عالمی یوم ماحولیات جو ہر سال 5جون کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے سے قبل ماحولیات کے ماہر عالمی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر عالمی درج حرارت محض دو درجہ سینٹی گریڈ بھی ہوا تو برف کی چٹانوں کا صفایا ہوجائے گا۔ ان چٹانوں پر بڑی تعداد میں سمندری مخلوقات کا انحصار ہے جو غذائی زنجیر یا فوڈ چین میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اس عمل سے سمندروں کی سطح 8فٹ تک بلند ہونے کا خدشہ ہے جس دنیا کے درجنوں سالی شہر سمند برد ہو جائیں گئے جس کے نتیجے میں ان شہوروں کے مکینوں اپنی زندگی بچانے کے لیے نقل مقانی کرنی پڑئے گی جو کہ ایک بہت بڑا انسانی المیہ ہوگا اس تباہی سے بچنے کے لیے دنیا بھر اور خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک کو متبادل انرجی نظام سمیت زمینی درجہ حضرات کم کرنے والے ترقیاتی منصوبے بنانے ہونگے، ہماری آج کی رپورٹ میں SDGs کے ماحول سے متعلق گولز 13.14.15کے ٹارگٹس تک پہنچنے بلوچستان میں ہونے والی کوششوں کا جائزہ لیا جارہا ہے،
سیکرٹری ما حولیات صبور خان کاکٹر کا کہا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے سال 2020تا 2030 ماحول تحفظ کا دس سالہ پروگرام ترتیب دیاگیا ہے،ماحول کے تحفظ کی اہمیت کو اجگر کرنے کے لیے پانچ جون کو پروکار تقریب کا انعقاد بھی کیا جارہا ہے جس میں بلوچستان کے ماہرین کے علاوہ ملک کے دیگر صوبوں کے ماہرین بھی درکت کریں گے۔تقریب کے مہمان خاص وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال ہونگے۔ان کا کہنا تھا کہ ماحول کے تحفظ کا دس سالہ پروگرام اقوام متحدہ کی قراداد 2019کی روشنی میں مرتب دیا گیا ہے
ایس ڈی جی گول 13 موسمی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لیے بلوچستان میں دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے گول 13 کے ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے بلو چستان کو سرسبز بنانا ضروری ہے وزیراعظم کے پروگرام ٹین ملین ٹری کی کامیابی کے لیے بلوچستان کی تمام آبادی کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارا محکمہ اپنے محدود وسایل کے اندر رہتے ہوے کام کررہا ہے۔اس کے علاوہ محکمہ جنگلات و جنگلی حیات۔زراعت۔لایو سٹاک کے باہمی رابطوں کو بہتر بنانے کی بھی کوشش ہورہی ہے۔آئندہ نسلوں کو صحت مند ماحول کی فراہمی کے لیے ماحولیاتی تحفظ کی تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔پرائمبری سے یونیورسٹی سطح کے تعلیمی نصاب میں ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں جدید ریسرچ کو مضامین کی شکل میں شامل کرنا انتہای ضروری ہے,
سیکرٹری ماحولیات نے مزید کہا کہ ایک خوشحال اور سرسبز بلوچستان کے خواب کی تعبیر کے لیے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی چیر میں ماحول تحفظ کونسل قائم کی گی ہے جس کے وائیس چیرمین چیف سکرٹری بلوچستان ہیں فناس۔زراعت۔جنگلات۔ماحولیات۔ انڈسٹری۔پی اینڈ ڈی۔ایس ایند جی اے ڈی کے سیکرٹریز اور ڈی جی ای پی اے اس کونسل کے ممبران ہیں،ماحول کا تحفظ اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے صوبے کے محفوط رکھنا وزیراعلیٰ بلوچستان کی اولین ترجحات میں شامل ہے جس میں بلوچستان انوائرمنت پروٹیکسن ایکٹ 2012 پر عملدرامد کو یقینی بنانا سرے فہرست ہے صوبائی دارالحکومت وادی کوئٹہ میں موجود کریش پلانٹ نکال دیے گئے ہیں اسی طرح اینٹوں کے بٹھوں کو بھی نکال دیا گیا محکمے میں ماہرین کی کمی کو پورا کیا جارہا ہے۔صوبے کو مختلف ماحولیاتی زونوں میں تقسیم کیا گیا ہے ہر زون کی تنکنکی طور پر مانیٹرنگ کی جاے گی اس اقدام کی منظوری وزیراعلیٰ نے دے دی ہے۔
