ڈیرہ بگٹی بلوچستان کا واحد ضلع ہے جو سیاسی طورپر یتیم ضلع ہوچکا ہے۔ یہ یتیمی سیاسی اور سماجی قیادت کے فقدان کی وجہ سے ہوئی جس سے ضلع میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسئلوں نے جنم لینا شروع کیا۔ یہ سیاسی خلاء2006 کو بزرگ سیاستدان نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد شروع ہوا۔ کسی زمانے میں یہیں سے بلوچستان اور وفاقی حکومتیں بنتی اور گرتی تھیں۔ جہاں وزیراعظم، صدر مملکت، وزیراعلیٰ سمیت وزرا ء کی قطاریں لگی رہتی تھیں،ان کی حاضریاں ہوتی تھیں۔ سیاسی ہمدردیاں اور حمایتیں لی جاتی تھیں۔ سیاسی جماعتوں کی نظریں ڈیرہ بگٹی پر جمی ہوتی تھیں۔ یہ ضلع ملکی سیاست کا سرچشمہ ہوا کرتا تھا۔ نواب صاحب کی شخصیت کا سب سے اہم پہلو اس کی سوچ تھی سوچ کبھی نہیں مر سکتی۔ سوچ ایک سے دوسرے تک اور بالآخر نسلوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔
سیاسی خلا ء کی وجہ سے آج ضلع ڈیرہ بگٹی مسائلستان بن چکا ہے۔ ضلع ڈیرہ بگٹی سے گیس نکلتی ہے جو سینکڑوں میل دور پنجاب، خیبرپختونخوا سمیت سندھ کے مختلف شہروں تک تو پہنچ گئی ہے، لیکن اس ضلع کے مکین اپنے گھروں میں آج بھی لکڑیاں جلاتے ہیں۔ ملک کو گیس فراہم کرنے والا خطہ ضلع ڈیرہ بگٹی کے بیشتر علاقوں کے لوگ آج بھی لکڑیاں جلاکر گزارہ تے ہیں۔ جبکہ سوئی شہر میں جن گھروں کو گیس فراہم کی گئی ہے وہاں بھی اکثر کو گیس کا دباؤ کم ہونے اور چولہے ٹھنڈے پڑنے کی شکایت رہتی ہے۔ سوئی سے نکلنے والی گیس پاکستان کے پچاس لاکھ صارفین کو تو ملتی ہوگی لیکن خود سوئی شہرکے پچاس ہزار صارفین کو بھی ٹھیک سے نہیں مل پا رہی جبکہ ضلع کے بیشتر علاقے گیس سے محروم ہیں۔
سوئی میں 1952ء میں قدرتی گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے اور1967 تک پورے ملک کوصرف یہاں سے گیس سپلائی کی جاتی رہی۔ضلع ڈیرہ بگٹی میں اس وقت پانچ گیس فیلڈز ہیں جن میں سوئی، پیرکوہ، لوٹی، اْوچ اور ٹوبہ نوحکانی ہیں لیکن ان میں سب سے پرانی اور بڑی گیس فیلڈ ہے سوئی گیس فیلڈ، جو انیس سو باون میں دریافت ہوئی اور وہاں سے انیس سو پچپن میں گیس کی پیداوار شروع ہوئی۔
سوئی گیس فیلڈ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) نامی ایک بدمعاش کمپنی چلاتی ہے جس کا ہیڈکوارٹر کراچی میں ہے۔ یہ کمپنی بلوچستان حکومت کو گھاس نہیں ڈالتی، بظاہر وہ حکومت سے معاہدے تو کرتی ہے مگراربوں روپے کے واجبات ادا نہیں کرتی۔ یہ ایک بے لگام گھوڑے کی مانند بلوچستان کے وسائل کو روند رہی ہے۔ کھربوں روپے کمانے والی کمپنی ایک مافیا کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سوئی گیس فیلڈ سے گیس کی یومیہ پیداوارتقریباً چھ سو ساٹھ ملین کیوبک فٹ ہے اور وہاں اب بھی دو ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ ڈیرہ بگٹی کے باقی چار گیس فیلڈز پیر کوہ، لوٹی، اْوچ اور ٹوبہ نوحکانی کا انتظام پاکستان کی ریاستی کمپنی آئل اینڈ گیس کارپوریشن لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) کے پاس ہے۔ پیر کوہ، لوٹی، اْوچ اور ٹوبہ نوحکانی کے غریب لوگ پانی، بجلی، تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات سے محروم ہیں۔
بنیادی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے مقامی لوگ آئے روز مظاہرہ کرنے پر مجبور ہیں لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ ان دونوں کمپنیز سمیت حکمران بہرے ہوگئے ہیں۔ آج بلوچستان میں ایک غیر مستحکم اور سیاسی طور پر ایک کمزور حکومت قائم ہے جس کی وجہ سے بلوچستان حکومت وفاقی اداروں اور ان کمپینیز کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ شایدان کمپنیز کوپوچھنے والے کو ایک سازش کے تحت راستے سے ہٹایا گیا۔ نواب اکبرخان بگٹی کو26 اگست 2006 کوکوہلو کے پہاڑوں میں شہیدکیا گیا تاکہ اس کی آواز کو دبایا جائے۔وہ آواز غریب عوام کی آواز تھی جس کی گونج سے تخت پاکستان، اسلام آباد، ہلتا تھا۔ اب صورتحال بنیادی سہولیات کی فراہمی سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ اب یہاں کی پوری کی پوری آبادی کو گیس کے ذخائر کی موجودگی کے نام پر ہٹادیا جاتا ہے۔ نوٹس جاری کئے بغیر پوری آبادی کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جاتا ہے۔ ان کے گھروں کو بلڈوزکیا جاتا ہے۔ ان سے چھت چھینی جاتی ہے جبکہ ان کی اراضی سے نکلنے والی گیس مقامی آبادی کو نصیب نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی ان کمپنیوں میں انہیں ملازمت دی جاتی ہے۔
