ہمیں دین کے ہرشعبے میں حضور ؐکی تعلیمات کی پروی کرنی چاہئے۔ دین کے شعبوں میں سے ایک شعبہ دعوت وتبلیغ اور وعظ ونصیحت کا ہے۔ یہ بہت اہم شعبہ ہے قرآن نے جا بجا اس کی اہمیت اور طریقہ کار بتایا ہے۔ جب کسی کو اسلام کی دعوت دو، تو ان کے ساتھ نرمی برتو، سخت لہجے سے اجتناب کرو۔حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے فرمایا کہ فرعون کے ساتھ نرمی سے بات کرو۔ شاید کہ وہ بات مان جائے۔
حضورؐ تبلیغ کے سلسلے میں طائف تشریف لے گئے تو وہاں پر اوباش لڑکوں نے پتھر برسائے جس کی وجہ سے آپ? خون سے لہولہان ہوکر بے ہوش ہو ئے۔ جب نبی علیہ السلام ہوش میں اگئے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوکر اور آپؐ سے عرض کیا کہ آپ حکم فرمائے میں ان لوگوں کو طائف کے دونوں پہاڑیوں میں کچل دونگا۔ لیکن آپ ؐنے فرمایا اگر یہ لوگ ایمان نہیں لائے تو ہوسکتاہے ان کی اولاد ایمان لائیں۔ اور ایسا ہی ہوا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضورؐ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا۔تو ام المومنین رضی اللہ عنہا نے جواب میں کہا کہ نبیؐ کے اخلاق قرآن ہے۔ماضی قریب میں مشہور بین الاقوامی بڑے بڑے علماء، خطبا اور مبلغین گزرے ہیں۔ جن میں چند یہ ہیں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، ابوالکلام آزاد، عبدالشکور دین پوری، مولانا قاری محمد طیب اور مولانا عبدالمجید ندیم شامل ہیں۔
گر ہم ان سب کے وعظ ونصیحت اور تقاریر کے جائزہ لیں تو وہ سب کے سب نرم مزاج افراد تھے وہ دلیل سے بیان فرماتے تھے۔ سامعین ان سے بہت متاثر ہوتے ساری ساری رات لوگ جاگتے اور تقریر سنتے رہے۔ کسی کو کوئی تکلیف محسوس نہ ہوتی۔ موجودہ زمانے میں بھی پوری دنیا میں بہت مشہور بڑے بڑے علماء، خطباء اور مبلغین موجود ہیں جو دین اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس سے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔ لیکن دوسری طرف آج کل بعض مولوی سامعین کو خوش کرنے، اپنے یوٹیوب چینلز کے سبسکرائبرز بڑھانے اور سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے جذباتی انداز، جوش خطابت، مبالغہ آرائی، گالم گلوچ، منطق وحکمت سے عاری اور بازاری زبان جیسے مختلف قسم کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ ان ہی کی بے احتیاطی کی وجہ سے موجودہ حالات میں عالمی وبا کورونا وائرس کے متعلق منگڑت باتیں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا ئے گئے۔
جس کی وجہ سے عوام کی طرف سے ان مولویوں کے خلاف نازیبا الفاظ اور گالم گلوچ پر مشتمل بد اخلاقی کا طوفان برپا کیا گیا۔ اس قسم کے مولوی سارے علماء کی بدنامی کا سبب بن جاتے ہیں۔حالیہ دنوں میں ان میں سے ایک مولوی کو حکومت نے گرفتار کیا اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی۔ بعد میں مولوی نے اپنے کیے ہوئے غلط بیانات پر معافی مانگ لی۔ ان کے بارے میں کسی نے سوشل میڈیا کے ذریعے لکھا کہ حکومت نے اس مولوی صاحب کا سافٹ وئیر تبدیل کیا۔ کئی دنوں تک سوشل میڈیا پر اس کے خلاف مذاق اڑاتاگیا۔ میرے خیال میں اس طرح کے لوگوں کو عالم اور مولوی صاحب جیسے اچھے القابات سے پکارنا بھی مناسب نہیں۔ جس طرح مفتی عبدالقوی کے بارے میں اپنے خاندان کے افراد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ائندہ کے لیے مفتی عبدالقوی کے ساتھ مفتی کا لقب استعمال نہ کیا جائے۔ میں تمام تنظیمات مدارس دینیہ کو درخواست کرتاہوں کہ اس قسم کے مولویوں کے لییاپنے اپنے بورڈ میں قانون بنائے کہ جس فارغ التحصل عالم نے ایسا کام کیا تو اس کے اسناد منسوخ کئے جائیں گے۔ میں سب علماء کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ علوم جن پر آپ دسترس نہیں رکھتے، جیسے علم طب اور سائنس جوکہ الگ الگ علوم ہیں۔
اس پر اپنی طرف سے غلط تبصرے نہ کریں۔ غلط تبصروں کرنے سے عوام کے آنکھوں میں آپ گرجائینگے اور بعض افراد آپ پر پردہ ڈالنے کے بجائے سوشل میڈیا پر آپ کو رسوا کر دینگے۔لہٰذا کوئی بھی بات اپنی زبان یا قلم سے نکالنے سے پہلے یہ سوچ لیا کریں کہ اس بات کو مجھے کسی عدالت میں ثابت کرنا بھی پڑ سکتاہے۔ اگر تم اس پوزیشن میں نہیں تو ہرگز وہی بات نہیں کرنا اور نہ لکھنا۔ اگر دنیا میں کوئی محاسبہ نہ بھی ہوئی تو اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کیا جواب دینگے۔ اس لیے بات کرنے سے پہلے ” پہلے سوچو، پھر بولو” والا پالیسی اختیار کریں۔ اس پر عمل کرنے سے آپ کو کوئی پچھتاوا نہیں ہوگا اور نہ کوئی معافی کی ضرورت پڑی گی۔نیز میں علماء، اساتذہ،پروفسرز، ڈاکٹرز اور معاشرے کے دیگر حضرات کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ معاشرے کے بہت اہم اجزا ہیں۔ لہذا اگر آپ کسی تقریب،پروگرام، کلاس روم یا جلسے جلوس میں جاتے ہیں تو بہت احتیاط سے اپنی زبان اور حرکات وسکنات کو قابو میں رکھیں۔
کیونکہ بعض لوگ آپ کی اجازت کے بغیر موبائل کے ذریعے آپ کیاڈیوز اور ویڈیوز بناتے ہیں۔ مشاہدے میں آیاہے کہ کلام کا وہ حصہ جہاں پر آپ سے کوئی کمی بیشی یا غلطی سرزد ہوئی ہو، شرارت کے طور پر دوسرے لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلاتے ہیں۔آپ لوگوں سے قوم کی بہت توقعات وابستہ ہیں لہذا آپ ایسا کام نہ کرے جو آپ کی شخصیت، مرتبے بلکہ پورے پیشہ کی بدنامی کا باعث بن رہا ہو۔ نیز اپنا فرائض منصبی ایمان داری،محنت،لگن اور اصولوں کا خیال رکھتے ہوئے سر انجام دینے کی کوشش کریں۔