ماحول کا تحفظ صرف محکمہ ماحولیات کا فرص نہیں ہے اس اہم زمہ داری کو سرانجام دینے کے لیے تمام محکموں کو ہمارا ساتھ دینا ہوگا،ماحول کو محفوط بنانے کے لیے مختلف ٹیکسوں کا نفاظ بھی عمل میں لایا جارہا ہے محکمہ خزانہ کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت جاری کردی گی ہے۔تمام ترقیاقی منصوبوں کی تکنکی پڑتال کے لیے محکمہ ماحولیات کو پی ڈی ڈبیلو ڈی اور ڈی ایس سی میں مستقل نمائندگی دینے کی ہدایت وزیراعلیٰ نے دے دی ہے اس اقدام کا مقصد ماحول کو ترقیاتی عمل سے ہم اہنگ کرنا ہے۔وزیراعلی کے ویڑین پر عملدرامد کے لیے پی ایس ڈی پی میں 10موبایل ماحولیاتی اسٹیسن قایم کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے جس سے 10اضلاع کا ماحولیاتی ڈیٹا جمع کیا جاے گا۔
ماحول کی حفاظت ہماری اور عوام کی قانونی اور معاشرتی مشترکہ زمہ داری ہے۔بلوچستان میں ترقی کے مواقع کی کثرت ہے جس میں مائینگ سمیت دیگر منصوبوں کو صحیح طرح سے ریگولیٹ نہیں کریں گے تو موجودہ اور آیندہ نسلوں کے لیے انتہائی خطرنات ثابت ہوگا ایک پائیدار اٹینسو ریگولیٹری فریم ورک کے ساتھ تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کوششیں کرنا ہونگی تب ہی پائیدار ترقی اور محفوظ ترقی کے گولز تک پہنچا جا سکتا ہے،ہمارے محکمے کے افیسرز فضائی الودگی۔
زمینی آلودگی۔واٹر پلوشن۔اواز کی پولشن کے خاتمے کے لیے کام کررہے ہیں،مٹی آلودگی یا مٹی کی آلودگی زمین کے انحطاط کے ایک حصے کے طور پر زین بائیوٹکس کیمیکلز کی موجودگی یا قدرتی مٹی کے ماحول میں دیگر ردوبدل کی وجہ سے ہوتی ہے۔پانی کی آلودگی آبی آلودگی آبی جسموں کی آلودگی ہے، عام طور پر انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں۔ آبی اداروں میں مثال کے طور پر جھیلیں، ندیوں، سمندروں، پانی اور زمینی پانی شامل ہیں۔شور کی آلودگی، جسے ماحولیاتی شور یا صوتی آلودگی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، انسانی یا جانوروں کی زندگی کی سرگرمیوں پر بہت سے اثرات ڈالنے والے شور کا پھیلاؤ ہے،بلوچستان کے انیس اضلاع میں لوگوں کے مکانات اور باغات مکمل تباہ ہوئے اور حکومت کی جانب سے ابھی تک انکی بحالی ممکن نہ ہوسکی۔
سیکرٹر ی جنگلات و تحظ قدرتی حیات صدیق خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ بلوچستان پاکستان کے تقریبا 43 فیصد رقبے کی نمائندگی کرتا ہے اور اس میں متنوع ٹپوگرافی، ماحولیاتی نظام کی مختلف حالت، اور جانوروں اور پودوں کی تنوع موجود ہے۔ محکمہ جنگلات و وائلڈ لائف قدرتی جنگلات، رنگین لینڈز، واٹرشیڈز، وائلڈ لائف اور مٹی تحفظ کے انتظام کا ذمہ دار ہے، جو بلوچستان حکومت کے قواعد، 2012 ء کے تحت محکمے کو دی گی ہیں ِجنگلات کا شعبہ سماجی و معاشی ترقی اور عام ماحولیاتی استحکام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ محکمہ جنگلات اور وائلڈ لائف کا کام پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے ساتھ منسلک ہے، خاص طور پرSDGs 14 کے گول 14 اور 15 کا ہدف۔
