دنیا کا کوئی بھی ملک یا کوئی آزاد ریاست ہو یا پھر کوئی مفتوحہ علاقہ وہاں کا نظام وہاں کے طاقتور اداروں یعنی کہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہوتا ہے ہمارا ملک پاکستان دنیا میں ایک خود مختار ملک جانا جاتا ہے۔ اس کی ترقی چاہے تعلیم و صحت کے اعتبار سے ہو یا زراعت و تجارت کے حوالے سے۔ کوئی بھی سرکاری یا نیم سرکاری ادارہ ہو اس پر خودمختار اور طاقتور ادارے اسٹیبلشمنٹ کی کڑی نگاہ رہتی ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا اور دفاعی ادارہ پاک آرمی ہے جو کہ سپاہی سے جنرل تک عالمی سطح پر مقبول ہے کہ یہ اپنے ملک کا سب سے وفادار ادارہ ہے۔ اس نے نہایت ہی نیک نیتی خوش اسلوبی اور دیانتداری سے بلا رنگ و نسل ملک و قوم کی خدمت کی ہے۔ حالیہ سال 2021 میں سیاسی جماعتوں کے سیاسی اختلافات دن بدن بڑھ رہے تھے۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے آپس میں اتحاد کر لیا اور اپنے اس اتحاد کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)کا نام دیا اور ایک سیاسی و مذہبی پارٹی جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن کو پی ڈی ایم کا مرکزی سربراہ بنایا۔
کچھ مدت تک فلک شگاف نعرے لگوانے کے علاوہ اپنی پارٹی پرچموں کی بہار دکھا کر اپنی عارضی گرمی بھی دکھائی۔ اسی اثنا میں الیکٹرانک میڈیا،پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر پی ڈی ایم نے اپنے خوب چرچے دکھائے۔ پی ڈی ایم میں شامل پارٹیوں کے رہنما ء و اراکین حکمران جماعت پر برہم دکھائی دے رہے تھے۔ اس دوران حکمران جماعت پر ہر قسم کے الزام لگا کر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ کچھ سیاسی جماعتوں کا پی ڈی ایم میں سیاسی اور ذاتی مفاد تھا جس کے لیے حکومت میں شامل کئی وزراء نے پیش گوئی کی تھی کہ عنقریب پی ڈی ایم تتر بتر ہو نے والی ہے۔ بالآخر باری باری تمام جماعتیں وقت آنے پر ہاتھ چھڑاتی گئیں اور پی ڈی ایم کے سربراہ کو مجبوراً وہ احتجاج ختم کرکے گھر جانا پڑا۔ مفاد پرست سیاسی جماعتیں چند ایک اراکین کے سوا باقی تمام عوام سے اپنا اعتماد کھو بیٹھیں اور اب شاید اپنا کھویا ہوا اعتبار دوبارہ حاصل کرنا ان کے لیے محال ہو۔
افسوس اس امر کا ہے کہ حکمران جماعت کے ساتھ اتنی بڑی سیاسی جنگ میں فوج پر کیوں کیچڑ اچھالی گئی؟ اگر پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے سربراہان الیکٹرول کالجز پر نہ پہنچ سکے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ مختلف الزامات کی گٹھڑیاں بغلوں میں دبا کر پی ڈی ایم کے تحت عوام کو ورغلاتے رہیں۔ اگر عوام نے کسی سیاسی جماعت کو خدمت کا موقع دیا ہے تو کوئی بھی عقل سلیم یہ نہیں کہے گا کہ ان کے کام میں بے جا اور خواہ مخواہ خلل ڈالا جائے۔ حزب اختلاف کا حق ہوتا ہے تنقید جو اخلاقیات کے اعتبار سے یوں ہے کہ تنقید برائے اصلاح ہو نہ کہ تنقید کے بجائے مستعفی ہونے کا مطالبہ۔ کیونکہ یہ مطالبہ اختلاف رائے رکھنے والے کا ذاتی بغض سمجھا جائے گا اور تنقید چاہے وہ کڑی تنقید کیوں نہ ہو اس کو مخالف فریق برائے اصلاح سمجھ کر اپنی کمی کوتاہیاں دور کرنے اور نا مکمل کسی بھی پروگرام کو حزب اختلاف کی تنقید کی روشنی میں ترمیم و اصلاح کرکے اپنی خدمات کے دائرے کو دن بدن وسیع تر کرتا جائے گا جو کہ ملک و قوم کے مفاد کی بات ہے۔ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے بادل نخواستہ پی ڈی ایم کی غلط پالیسیوں والے عملی کام کا اگر رد عمل قوم کے سامنے آجائے تو پی ڈی ایم تو کیا اس میں رہنے والی جماعتیں اور ان سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے لیے کیا کیا نتائج نکلیں گے اللہ ہی بہتر جانتا ہے