2005 کے آپریشن کے بعد سوئی کی آباد ی اچانک بڑھ گئی۔ ضلع کے مضافاتی علاقوں سے لوگ امن و امان کی ابتر صورتحال کی وجہ سے سوئی منتقل ہوگئے۔ اس وقت سوئی کی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے۔ پی پی ایل کا ویلفیر فنڈز بھی خرد وبرد کی نظر ہوجاتا ہے،من پسند لوگوں میں بندربانٹ ہوجاتا ہے۔ سوئی میں قائم پی پی ایل کے اسپتال میں ادویات اور ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے لوگ کشمور اور صادق آباد کا رخ کرتے ہیں۔پی پی ایل حکام ایک عرصے سے سن کوٹہ پر مکمل عملدرآمد نہیں کررہا ہے۔ مختلف حیلے بہانوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جبکہ گزشتہ کئی سالوں سے نئی بھرتیاں نہیں کی جارہیں۔مقامی افراد نے حکام پر الزام لگایا کہ ماضی میں چالیس کے قریب بگٹی انجینئرز کو ملازمت دلانے اور مذاکرات کے نام پر کراچی بلاکر انہیں لاپتہ کردیا گیا۔
بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ گیس اور معدنی وسائل بلوچستان کی ملکیت ہیں اور ان پر صوبے کا ہی اختیار ہونا چاہیے وفاقی حکومت کا نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے تیزی سے گیس نکالی جارہی ہے اوردوسرے صوبوں کی نسبت کل ترقیاتی سرچارج میں اس کا حصہ زیادہ ہے بلوچستان کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ ان سرچارجزیا اضافی ٹیکسوں کو وصول کرنے کا موجودہ طریقہ کار ختم کیا جائے جس سے بلوچستان کو گیس کی آمدن کی مد میں زیادہ پیسے مل سکے۔ مختلف فارمولوں کے تحت بلوچستان کو گیس ترقیاتی سرچارج کے محصول میں سے 53سے 65فیصد حصہ ملنا چاہیے۔ اس وقت مختلف صوبوں میں گیس کی رائلٹی کے نرخ مختلف ہیں اور سب سے کم بلوچستان کی گیس کے نرخ ہیں۔2014 میں بلوچستان حکومت نے سوئی کی آبادی کو پانی کی فراہمی کا ایک منصوبہ شروع کیا تھا جس کے لیے ایک ارب 25 کروڑ روپے کی رقم مختص کردی گئی تاہم منصوبہ سست روی کا شکار ہے۔ کام ابھی تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا۔
کچھی کینال پروجیکٹ 363 کلو میٹر مین طویل کینال میں سے 351 کلو میڑ کینال پختہ ہے۔ یہ نہر صوبہ پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں واقع تونسہ بیراج سے نکلتی ہے اور سوئی میں ختم ہو جاتی ہے۔تاحال اس پر کام جاری ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے سوئی کی ایک لاکھ سے زائد ایکڑ اراضی کو پانی ملے گا۔ اب تک اس کینال سے سوئی کے چالیس ہزار ایکٹر زرعی اراضی کو پانی مل رہا ہے تاہم کام سست روی کا شکار ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل میں نہ صرف مسائل و مشکلات کا سامنا ہے، بلکہ اس کے لیے مختص رقم بھی خورد برد ہونے کا خدشہ ہے۔ 2005 کے بعد ضلع بھر میں ہجرت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ضلع کی آدھی آبادی جنگ کی وجہ سے متاثر ہوئی۔ سینکڑوں خاندان آج سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں میں خواری کی زندگی بسر کررہے ہیں جہاں نہ روزگار ہے اور نہ ہی رہائش میسر ہے۔ وہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں ٹھوکریں کھارہے ہیں۔
کراچی، سکھر، کشمور، راجن پور، ڈیرہ غازی، صادق آباد، رحیم یار خان سمیت دیگر علاقوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔۔غریب بگٹی لاوارث ہوگئے ہیں۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والا اس دنیا سے کوچ کرگیا جسے دنیانواب اکبر خان بگٹی کے نام سے جانتی تھی۔ اس کی موت کی آگ نے ضلع ڈیرہ بگٹی سمیت پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کیونکہ نواب کا قتل ایک قومی المیہ تھا۔ یہ ایک بزرگ سیاست دان کا ماورائے عدالت قتل تھا۔ نواب بگٹی اپنی موت کے بعد آج ایک افسانوی کردار کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں جو مر کے نہ صرف امر ہوگیا بلکہ بلوچ کاز کا سب سے بڑا حریت پسند ہونے کا درجہ بھی حاصل کر گیا۔