کوئٹہ :چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ لگتا ہے کہ بلوچستان ملک کا ارب پتی صوبہ ہے کہ یہاں تعینات پاکستان ایڈمینسٹریٹیوسروس کے آفیسران کو ملک کے دیگر صوبوں اوریہاں مقامی آفیسران سے زیادہ مراعات دی جارہی ہے۔ ان کوایک ارب روپے تنخواہ کی ادائیگی کس قانون اور کس قاعدے کے تحت کی گئی ہے اتنی بے رحمی سے یہاں کے وسائل کو لوٹا جارہا ہے کیا وفاقی سروس والے ہم سے زیادہ قیمتی و محترم ہیں کہ بلوچستان میں ان پر نوازشات کی بارش کردی جاتی ہے، بہتی گنگا میں سب ہاتھ دھو رہے ہیں
مقامی ڈی ایم جی آفیسران نے یہ مراعات کس قانون کے تحت یہ مراعات لی ہیں کیا ہم نے اس صوبے پر رحم نہیں کرنا یہ کس قانون کے تحت صوبے اور وفاق کے دو ایک گریڈ آفیسران کے درمیان تفریق کی جا رہی ہے۔ درخواست گزار کی استدعا منظور کرتے ہوئے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے کہ سابق ڈپٹی کمشنر کوئٹہ طاہر ظفر عباسی اور کمشنر کوئٹہ عثمان علی کے متعلق کی جانے والی انکوائریاں کس سٹیج پر ہیں اور محکمہ کاروائی میں تاخیر کیوں ہے کہ متعلق و دیگراعتراضات پر تفصیلی جواب جمع کریں۔
یہ حکم جسٹس جمال خان مندوخیل، اور جسٹس حمید بلوچ پر مشتمل بینچ نے درخواست گزار برخلاف سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اسلام آباد و دیگر کے خلاف دائر کردہ درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے دیا۔ درخواست گزار نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ وفاقی آفیسران کو وفاق کے پالیسی کے مطابق حکومت بلوچستان نے صوبائی خزانے سے اب تک اضافی تنخواہیں اور دیگر مراعات کی مد میں تقریبا مبلغ ایک ارب روپے ادا کیا ہے اس ایک ارب روپے کا پس منظر یہ ہے۔ کہ وفاق سے ہر صوبے میں آفسروں کی تعیناتی کی جاتی ہے۔
لیکن سال2012 کے بعد وفاقی آفیسران جنہوں نے وفاق پاکستان کی مفادات کی خاطر اپنی زندگیاں قربان کرنے کا حلف لیا ہوتا ہے۔ بلوچستان میں لا اینڈ آرڈر کا بہانہ بنا کر صوبہ میں خدمات انجام دینے سے کترانے لگے۔ انہوں نے بلوچستان میں کام کرنے کے لیے اپنے ہی لیے تقریبا دس سال قبل ایک مراعات کا پیکج بنایا جس کے سال میں مخصوص چھٹیاں بمعہ فیملی کے ریٹرن ٹکٹ اور ہر ماہ اضافی تنخواہ لینا شامل ہیں۔ حالانکہ جتنی مراعات انہیں پہلے ہی حاصل تھیں اس کا عشر عشیر بھی لوکل آفیسر کو حاصل نہیں ہے۔
جب کہ ان کی مراعات کی لسٹ پہلے ہی طویل ہے۔اس ایک ارب روپے سے اس صوبے کے غریب عوام کو پینے کا پانی مہیا کیا جا سکتا تھا۔ سکولوں کی حالت بہتر بنائی جا سکتی تھی۔ ہسپتالوں میں اچھی مشینری مہیا کی جا سکتی تھی۔ لیکن یہ سب کچھ بہتر نا سکا کیونکہ حکومت بلوچستان وفاق سے ان پیسوں کا مطالبہ کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتی ہے۔ بلوچستان کے مقامی آفیسران میں بہترین اور ایماندار ترین آفیسران موجود ہیں۔جو وزیراعلی اور چیف سکریڑی کے ماتحت ہونے کی وجہ سے ان کے اس خلاف قانون و آئینی اقدام کو ناپسند کرنے کے باجود کچھ نہیں بول سکتے ہیں اس وجہ سے ان تمام بلوچستان آفیسران کوبھی ملکی سطح پر حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے
اور یہ عمل ان کے لئے باعث بد نامی نہ بنیں جو کہ اس کا حصہ ہی نہیں ہیں۔ انصاف کے تقاضے پورے کیں جائیں چونکہ ریاست اور عوام میں اعتماد کا ایک رشتہ ہوتا ہے اس عمل سے سرکاری وسائل کا ضیاع اور ایک کروڑ تیس لاکھ بلوچستانی عوام کا حکومت پر کئے ہوئے اندھے اعتماد کو ٹھیس پہنچا ہے مقامی اور باہر کے آفیسران کے درمیان تفریق غیر قانونی اور غیر آئینی اعمال نظریہ پاکستان سے متصادم ہے آئین کے بر خلاف ملازمین میں تفریق کے اس عمل کو ختم کرنے کے لئے حکومت بلوچستان کو حکم صادر کیا جائے کہ صوبائی اور وفاقی سروس کے صوبے میں تعینات آفیسران کی تنخواہیں اور مراعات یکساں ہونی چاہے۔ مذکورہ تقریبا ایک ارب روپے کی خطیر رقم وفاقی حکومت سے وصول کروائی جائے تاکہ وہ بلوچستان کے غریب عوام پر خرچ ہو سکے۔ ان مراعات کی ادائیگی مفلوق الحال بلوچستان کے بجٹ سے بند کروائی جائے۔
