ضلع گوادر کا ساحلی شہر جیونی گوادر سے تقریبا ً75 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور ایرانی سرحد سے جیونی کی مسافت صرف 34 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔جیونی زمانہ قدیم سے خطے میں اسٹریٹجک اہمیت کا حامل علاقہ رہا ہے جو خلیج فارس سے اور اس سے نقل و حمل کے راستوں سے متصل ہے۔ تقسیم ہند سے قبل یہ علاقہ برطانیہ کا بندوبستی علاقہ رہا ہے۔ جیونی شہر سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلہ پر برطانیہ کے زمانہ میں قائم ایئرپورٹ اب بھی موجود ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ ایئرپورٹ جنگ عظیم دوئم کے دوران استعمال میں لایا گیا تھا۔ پی آئی اے کی ڈومیسٹک پروازیں بھی اس ایئرپورٹ سے اپنی اڑانیں بھرتی تھیں لیکن عرصہ ہوا ہے ایئرپورٹ کو فلائٹ آپریشن کے لئے بند کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جیونی کا ساحل غروب آفتاب کے منظر کی وجہ سے بھی مشہور ہے جس کا اندازہ وکٹوریہ ہٹ کی تعمیر سے لگایا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں وکٹوریہ کی ملکہ نے جیونی کے ساحل پر ہٹ کی تعمیرات کا حکم دیا تھا تاکہ جب ان کا یہاں آنا ہو تو وہ غروب آفتاب کا نظارہ کرسکیں۔لیکن اس کے شواہد موجود نہیں وکٹوریہ کی ملکہ اس مقصد کے لئے یہاں آئی تھیں یا نہیں۔
وکٹوریہ ہٹ جیونی کے داخلی راستے پر اوکار کے مقام پر واقع ہے جو آجکل پاکستان کوسٹ گارڈز کے زیر استعمال ہے جہاں ان کا کیمپ بھی ہے۔ جیونی کے غروب آفتاب کا دلکش منظر آج بھی مشہور ہے جسے دیکھنے کے لئے لوگوں کی بڑی تعداد جیونی کا رخ کرتی ہے لیکن اسٹریجک اور سیاحتی حوالے سے اہمیت کا حامل یہ ساحلی شہر زمانہ ہوا پانی کے بحران کا شکار ہے۔ پانی بحران کے حوالے سے جیونی ایک خونی تصادم کی تاریخ بھی رکھتی ہے۔ آج سے 34 سال قبل یعنی 21 فروری 1987 کو جیونی میں پانی کے مطالبہ پر جلوس نکالا گیا تھا جس پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں غلام نبی نامی مرد، ازگل نامی خاتون اور ننھی بچی یاسمین گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہوئے تھے۔
34 سال گزرنے کے بعد بھی جیونی پانی بحران کا شکار ہے اور یہ منظر آج بھی جیونی کے ہر گلی میں دکھائی دیتا ہے۔جیونی کے غروب آفتاب کا دلکش منظر ارباب اقتدار کو قلبی اور ذہنی سکون پہنچاتا ہے لیکن یہاں کے شہریوں کے لبوں پر پیاس کی جو خشکی ہے، یہ منظر کسی کو نہیں دکھتا۔ جیونی کے بنیادی مسائل کے حل کا مژدہ سناکر اسمبلی میں جانے والے نمائندوں کے ضمیر کو بھی جاگنے کی ضرورت ہے۔ دور جدید میں شہریوں کا پیاسا ہونا عجیب ہے۔اکیسویں صدی کے دور میں شہری علاقوں میں پانی کا بحران لمحہ فکریہ ہے اور وہ بھی جیونی جیسے علاقے میں جو ابھرتے ہوئے شہر گوادر کے پہلو میں واقع ہے۔