ریاست قلات کی تاریخ تقریباً پانچ سو سال سے زائدعرصے پرمحیط ہے۔خان آف قلات نے بلوچستان، سندھ اور پنجاب کی بلوچ ریاستوں کو ایک ’’ بلوچ کنفیڈریشن‘‘ کا ڈھانچہ دیا۔ قلات خانیت قلات کا دارالحکومت تھا۔ تاریخی طور پرقلات کوقیقان کہا جاتا تھا۔
بلوچستان قیام پاکستان کے وقت مشرقی بنگال، سندھ، پنجاب اورصوبہ خیبر پختونخوا کی طرح برطانوی راج کا باقاعدہ حصہ نہیں تھا بلکہ سن سینتالیس تک بلوچستان، قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ کی ریاستوں پر مشتمل تھا۔ جن پر برطانوی ایجنٹ نگران تھا، ریاست قلات کے حکمران خان قلات میر احمد یار خان نے قیام پاکستان سے دو روز قبل اپنی ریاست کی مکمل آزادی کا اعلان کیا تھا اور پاکستان کے ساتھ خصوصی تعلقات پرمذاکرات کی پیشکش کی تھی۔ خان قلات کے اس اقدام کی دوسرے تمام بلوچ سرداروں نے حمایت کی تھی اور بلوچستان کی علیحدہ حیثیت برقرار رکھنے پر زور دیا تھا۔ لیکن پاکستان نے خان قلات کے اس اقدام کو بغاوت سے تعبیر کیا اور پاکستانی افواج نے خان قلات اور ان کی ریاست کے خلاف کارروائی کی۔ آخرکارمئی سن اڑتالیس میں ریاست قلات اورخان قلات پاکستان میں شمولیت پرمجبور ہو گئے۔ البتہ ان کے چھوٹے بھائی شہزادہ میرعبد الکریم نے قلات کی پاکستان میں شمولیت کے خلاف مسلح بغاوت کی اور آخرکار انہیں افغانستان فرارہونا پڑا۔ یہ پاکستان میں بلوچوں کے خلاف پہلی فوجی کارروائی تھی اور یوں بلوچوں اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بنیاد کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھی گئی۔
بلوچ ریاستوں کے ایک سو سال بعد افغانیوں کی ریاست افغانستان میں حکومت قائم ہوئی جبکہ بلوچوں کی مدد سے درانی سلطنت قائم ہوئی۔ درانی سلطنت کا بانی احمد شاہ درانی جسے احمد خان ابدالی بھی کہا جاتا ہے۔ ریاست قلات کے حکمران میرنصیرخان نوری نے بلوچ فوج اور دیگر بلوچ ریاستوں کے سربراہوں کی مدد سے احمد شاہ ابدالی کا ساتھ دیا اورمرہٹوں کے خلاف مشہور پانی پت کی لڑائی میں حصہ لیا تھا۔ نصیرخان نوری نے درانی سلطنت کے بانی احمد شاہ ابدالی کی سلطنت کوتوسیع دینے میں اہم کردارادا کیا۔ نصیر خان نوری نے پانی پت کا جنگ جیت لیا۔ انہوں نے فارس کے حکمرانوں سے احمد شاہ ابدالی کی جنگ لڑی اور ہرات جنگ میں فتح حاصل کی ، اس جنگ کے بعد احمد شاہ نے بلوچوں کوشال کوٹ تحفے میں دے دیا۔ شال کوٹ، موجودہ کوئٹہ کا قدیم نام ہے۔
ریاست قلات کا قیام 1512 عیسوی میں ہوا ،اس سے قبل یہاں ہندو حکمران تھے جنہیں ہندو سیوائی حکمران کہا جاتا تھا۔ میر قمبر نے ہندو سیوائی حکمران کو جنگ میں شکست دینے کے بعد اس علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ یوں قلات پرقمبرانی حکومت کا قیام عمل میں آیا،قمبرانی حکومت زیادہ مدت تک قائم نہیں رہ سکی۔ قمبرانی خاندان کے آخری حکمران میر حسن کی لاولدی کی حالت میں فوت ہو جانے کے نتیجے میں قلات کی حکمرانی کا سوال اٹھا کہ اب کس کو قلات کا حکمران بنایا جائے ؟ جس کے نتیجے میں قبائلی سرداروں نے آپس کے مشوروں کے تحت میرقمبر کے بھائی میراحمد کو قلات کا حکمران چنا۔ ریاست قلات میں ایوان بالا اور ایوان زیریں تشکیل دی گئی ، تو اس ترتیب سے قبائل کے سرداروں کو ایوان بالا اورایوان زیریں کارکن بھی بنایا گیا ۔ ان کے دربار میں جھالاوان اور ساراون کے سرداروں کے نشستیں مقرر کی گئیں ، تاریخی طور پر خان آف قلات کے زیرسایہ تمام بلوچ ریاستیں آتی تھیں جن میں ریاست مکران، ریاست خاران، ریاست لسبیلہ، ریاست حیدرآباد، ریاست میرپور خاص، ریاست خیرپور، ریاست ٹنڈو محمد خان، ریاست چانڈکا سمیت موجودہ پنجاب کے کھوسو، مزاری، دریشک، بزدار، رند، لغاری، جتوئی، لاشاری سمیت دیگر قبائل کی حکومتیں آتی تھیں۔ وادی سندھ اور پنجاب کی بلوچ آبادیوں کو پنجاب میں سکھ سلطنت کے بانی مہاراجا رنجیت سنگھ سے خطرہ لاحق رہتا تھا۔ پنجابی (سکھ) فوج، بلوچ علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتی تھی اور خان آف قلات ان بلوچ ریاستوں کی دفاع کے لئے ہروقت تیار رہتا تھا۔ جب خوشاب میں قائم سردارجعفرخان بلوچ کی حکومت پر رنجیت سنگھ اچانک حملہ کرتا ہے تو خان صاحب ان کی کمک کرنے بروقت نہیں پہنچ پاتا جس سے سردار جعفرخان شکست قبول کرلیتا ہے۔ اس فتح کا پنجابی سکھ پندرہ دن جشن مناتے ہیں۔ سردار جعفر خان بلوچ کی تلوار آج بھی پنجاب میوزیم میں رکھی ہوئی ہے۔ وہ ایک بہادر جنگجو سردار کہلاتا تھا۔
بلوچ معاشرے میں خان آف قلات، بلوچ قوم کے اتحاد و اعتماد اور قومی شناخت کی علامت مانا جاتا ہے۔ آج بھی کسی بھی بلوچ علاقے میں کسی بھی سردار یا نواب کی دستاربندی کی جاتی ہے۔ تو اس کے لئے احمد زئی فیملی یا خان صاحب کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ آپ اس بات سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بلوچ معاشرے میں خان صاحب کی کیا حیثیت ہے؟
بزرگ بلوچ سیاستدان نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت کے بعد موجودہ خان آف قلات میرسلیمان داؤد ناراض ہوکرلندن چلے گئے جہاں وہ ریاست قلات کی بحالی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ مختلف اوقات میں خان صاحب کو واپس لانے کی باتیں ہوئیں اور پیشرفت کی خبریں آتی رہیں جبکہ خان صاحب کی واپسی کے لئے بلوچستان اسمبلی سے ایک قرارداد اتفاق رائے سے منظوربھی ہوئی تھی۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ اراکینِ اسمبلی ایک جرگہ تشکیل دیں جو لندن میں مقیم بلوچ رہنما خان آف قلات میر سلیمان داؤد کے ساتھ مذاکرات کرے۔ مذاکرات کے ذریعے جرگہ خان قلات کی باعزت طور پرپاکستان واپسی کا بندوبست کرے تاکہ خان آف قلات بلوچستان میں جاری جنگ کے خاتمے میں اپنا کردارادا کریں۔ تاہم ان ساری کوششوں کو اسلام آباد کی آشیرباد حاصل نہیں تھی اس لئے یہ بارآور ثابت نہیں ہوسکیں۔ شاید ہماری سرکار بلوچ معاشرے میں خان کی اہمیت سے نابلد ہے۔ اگر دیکھا جائے بلوچ معاشرے میں خان آف قلات، بلوچ مرکزیت کی علامت اور نشانی ہے۔ اس کے بغیر بلوچ معاشرہ مکمل نہیں ہوتا ۔ ہماری سرکار کو دنیا کی مہذب ریاستوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے جیساکہ برطانیہ، جاپان، سمیت یورپ کے دیگر شاہی خاندان کوجو آئینی و قانونی حیثیت حاصل ہے۔ ان کی مراعات اور مشورے کو سرکاری طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ تاہم ہماری سرکار نے بلوچستان کی ریاستوں کے الحاق کے بعد شاہی خاندان کی معاشرتی اور سماجی حیثیت کا خاتمہ کیا جس کی وجہ سے بلوچ معاشرہ ون چیئرآپریشن کے نظام میں بگاڑ پیدا ہوگیا۔