ایس ڈی جی ہدف 14 میں “پائیدار ترقی کے لئے سمندروں، سمندروں اور سمندری وسائل کا تحفظ شامل ہے۔ اس ہدف کے تحت یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ساحلی اور سمندری علاقوں کے کم سے کم 10 فیصد علاقوں کو تحفظ فراہم کریں جو قومی اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ہے اور بہترین دستیاب سائنسی معلومات پر مبنی ہے۔ اب تک، محکمہ نے پاکستان میں پہلے میرین پروٹیکٹڈ ایریا کا اعلان کیا ہے جسے آسٹولا میرین پروٹیکٹڈ ایریا کہا جاتا ہے۔ بلوچستان کے ساحل کے ساتھ ساتھ اس طرح کے دیگر قدرتی حسن سے مالا مال علاقوں کو محفوظ بنانے کی کوششیں جاری ہیں ایس ڈی جی ٹارگٹ 15 کا تعلق ” ماحولیاتی نظام کے پائیدار استعمال کی حفاظت، بحالی اور اس کو فروغ دینے ہے، جنگلات کا مستقل طور پر انتظام، جنگجو صحرا، اور زمینی انحطاط اور جیوویودتا نقصان کو روکے رکھنا” ہے۔
اس ہدف کے تحت کلیدی ذمہ داریوں میں ہر قسم کے جنگلات کے پائیدار انتظام کے نفاذ کو فروغ دینا، جنگلات کے کٹاؤ کو روکنا، تباہ حال جنگلات کی بحالی کرنا اور جنگلات کے فروغ اور جنگلات کی کٹائی کے عمل کو روکنے کے سخت اقدمات کرنا ، تباہ شدہ سرزمین کی بحالی۔ اور جنگلی حیات کی رہائش گاہوں اور نباتات اور حیوانات کی نسلوں کی حفاظت کرنا۔ اس ذمہ داری کے تحت محکمہ کی بڑی کوششیں یہ ہیں مقامی ابادیوں کو مراحات دے کر 123 ریاستی جنگلات کو تحفظ دیا گیا، 3 نیشنل پارکس، 14 وائلڈ لائف سینکچرری اور 8 کمیونٹی گیم ریزرو کے ساتھ 8 گیم ریزرو کا انتظام، جنگلات اور جنگلات کی کٹائی کی روک تھام سے قدرت جنگل کے احاطہ میں بہتری، آب و ہوا میں تبدیلی کیاثرات سے بچاوکے لیے، آب و ہوا کے علاقوں جیسے چیک ڈھانچے، گیبین ڈھانچے بنائے گئے جن کے تحفظ کی ذمہ داری شجر کاری میں تعاون کرنے والے شہری انجام دیتے ہیں جو، مٹی اور پانی کے تحفظ کی سرگرمیاں بھی انجام دیتے ہیں۔
لکڑی کی طلب کو پورا کرنے اور قدرتی جنگلات پر دباؤکوکم کرنے کے لیے فصلوں کی طرح کھیتوں میں جنگلات لگانے کی سرگرمیوں کو فروغ دیا جارہا ہے، جس میں کسانوں کو پودے لگانے (پودے اور کٹنگ)، شیلفیلٹ پلانٹ، اور بلاک لگانے کی تربیت کے ساتھ پودوں کی فراہمی اور درختوں کی شجرکاری مہم کے دو سالہ انعقاد کے لئے عوامی ضرورتوں کو پور کیا جاتا ہے ، بلوچستان کے تمام اضلاع میں نرسریوں کی ترقی کے لیے رینج لینڈ میں بہتری کی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے مویشیوں کی چارہ گاہیں اور مویشیوں کی افزائش کے لیے مدد کرنا شامل ہے۔
محکمہ زراعت کے شعبہ ٹرینگ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر امان اللہ نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی سمجھنے کے لیے ہمیں گلوبل وارمنگ یا زمین کے بڑتے ہوے درجہ حرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ماہرین ارضیات کے مطابق یک اشاریہ 8تک پہنچ چکا ہے یہ درجہ حرارت 2تک پہنچنے کے بعد سارے گلیشیر پگیل جاہیں گے جس سے دیاوں کے پانی کا بہاو بڑھ جاے گا سمندر کی سطح بلند ہوجاے گی۔جس سے ساحلی علاقوں کی ابادی کو نقل مقانی کرنے پڑھے گی۔: پاکستان کا زمین کے درجہ حرارت میں آضافے کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے مگر اس کے منفی اثرات پاکستان میں سب سے زیادہ بلوچستان پر مرتب ہورے ہیں فضا میں کاربن ڈائی ایکسایڈ کی زیادتی سے سورج کی شعائیں واپس نہ جانے کے باعث بڑھ جاتی ہے صنعتی میدان میں ترقی کرنے والے ممالک اس کے زمہ دار ہیں۔اس وجہ سے موسم کا ٹا ئم ٹیبل تبدیل ہوتا جارہاہے جسے بے موسمی بارشیں۔ضرورت کے وقت بارشوں کا نہ ہونا ہے موسمی تبدیلی سے بلوچستان سے بارشیں روٹھ گی ہیں جس سے صوبے کے بہت سے اضلاع کو خشک سالی کا سامنا ہے۔
