو 6فیصد یا اس سے اوپر برقرار رکھنا ہے جس کے لئے مزدور وں سے وابستہ شعبے، ابھرتی ہوئی صنعتیں اور سیاحت جیسے کلیدی تحاریک کی قوتیں کارفرما ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ شاہراہ ریشم اقتصادی پٹی کا ایک بنیادی علاقہ ہونے کے ناطے اپنی ترقی کا ارادہ رکھتا ہے جس سے اس سے خطہ کے کھلے پن میں بھی اضافہ ہوگا اور ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تبادلوں اور تعاون کو بھی تقویت ملے گی۔سنکیانگ اپنے غیر معمولی قدرتی حسن کے لئے مشہور ہے جو ہر سال ملک و بیرون ملک سے لاکھوں سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔

سال 2020میں اس خطے میں 15 کروڑ 80لاکھ سے زیادہ سیاح آئے تھے اور علاقائی حکومت توقع کررہی ہے کہ وہ رواں سال یہاں 20 کروڑ سے زیادہ اور سال 2025تک 40 کروڑ سیاحوں کو خوش آمدید کہے گی۔سنکیانگ کے خطے میں ان نمایاں کامیابیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ کرنا کہ چین کے سنکیانگ ویغور خوداختیار خطے میں نسل کشی کی گئی ہے یا یہاں حراستی کیمپ تعمیر کیے گئے ہیں، بے بنیاد بہتان تراشیوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔سنکیانگ میں نسل کشی کے دعوے سابق امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو اور ان کی طرح کے لوگوں کے من گھڑت جھوٹ ہیں، جبکہ مزید کہا گیا کہ سنکیانگ میں مختلف نسلی گروہوں کے لوگوں کو وسیع تر حقوق اور آزادی حاصل ہے۔اس قسم کے دعوؤں سے بین الاقوامی قانون اور بنیادی اصولوں کی صریحاً پامالی ہوتی ہے، چین کے داخلی معامات میں وسیع تر مداخلت ہوتی ہے اور سنکیانگ میں تمام نسلی گروہوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچتی ہے۔

چین کے سنکیانگ میں ویغور آبادی گزشتہ 40 برسوں کے دوران 55 لاکھ 50 ہزار سے بڑھ کر ایک کروڑ 20لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔جیسے کہ ضرب المثل ہے کہ حرکات ہی الفاظ سے بلند ہوتے ہیں یااصلیت ہی افعال کو بہتر طور پر ظاہر کرتے ہیں۔ سال 2010 سے 2018 تک سنکیانگ میں ویغوروں کی آبادی 25 فیصد بڑھ گئی جو ہان کی آبادی سے زیادہ ہے جو 2 فیصد ہے۔ سنکیانگ میں گزشتہ 60 برسوں کے دوران متوقع اوسط عمر 30 سے بڑھ کر 72 سال ہو گئی ہے اور سنکیانگ میں مجموعی ملکی پیداوار میں 200 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ فی کس جی ڈی پی میں 40 گنا اضافہ ہوا ہے۔چین کے شمال مغربی سنکیانگ ویغور خوداختیار خطے میں مسلم علماء نے مساجد کے انہدام، مذہبی سرگرمیوں پر پابندی یا مسلم عقیدے پر کاربند مسلمانو ں کی نظربندی کے بارے میں مغربی میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والے جھوٹ اور افواہوں کی تردید کی ہے۔علماء نے ان خیالات کا بھی اظہار کیا کہ سنکیانگ کے بارے میں مغربی جھوٹ اور افواہوں کا مقصد حکومت اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالنا اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین تفرقہ پیدا کرنا ہے۔

انہوں نے اس آراء کا بھی اظہار کیا کہ ان زہریلی محرکات کا انکشاف ہوا ہے اور وہ ان قوتوں کی مخالفت کریں گے جو مقامی آبادی کی خوشگوار زندگی کو تہہ وبالا کرنا چاہتے ہیں۔مغربی میڈیا کے کچھ عناصر اپنے دعوے کے ثبوت کے لئے مصنوعی سیاروں کی تصاویر کا استعمال کررہے ہیں کہ سنکیانگ مساجد کو منہدم کررہا ہے۔ تاہم الیتون مسجد کے حاجب عبدویلی ابوالمیتی نے سنکیانگ کی صورتحال کے بارے میں پھیلائی گئی باتوں کی تردید کی اور واضح کیا کہ کچھ مساجد کی تزئین و آرائش اور توسیع کا منصوبہ ہے تاکہ ان مساجد کی عمارتوں کو مذہبی سرگرمیوں کے لئے محفوظ اور موزوں بنایا جاسکے۔عبدویلی کا کہنا ہے کہ کچھ مساجد کو نئی جگہوں پرمنتقل کردیا گیا تھا تاکہ عبادت گزاروں کی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کیا جاسکے اور شہر کاری کے ضوابط اور شہر کی منصوبہ بندی پر عمل درآمد یقینی بنایا جاسکے۔الیتون مسجد 1533 میں تعمیر کی گئی تھی اور اس میں 300 نمازیوں کی گنجائش ہے۔ حکومت نے عمارت کومحفوظ کرنے اور اس کی تزئین و آرائش کے لئے رقم مختص کی ہے۔خطے میں ترقی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مقامی افراد چین مخالف قوتوں کی جانب سے کی جانے والی اس طرح کی افواہوں اور الزام تراشیوں کی شدید مخالفت کرتے ہیں اور ان کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