قیام پاکستان کے بعد بلوچوں کی تمام ریاستوں کا خاتمہ کردیا گیا، ان کے سربراہان کی تمام مراعات کو منسوخ کردیا گیا۔ ان کی جائیدادیں ضبط کرلی گئیں۔ ریاست قلات کی رائل فیملی کی اراضی پر قبضے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ حکومت کوچاہیے کہ رائل فیملی کی قانونی حیثیت بحال کریں، ان کوعزت دیں۔ بلوچ معاشرے میں خان صاحب کی اپنی ایک پہچان اور شناخت ہے۔ ان کی تاریخی اور قانونی حیثیت ہے۔ حالانکہ بھارت نے حیدرآباداورجونا گڑھ ریاست کے نوابوں کی مراعات کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ ان کو تمام سرکاری مراعات ملتی ہیں۔ وہ ریاست کے سربراہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ بیرونی ممالک میں سرکاری وفود کا حصہ ہوتے ہیں۔ سرکاری طور پر دورے کرتے ہیں۔ لیکن ہماری سرکار لکڑ ہضم پتھر ہضم کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ ریاست قلات کی رائل فیملی کی جائیدادیں ضبط کرلی گئی ہیں کوئٹہ سے لیکر قلات تک ان کی اراضی کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا، ان پر شہراورکالونیاں بسائی گئی ہیں۔
رائل فیملی کے ساتھ زیادتی کے بعد قلات کے عام عوام کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ ان کے معاشی اور سماجی حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ آج بھی ضلع قلات کے عوام پانی، بجلی، گیس، تعلیم جیسی اہم بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ قلات ملک کے سرد ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ سردیوں کے چار مہینوں میں قلات شہر میں گیس کی سپلائی مکمل بند ہوجاتی ہے۔ جبکہ ضلع کے بیشترعلاقوں میں گیس کی سہولت میسرنہیں ہے جس کی وجہ سے لوگ ہربوئی جنگل سے لکڑی کاٹ کر چولہے جلاتے ہیں۔
حال ہی میں قلات میں ہربوئی کے مقام پر قدرتی گیس دریافت ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ ہربوئی ضلع قلات میں واقع ایک پہاڑی سلسلہ ہے جو سطح سمندر سے 9000 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس پہاڑی سلسلے کی خوب صورتی کی اہم وجہ یہاں موجود صنوبر کے نادر درخت، قدرتی چشمے، قیمتی جڑی بوٹیاں، پہاڑی چرند پرند اور جانور ہیں۔ خدشہ ہے کہ اگر گیس تلاش کرنے والی کمپنیاں اسی طرح اپنی کھوج میں لگی رہیں تو نہ صرف یہ جنگل مزید غیر محفوظ ہوگا بلکہ دنیا صنوبر کے ایک نایاب جنگل اور جنگلی حیات سے محروم ہوجائے گی۔ جبکہ دوسری جانب حکومت کے پاس مقامی لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے جس کی مثال ہمارے سامنے بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی سے نکلنے والی گیس ، چاغی میں سیندک اور ریکوڈک اور گوادر میں ڈیپ سی پورٹ جیسے میگا پروجیکٹس ہیں۔ جس کے ثمرات مقامی افراد کو نہیں مل رہے۔
