|

وقتِ اشاعت :   May 19 – 2021

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں 27 رمضان المبارک کو عید سے چند روز قبل نماز تراویح کے دوران اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر دھاوا بول دیا۔مسجد کی بے حرمتی کی،نمازیوں پر وحشیانہ تشدد کیا،فلسطینی بچوں،عورتوں اور نوجوانوں پر ربڑ کی گولیوں سے فائرنگ کی۔اس دوران متعدد فلسطینی زخمی اور درجنوں گرفتار ہوئے۔اس بربریت کے پیچھے محرکات یہ ہیں کہ اسرائیلی حکومت نے پچھلے دس روز سے کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کر رکھا تھاجس کا مقصد شیخ جراح کے محلے میں فلسطینیوں کے گھروں،دکانوں اور کاروباری مراکز پر قبضہ کرنا ہے۔دس دن قبل اسرائیلی سپریم کورٹ اور یہودی آباد کار ایسوسی ایشن کے درمیان ایک معاہدے کی سماعت کے بعد فلسطینیوں سے اس جگہ کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔یہ مقدمہ فلسطینی خاندانوں کے خلاف طویل عرصے سے جاری ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو ان کے اپنے گھروں سے بے دخل کرنے ہے۔آج اکیسویں صدی میں اس علاقے کے مجبور لوگ یہودیوں کے مظالم تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے موجودہ حالات مسلمانوں کے خلاف خود کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔سچ سے منہ موڑا تو جا سکتا ہے لیکن حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا۔جتنی قوت آزمائی مسلمانوں نے مسلمانوں کو پست کرنے اور نیچا دکھانے کے لیے ایک دوسرے پر استعمال کی ہے۔اگر اس میں سے ایک تہائی طاقت بھی دشمن قوتوں پر لگاتے تو یقیناً آج مسلمانوں کے حالات اتنے دلبرداشتہ نہ ہوتے۔فلسطین ہو یا شام،برما ہو یا کشمیر، افغانستان ہو یا عراق ہر جگہ مسلمان آہ و بکا کرتے نظر آتے ہیں۔وہ صدیوں سے چیخ چیخ کر اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی دل چیرتی رودادیں سناتے آ رہے ہیں لیکن دنیا میں سب سے زیادہ آبادی رکھنے کے با وجود پچاس سے زائد اسلامی ممالک کے حکمران آج تک ان کے لیے سوائے لفظ مذمت کے کوئی ٹھوس عملی اقدامات نہیں کر سکے۔کھل کر مذمت کرنے والے ممالک میں بھی صرف ترکی،ایران،پاکستان اور ملائیشیا شامل ہیں۔او آئی سی بھی مردے گھوڑے کا روپ دھارے مذمت کی حد تک کردار ادا کر رہی ہے۔یو این او بھی مسلم دشمنی میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر دکھاوے کے لیے زبانی جمع خرچ کرنے میں مصروف ہے۔اگر یہی عالمی ادارے انصاف کرتے تو ستر سالوں سے فلسطین اور کشمیر کی عوام ظلم کی چکی میں نہ پس رہی ہوتی۔
غیروں سے کیا گلہ انہوں نے تو اسرائیل کی بنیاد ہی ظلم و جبر،زور و زبردستی اور ناانصافی پر رکھی تھی اور پھر وہاں فلسطین جیسے مسئلے پر دشمن قوتوں سے انصاف کی توقع رکھ کر اپیلیں کرنا خود پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔امریکہ جس سے آج تمام اسلامی ممالک کے سربراہ مسئلے کے حل کے لیے آس لگائے بیٹھے ہیں اس نے خود افغانستان میں عام شہریوں پر کون کون سے مظا لم نہیں ڈھائے،شام کی گلیوں کو آئے روز خوں آلودہ کرنے والے بھی یہی امریکی ہیں۔عراق میں اپنی فوج سے ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑنے والے بھی یہی امریکی ہیں۔وہاں اقوام متحدہ یا دیگر عالمی عدالتوں کا کیا کردار رہا کس کو پتا نہیں۔مغرب میں بچے کی ہلاکت پر یورپی یونین اور تمام انسانی حقوق کی بے غیرت تنظیموں کی انسانیت جاگ اٹھتی ہے۔مگر انہیں فلسطین کے معصوم بچوں کی خون آلودہ لاشیں کیوں نظر نہیں آتیں۔اسرائیلی درندوں کے مظالم سے پھول جیسے معصوم بچے اور کلیوں جیسی ننھی بچیاں بھی محفوظ نہیں۔دنیا کے تمام جنگی قانون جنگ میں بچوں کو مارنے یا قتل کرنے سے روکتے ہیں لیکن امت مسلمہ کے بچوں کا خون اتنا سستا ہو گیا ہے انصاف کے علمبردار امریکہ کے لے پالک اسرائیل کے سامنے کسی قانون کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور اگر دوسری طرف مسلمان اپنے دفاع اور تحفظ کیلیے کوئی اقدامات کرتے ہیں تو انہیں فوراً دہشت گرد ڈکلئیر کر دیا جاتا ہے۔
امت مسلمہ کو اپنی کھوئی ہوئی بقا اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کیلیے اتحاد و اتفاق پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔تمام مسلم ممالک کی تمام حکومتوں کا یہ باہمی اتحاد اور وحدت، دنیائے اسلام کے تمام چھوٹے بڑے مسائل کے حل کیلیے کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔او آئی سی اور دیگر اسلامی تنظیموں کو رسمی اور کاغذی کاروائیوں سے بڑھ کر تمام مسلم ممالک کی مشترکہ حکمت عملی کو واضح رکھتے ہوئے باہمی مشترکہ کوششوں کو سامنے لانا ہو گا۔تمام مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولنے کی بجائے ایک متحد اسلامی بلاک بنا کر اس کی تمام تر کوششیں عالم اسلام اور انسانیت پر ہونے والے مظالم کی روک تھام کیلیے صرف کرنی ہوں گی۔ اقوام مسلم کے لیے سب سے بڑا مسئلہ، مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیے سب کو یکجا ہو کر سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ کر دشمن قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی ہوگی۔معاشی و اقتصادی مجبوریوں کو پس پشت ڈال کر کامل ایمان کے ساتھ دشمن قوتوں کو للکارنا ہوگا۔ ورنہ جس طرح فلسطینی صدائیں لگاتے ہیں کوئی ان کی عملی طور پر مدد نہیں کرتا اگر ان کی وہی آہیں عرش سے ٹکرا گئیں تو اس طرح کی قیامت پھر ہم پر بھی ٹوٹ سکتی ہے اور ہم پکاریں گے کوئی سننے والا نہیں ہو گا۔