ریاست خاران بلوچستان کے دیگر ریاستوں کی طرح ایک مستحکم اور مضبوط ریاست ہوا کرتی تھی۔ جہاں ریاستی ستون صحیح طریقے سے فنکشنل تھے۔ جن میں قاضی عدالتیں (عدلیہ) ،فوج سمیت دیگر ریاستی ادارے فعال تھے۔ یہ خوشحال ریاست پانچ صدیوں سے زائد عرصے تک چلتی رہی۔ جب ریاست کو پاکستان سے الحاق کروایا گیا تو یہ بلوچستان کے دیگر اضلاع کی طرح سکڑ کرایک ضلع میں تبدیل ہوگیا۔ تاہم حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ضلع میں معاشی و سماجی مسائل نے جنم لینا شروع کیا جو ہنوز جاری ہیں۔ موجودہ صورتحال میں خاران ایک سیاسی انتقام جیسی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ انتظامی اور پسماندگی کی بنیاد کے بجائے سیاسی پسند ناپسند کی بنیادپر فیصلے کئے جارہے ہیں۔ یہ انتقامی سیاست کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب عام انتخابات میں حکمران جماعت، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے امیدوار عبدالکریم نوشیروانی کو بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے امیدوار ثناء بلوچ نے بری طرح شکست دے دی۔اس شکست کا بدلہ عوام سے لیا جارہا ہے، ان کے معاشی اور سماجی بہتری کے منصوبوں کو سرد خانے کی نذر کردیا گیا ہے۔ ضلع خاران بارانی ندی نالوں کا ایک مرکز ہے۔ ضلع کے منظور شدہ چار ڈیمز پر کام آج تک شروع نہ ہوسکا جبکہ یہ چاروں ڈیمز پی ایس ڈی پی کا حصہ ہیں۔ چاروں ڈیمز کوہ راسکو، بڈو، چارکوہ سمیت دیگر مقامات پر بننے تھے۔ ان مقامات پر ڈیمز نہ ہونے سے برساتی پانی ضائع ہوجاتاہے۔ یہاں پہاڑی نالے ہیں پہاڑوں پر ہونے والی بارش کا پانی آتا ہے مگر وہ اسٹور نہیں ہوتا۔ان منصوبوں کی تعمیر سے ضلع کی زمین کو سرسبز و شاداب کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح گرنے سے زراعت کو نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے معیشت ،مالیات اور تجارت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگوں کی معیشت کا دارومدار اور انحصار زراعت اور مال مویشی پر ہے، زمینیں بنجر ہو چکی ہیں،کنوؤں میں پانی ناپید ہوچکا ہے۔
خاران سیاسی اور اقتصادی حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل خطہ ہے، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ رخشان ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر ہے۔۔ رخشان ڈویژن میں نوشکی، چاغی، خاران اور واشک ڈسٹرکٹ شامل ہیں، یہ پاک چین اقتصادی راہداری کا ایک اہم جزو بھی ہوسکتا تھا۔ان تمام اضلاع میں اپنی اپنی نوعیت کی پوٹینشل ہے۔ ایک طرف معدنیات سے مالا مال پہاڑی سلسلہ، دوسری طرف صحرا، تیسری جانب زرعی اراضی اور چوتھی طرف میدانی علاقہ ہے۔ قدرت کی ساری نعمتیں اس خطے میں موجود ہیں۔ صرف ضلع خاران میں ہر سال ہزاروں ٹرک پیاز، گندم، تربوز، خربوزے اور کپاس کی پیداوار ہوتی ہے ،اگر جنگلات اور وادیوں کی بات کی جائے۔ تو وادی “بَڑّو’’ کوڈکان، گَرْک، گواش کافی شہرت رکھتے ہیں، اور بھی بڑی بڑی وادیاں جو کہ نہ صرف وادیاں ہیں بلکہ اپنی انتہا تک یہ جنگلات بھی ہیں۔ حال ہی میں یہاں آئل اینڈ گیس کی دریافت کے حوالے سے کام بھی جاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ضلع آئل اینڈ گیس کے ذخائر سے مالا مال خطہ ہے۔لیکن بدقسمتی سے 2015 کو جب چین اور پاکستان کے درمیان سی پیک کے منصوبوں پر دستخط ہو رہے تھے۔ اس حوالے سے حکومت نے یہاں کے عوام کی سوشل اکنامک ترقی کے حوالے سے کوئی بھی حکمت عملی نہیں اپنائی۔ اور نہ ہی بلوچستان کی حکومت نے وفاقی حکومت کو اس سلسلے میں بلوچستان کے دیگر اضلاع کے پوٹینشل کے حوالے سے کیس آگے بڑھایا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ بلوچستان کے تمام اضلاع میں سی پیک کے منصوبوں کا جال بچھایا جاتا مگر بدقسمتی سے سی پیک کا منصوبہ ان کے سر سے گزر گیا اور وہ صرف گوادر تک محدود ہوگیا۔ پاک چین اقتصادی راہداری ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے جس کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کو ممکن بنانا ہے۔ گوادر سے کاشغر تک تقریباً 2442 کلومیٹر طویل ہے۔ اس پر کل 46 بلین ڈالر لاگت کا اندازہ کیا گیا ہے۔