قلات رائل فیملی سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی روبینہ عرفان قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمی تغیر کے اجلاس میں ہربوئی جنگل کو نیشنل پارک قراردینے کی تجویز دی تھی تاہم یہ مسئلہ تاحال جوں کا توں ہے۔ موصوفہ نے ضلع قلات میں زراعت کے شعبے کی بہتری کے لئے وفاقی حکومت کو ضلع قلات کے لئے چار ڈیمز بنانے کی منظوری بھی کروائی۔ تاہم گزشتہ دو سال سے ان ڈیمز کی تعمیر شروع نہ ہوسکی۔ یہ ڈیمز ہربوئی پہاڑی سلسلہ اور دیگر مقامات پر بارانی ندی نالوں پر تعمیر ہونے تھے تاکہ برساتی پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جائے اور اس پانی سے ضلع میں زراعت کے شعبے کو بہتر کیا جائے۔ ان ڈیمز سے یہاں پانی کی سطح کو اوپر لانا تھاکیونکہ پانی کی سطح ایک ہزار فٹ نیچے چلی گئی ہے۔ ان ڈیمز کی تعمیر سے واٹر ٹیبل کو بہتربنانے کا بھی منصوبہ تھا تاہم یہ منصوبہ فائلوں کی نذرہوگیا۔ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت پر ہے۔ زراعت کی بہتری کے لئے ڈیمز کی تعمیر کے علاوہ یہاں کے زمینداروں کو سولر ٹیوب ویلز دیئے جائیں کیونکہ موجودہ ٹیوب ویلز بجلی یا ڈیزل سے چلارہے ہیں جس سے ان کا بل اور دیگر اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب چوبیس گھنٹے میں صرف سولہ گھنٹے بجلی ملتی ہے۔ وفاقی حکومت نے گزشتہ سال بلوچستان کے متاثرہ اضلاع کے لئے 17500 سولر ٹیوب ویلز کی منظوری دی جن میں قلات ضلع بھی شامل ہے۔ تاہم یہ منصوبہ بھی سیاست کی نذرہوگیا۔
اسی طرح پورے ضلع میں سڑکوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ جگہ جگہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ اسی طرح اسپتال کی عمارتیں موجود ہیں تاہم ان میں سرجن سمیت دیگر اسٹاف کی کمی ہے۔ ادویات کا دور دور تک نام و نشان نہیں ۔ تعلیمی ادارے بھی عمارات کی حد تک موجود ہیں جہاں اساتذہ سمیت دیگر تعلیمی سہولیات میسر نہیں ہیں۔
حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان ایک شورش زدہ خطہ بن چکا ہے۔ لندن میں مقیم خان آف قلات میرسلیمان داؤد کی ناراضگی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ ایک معمولی شخصیت نہیں کہ اچانک ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے پاس قانونی دستاویزات ہیں۔ یہ دستاویزات قلات ریاست کے انگریز سے لیکر موجودہ پاکستانی ریاست کے ساتھ معاہدے کی دستاویزات ہیں۔ ان کی بین الاقوامی سطح پرایک قانونی حیثیت ہے۔ ان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ جوکوئی بھی ملک کو چلارہا ہے انہیں چاہیے کہ وہ خان صاحب سے ملے ان سے مذاکرات کرے تاکہ 1948 سے لیکر آج تک بلوچ قوم اور پاکستان کی سرکار کے درمیان جو تنازعہ ہے اس کا حل تلاش کیا جاسکے۔ یہ تنازعہ روز بروز زور پکڑ رہا ہے۔ اس کا خاتمہ کرنا سرکار کی ذمہ داری ہے۔ دنیا میں بڑی سے بڑی جنگیں مذاکرات سے حل ہوئی ہیں۔ ہماری سرکار کو بھی چاہیے کہ وہ خان صاحب کے مطالبات مانے۔ خان کو عزت دیں۔ خان کی فیملی کوبھی عزت دیں کیونکہ خان کی عزت بلوچ کی عزت ہے۔
’’ریاست قلات‘‘ ماضی، حال اور مستقبل
وقتِ اشاعت : May 30 – 2021