بعض مغربی ممالک اور قوتوں نے بِلاوجہ چین کو بدنام کیا ہے اور سنکیانگ سے متعلق امور پر چین کی پالیسیوں کے بارے میں بہتان تراشی کی ہے۔ در حقیقت وہ سنکیانگ سے متعلق امور کو چین پر حملہ آور ہونے اور چین کی بڑھتی ہوئی ترقی کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے بہانے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ان سفارت کاروں اور مفکرین نے بھی جنہوں نے حالیہ برسوں کے دوران چین کے دورے کیے ہیں ان بے بنیاد بہتان طرازیوں کو مسترد کردیا ہے کہ سنکیانگ نے لاکھوں ویغوروں کو محصور رکھنے کے لئے حراستی کیمپ تعمیر کیے ہیں۔مقامی لوگوں کی خوشگوار زندگی کامطلب ہی یہی ہے کہ سنکیانگ نے دہشت گردی کے خلاف کریک ڈاؤن میں انسانی حقوق کاپوری طرح خیال رکھا ہے، یہ بات واضح کرتے ہوئے کہ سنکیانگ میں استحکام کو بہت بہتر بنایا گیا ہے جہاں چار سال سے زیادہ کے عرصے کے دوران دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

واضح رہے کہ معاشی ترقی کی بدولت ابھرنے والا معاشرتی استحکام سنکیانگ کے مجموعی معاشی ڈھانچے کی ترقی میں تیزی سے مدد فراہم کررہا ہے۔ اس استحکام نے خوداختیار خطے میں رہنے والی نسلوں میں اتحاد و ہم آہنگی کے رنگ پھیلائے ہیں جو اس خطے کی معاشی ترقی کے لئے اپنا اہم کردار ادا کررہے ہیں۔بدقسمتی سے سنکیانگ کی تیز رفتار اور مستقل ترقی کو کئی مواقع پر متعدد غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی ویب سائٹس پر دہشت گردی،علیحدگی پسندوں اور فرقہ وارانہ تنازعات کی کم علمی پر مبنی خبروں کے ذریعہ ماند کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) کے 46 ویں باقاعدہ اجلاس نے حال ہی میں ریکارڈ کیا ہے کہ چار ہفتوں کی کانفرنس کے دوران دنیا نے جو کچھ دیکھا ہے وہ امریکہ اور کچھ دیگر مغربی ملکوں کے بار بار دہرا ئے جانے والے دوغلے معیار کا ریکارڈ تھا۔اس میں بتایا گیا ہے کہ مغربی ملکوں کو سنکیانگ کے بارے میں انسانی حقوق کے نام نہاد دعووں پر اپنے دوغلے معیارات کو ختم کرنا چاہئے اور اپنے بند اذہان کو کھولنا چاہئے۔

یہ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ کچھ متعلقہ ملک اپنا نظریاتی تعصب ترک کردیں اور انسانی حقوق کے امور پر دوہرے معیارات کوختم کردیں۔سب کو معاشی اور معاشرتی ترقی، غربت کے خاتمے، نسلی اتحاد اور ہم آہنگی، انسانی حقوق، انسداد دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے خاتمے کی کوششوں کے نتائج کو دیکھنا چاہئے۔سوشل میڈیا کے کچھ پلیٹ فارم اور ذرائع ابلاغ کے ادارے مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کا بھی شکار ہوجاتے ہیں اور سنکیانگ کے بارے میں جھوٹ پھیلانے میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔ذرائع ابلاغ کو سنکیانگ کے بارے میں مغربی تھنک ٹینکوں اور میڈیا کی جانب سے آنے والے اندھے پروپیگنڈے کا تجزیہ کرنا چاہئے اور انہیں چین کے بارے میں جھوٹ پھیلانے میں مدد فراہم نہیں کرنی چاہئے۔