اکاونٹنٹ جنرل بلوچستان کو حکم دیا جائے کہ وہ 2012 کے بعد اس مد میں آفیسران کو کی گئی اضافی تنخواہوں، جہاز کے ٹکٹوں اور ٹی اے ڈی اے کی مکمل تفصیلات ناموں کے ساتھ جمع کروائیں۔جہاں صوبائی اور وفاقی حکومت کے ملازمین کے درمیان تفریق قانون سے متصادم عمل کاا رتکاب ہیں وہی دفاتر میں غلط روایات ڈال رہے ہیں۔ عدالت سے مخفی نا رہے کہ وفاقی آفیسروں نے ان مراعات کا اتنا ناجائز فائدہ اٹھایا کہ جس آفیسر کی فیملی 4 یا 5 افراد پر مشتمل تھی اس نے بھی 15 افراد کا کلیم وصول کیا اور ایک آفیسر نے صرف ٹی اے کی مد میں ایک سال کے دوران 15 سے 20 لاکھ وصول کیے اس کی تفصیل اے جی آفس سے لی جا سکتی ہے۔وفاق نے ان آفیسران کے مراعات کے پیکیج کی منظوری کے وقت یہ کہا تھا کہ یہ رقم وفاق ادا کرے گا۔ وفاق نے اپنے کہنے کا پاس نہیں رکھا اور ساری رقم غریب بلوچستانی کی جیب سے ادا ہوتی رہی۔ جو کہ اب بڑھ کر تقریبا ایک ارب روپے ہو چکی ہے۔پاکستان ایڈمینسٹریٹیو سروس (سابقہ ڈی۔ایم۔جی) کے آفیسران بھی بلوچستان میں وقتا فوقتا صوبائی عہدوں پر تعینات ہوتے رہتے ہیں۔ تاہم ان کی تعیناتی کچھ وقت کیلئے ایک خاص مدت تک ہوتی ہے اور کچھ عرصہ بعد واپس ان کا واپس تبادلہ ہوجاتا ہے۔
یہ آفیسران بلوچستان میں صرف مدت ملازمت پوری کرتے ہیں تاکہ مزید ترقی حاصل کرسکیں۔سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی بلوچستان کہ مرسلہ محررہ 13-12-2019 جس میں 260 خلاف قانون و قاعدہ ملازمین بھرتی کرنے پر طاہر ظفر عباسی کے خلاف سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو کاروائی کرنے کا لکھا ہے تاحال کاروائی کیوں نہیں کی گئی ہے سیکرٹری اسٹبلشمینٹ ڈویژن اسلام آباد سے پوچھا جائے کہ صوبائی حکومت کے انکوائری کے باوجود سابق ڈپٹی کمشنر کوئٹہ طاہر ظفر عباسی کے خلاف تادیبی کاروائی کیوں نہیں کی جارہی ہے۔اور سابق کمشنر کوئٹہ عثمان علی کے خلاف انکوائری کس سٹیج پر ہے اور کون لوگ ہے جو اسلام آباد سے انکوائری میں مداخلت کر کے شفاف احتساب کی راہ میں رکاٹ بن رہے ہیں۔اور ساتھ بتادے کہ اب تک کتنے آفیسران جن پر بلوچستان میں کرپشن کے چارجز ہے یا تھے کے خلاف تادیبی کاروائی عمل میں لائی گئی ہے۔کیا ملکی نظام دو قوانین کے تحت چلائے جا رہا ہے جس میں صوبائی آفیسر ان کیلئے سزا جبکہ وفاقی سروس کے آفیسران اس سے مستثنی ہے۔
سیکرٹری اسٹبلشمینٹ ڈویژن اسلام آباد کو حکم دیا جائے کہ صوبے میں تعینات وفاقی سروس کے آفیسران کے خلاف تادیبی کاروائی کے اختیارات صوبائی حکومت کے صوابدید پر رکھا جائے اور صوبائی حکومت کی سفارشات کے پیش نظر اسٹبلیشمنٹ کے ریکارڈ میں تجویز کردہ سزا و کاروائی کا اندراج کیا جائے۔ سیکرٹری ایس اینڈ جی ڈی سے پوچھا جائے کہ کوئٹہ کینٹ میں پاس گروپ کے آفیسران کے لئے کرایہ پر لی گئی بنگلوں پر اب تک صوبائی حکومت نے کس قدر رقم خرچ کی ہے اور اس دوران کرایہ کی مد میں رہائش پذیر اسلام آباد کے بابووں سے کتنی رقم بطور کرایہ وصول کی گئی ہیں۔اور یہ بھی بتا دیں کہ بلوچستان میں ڈی ایم جی سروس کے کتنے آفیسران وفاق سے تعینات ہیں اور کن کن عہدوں پر رکھا گیا ہے۔ سیکرٹری ایس اینڈ جی ڈی بتائے کہ بلوچستان میں تعینات کتنے وفاقی آفیسران ہیں کہ جو بیرونِ ملک اس وقت اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے کیلئے مقیم ہیں جبکہ وہ سالوں سے تنخواہ بلوچستان حکومت سے لے رہے ہیں۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اسلام آباد اور چیف سیکرٹری بلوچستان کو حکم دیا جائے کہ آئندہ بیرونِ ملک کسی کورس کے لئے جانے والے آفیسران کی خدمات بلوچستان کی تعداد پر نہ رکھے جائیں ان کی خدمات واپس وفاقی حکومت کو کر دی جائے۔