ضلع خاران کے عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ 24 گھنٹے میں صرف چھ گھنٹے بجلی ملتی ہے۔ ضلع میں تعلیمی ادارے قائم ہیں مگر وہ صرف عمارت کی حد تک ہے۔ ضلع اس وقت شدید تعلیمی بحران کا شکار ہے۔ ضلع کے اکثر روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ شہری علاقوں میں نکاسی آب کی نالیوں میں، پینے کے پانی کی پائپ لائنوں کی لیکجز کی وجہ سے لوگ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ گندا پانی پینے سے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ صحت کے مراکز تو موجود ہیں مگر وہاں ادویات اور ڈاکٹرز کی کمی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو علاج و معالجہ کے لئے دیگر شہروں کی طرف جانا پڑتا ہے۔
ریاست خاران ایک طویل تاریخ رکھتی ہے۔ نوشیروانی خاندان سے قبل خاران کے حکمران پیراک زئی تھے تاہم نوشیروانی خاندان نے خاران کو جدید ریاستی ڈھانچہ دیا۔ ریاست کا اپنا جھنڈا، کرنسی، عدالتیں، فوج سمیت دیگر ریاستی ستون قائم کئے گئے۔نوشیروانی اپنے آپ کو ایرانی بادشاہ نوشیروان کی اولاد میں سے بتاتے ہیں۔ خاران کی ریاست مکران سے ملحق اور اس کے بعض علاقوں پر قائم تھی۔
ریاست خاران ایک نوابی ریاست تھی۔ خاران کی ریاست 1697میں معرض وجود میں آئی جو 1955 تک رہی ، بلاآخر پاکستان میں الحاق کروادیا گیا۔ ریاست کی بنیاد نواب میر محمد خان نوشیروانی نے رکھی۔ یہ نوابی کا سلسلہ 19 پشتوں تک جاری رہا۔
خاران کے نوشیروانی حکمرانوں نے کبھی بھی قلات کے (براہوئی) احمد زئی حکمرانوں کی بالادستی کو قبول نہیں کیا ہمیشہ قلات کے حکمرانوں کو اپنے ہم پلہ تصورکیا اگرچہ دونوں شاہی خاندانوں کے درمیان رشتے داریاں بھی قائم ہوئی تھیں مگر اس کے باوجود دونوں ریاستوں کے درمیاں متعدد بار جنگ و جدل بھی برپا ہوئی ہمیشہ ہی قلات اور خاران کے حکمرانوں کے درمیان اقتدار کی جنگ جاری رہی۔ تاہم ریاست قلات ایک طاقتور ریاست تھی۔ ریاستوں کی آپس کی چپلقش کے خاتمے نے انہیں ایک ’’ بلوچ کنفیڈریشن‘‘ کا تصور دیا۔ یہ کنفیڈریشن بلوچستان کے چار ریاستوں پر مشتمل رہا جن میں ریاست خاران، ریاست مکران، ریاست لسبیلہ اور ریاست قلات شامل تھے۔ اس بلوچ کنفیڈریشن کا سرچشمہ قلات تھا جہاں سے ان ریاستوں کی ڈوریاں ہلتی تھیں۔ جب بھی کوئی بیرونی طاقت ان ریاستوں پر حملے کرنے آتی تھی تو یہ ریاستیں یکجا ہوتی تھیں جس کی مثال کچھ یوں ہے۔ اٹھارویں صدی میں مکران پر انگریزوں نے حملہ کردیا اور مکران کے ساحلی علاقوں پسنی، گوادر، جیوانی اور اورماڑہ کی ساحلی پٹی پر قبضہ کرلیا۔ برطانوی کپتان رابرٹ سنڈیمن اپنی فوج کی قیادت کررہے تھے۔ اس جارحیت کے خلاف ریاست خاران کے نواب خاندان سے تعلق رکھنے والے بلوچ خان شیروانی نے ریاست مکران کے نواب گچکی خاندان ، کیچ کے سردار خیل، سنگھور خاندان، تمپ کے ہوت خاندان اسی طرح بلیدی، رند اور دیگر حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کی مدد کی۔ اس طرح برطانوی سامراج خلاف ایک مزاحمت شروع ہوگئی۔ اس مزاحمتی تحریک کی قیادت میر بلوچ خان نوشیروانی کررہے تھے۔ انگریز فوج اور بلوچ مزاحمت کاروں کی پسنی اور تربت کے درمیانی علاقے ’’گوک پروش‘‘ کے مقام پر دو بدو جنگ ہوئی۔ اس لڑائی میں میر بلوچ خان شیروانی اپنے ساتھیوں سمیت شہادت نوش کرلیتا ہے۔ آج بھی ’’گوک پروش‘‘ کے مقام سے ہر گزرنے والے بلوچ کی آنکھ پرنم ہوجاتی ہے۔ اورکچھ وقت کے لئے خاموشی اختیارکرلیتے ہیں۔ اور وہ سوگواری کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں۔ شاید یہ انسانی کیفیت اپنے ہیروں کی شہادت کو فراموش نہ کرنے کا عمل ہے۔ علاوہ ازیں ہندوستان اور ایران کی طرح ریاست خاران بھی دنیا کا مشہور ترین ہیرا کوہِ نور کا دعویدار ہے۔ جو اس وقت تاج برطانیہ کی زینت ہے۔ مورخوں کے مطابق فارس (ایران) کے حکمران نادر شاہ افشار نے جب ہندوستان فتح کیا تو کوہ نور ہیرے کو اپنے ساتھ ایران لے گیا اور غالباً اسی نے اس ہیرے کا نام اس کی چمک دمک دیکھ کر کوہ نور رکھا۔ نادر شا ہ افشار کے قتل کے وقت خاران کے سربراہ امیر پردل خان، نادر شاہ کے ساتھ ہی تھے اور نادر شاہ افشار کے اہم جرنیلوں مِیں امیر پردل خان کا شمار کیا جاتا تھا نادر شاہ کے قتل کے بعد خاران کے امیر پردل کے پاس کوہ نور ہیرا آجاتا ہے۔ وہ نادر شاہ کے قتل کے بعد اپنی ریاست خاران مِیں واپس آجاتا ہے۔ ان کے انتقال کے بعدامیر پردل خان کے بیٹے جہانگیر خان دوئم خاران کے حکمران ہوجاتے ہیں۔ جہانگیر خان کی وفات کے بعد ان کے جانشینوں میں اقتدار کے لیے جھگڑا ہوا تو جہانگیر خان کے بیٹے میرابراہیم اپنے بھائی امیرعباس خان چہارم سے ناراض ہوکر پنجاب کے حکمران راجا رنجیت سنگھ کے پاس چلا جاتا ہے۔ اور اپنے ہمراہ کوہ نور ہیرا بھی لے جاتا ہے۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے پاس پناہ گزیں ہوکر خاران کی حکومت کے حصول کے لیے مدد مانگی اور کوہ نور ہیرا بطور امانت راجا رنجیت سنگھ کے پاس رکھوایا تھا اور رنجیت سنگھ کی مدد سے وہ خاران کے تخت پر قبضہ جمانے کے لئے واپس خاران میں داخل ہوجاتا ہے۔ تاہم اقتدار کے حصول کی اس جنگ میں وہ مارا جاتا ہے۔ اس طرح کوہ نور ہیرا مہاراجا رنجیت سنگھ کے پاس ہی رہتا ہے۔ رنجیت سنگھ کے بعد یہ ہیرا انگریز سامراج کے ہاتھ لگ جاتا ہے۔
ریاست خاران ہمیشہ جنگ و جدل کا شکار رہی ہے۔ آج بھی خاران بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح ایک سورش زدہ علاقہ ہے۔ خاران کے علاقے ’’لجے‘‘ جسے ’’کوٹ ساسولی‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کی آبادی ساسولی قبیلے پرمشتمل ہے۔ واضح رہے کہ ’’لجے‘‘ بلوچ قوم پرست رہنما رؤف خان ساسولی اور نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر اسحاق بلوچ کا آبائی علاقہ بھی ہے۔ لجے ہمیشہ گوریلا وار کا مرکز رہا ہے۔ یہ ایک پہاڑی راستہ ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ افغانستان سے شروع ہوکر نوشکی سے ہوتا ہوا لجے سے گزر کر مکران کے ساحلی علاقے پسنی تک چلا جاتا ہے۔ محل وقوع کے اعتبار سے لجے خطرناک ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ شاید محل وقوع و جغرافیہ انسانی کیفیت پر اثراندازہوتا اور موسم انسان کو جسمانی اور اعصابی طور پر مضبوط بناتا ہے۔ اور وہ جنگجوں ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ قدرت انسانی سوچ و فخر کو مزاحمت کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ یہ مزاحمتی عمل قدرت کے ماحول سے جڑا ہوتا ہے۔ جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شاید ہمارے حکمران بلوچ کلچر و تہذیب کو سمجھنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے آج بلوچستان بھی افغانستان، عراق اور فلسطین جیسی صورتحال سے گزر رہا ہے۔
قدرت اور انسانی کیفیت کو شاعر مشرق علامہ اقبال نے کچھ یوں بیان کیا:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
اک بندہ صحرائی اک ارد کہستانی
’’خاران‘‘ ریاست سے ضلع تک کا سفر
وقتِ اشاعت : May 23 – 2021