محکمہ زراعت ریسرچ اینڈ ایکسٹنشن جدید تحقیق کے مطابق پھلوں اور فصلوں کے بیج تیار کرتا ہے ان بیجوں کے بارے میں ہم صوبے بھر کے کسانوں اور زرعی افیسرز کو تربیت دیتے ہیں 2014سے اب تک ہم 10ہزار کسانوں اور افیسرز کو تربیت دے چکے ہیں۔جنوری اور فروری کی بارشیں بلوچستان سے روٹھ چکی ہیں: 1935کے زلزلے کی تصویروں میں کوئٹہ کی چاروں اطراف برف دیکھای دہے رہی تھی۔اب نہ برف ہے نہ بارش اسی وجہ سے زیرزمین پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے،موسمی تبدیلوں سے زراعت اور کاشت کاری کا رویتی نظام مکمل طور پر بدل چکا ہے۔بیج کو زمین سے نکلنے کے لیے مقررہ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے مگر موسمی تبدلی سے مطلوبہ درجہ نہیں مل رہا،: اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوے نصیر اباد جعفر اباد جو چاول کی کاشت کے علاقے ہیں وہاں درجہ حرارت اتنا بڑھ جاتا ہے کہ دانہ ہی نہیں بن پاتا اگر بنتا ہے تو پیچکا ہوا انتہای کمزور۔
موسمی تبدیلوں کے منفی اثرات سے زراعت کو محفوظ بنانے اور موسمی تبدیلون کا مقابلہ کرنے والی فصلیں اور پھل کاشت کررہے ہیں اس وقت ہم وزیراعظم نیشنل ایگریکلچر ایمرجنسی پروگرام جو 2019سے شروع ہوا ہے جو ملک بھر میں چل رہا ہے اس کے تحت فصلوں پھلوں کے بیج کی تیاری تقسیم اور کاشت کاری کی تربیت دی جارہی ہے اس پروگرام کے تحت ہم چاول گندم تیل پیدا کرنے والی فصلوں کی پیدوار کو موسمی تبدیلوں سے بچانے کے لیے عملی جدوجہد کررہے ہیں کسانوں کو کم قیمتوں پر بیج اور مفت تر بیت دی گی جس کا پہلہ نتجے میں ہماری جدوجہد کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی سے ہمکنار کیا ہے اس سال ریکارڈ پیداورا ہوی ہے بلوچستان میں خردنی تیل کی پیداوار روز بروز بڑھ رہی ہے انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز ضلع کوہلو کی یونین کونسل اوریانی میں ہونے والی زالہ باری نے کپاس اور مریچ کی تیار فصل کو تباہ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنی کارکردگی کو سیکرٹری زراعت سمیت دیگر اعلیٰ حکام کو ایک وٹس اپ گروپ کے زریعے اگاہ کیا جاتا ہے،
سیاسی وسماجی شخصیت مختار احمد چھلگری کا کہناتھا کہ زمین کے بڑھتے درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے موتبادل انرجی کے طریقہ کار کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اس سال حکومت بلوچستان نے نصیرآباد ڈیویڑن میں ایک پایلٹ پروجیکٹ متعارف کروایا ہے جس کے تحت لوگوں کو بائیو گیس پالنٹ بنا کر دیے جائے گئے وزیر اعلی نے اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے جسے حالیہ بجٹ میں شامل کی جارہا ہے ۔ پانی اور انرجی یا توانائی کا بہتر استعمال،بہتر ٹرانسپورٹ سروس شروع کی جاے تاکہ زاتی گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔
قدرتی وسایل کو زمہ داریاور محتاط طریقے سے کیا استعمال کیا جاے۔پھل اور بخیر پھل واے درخت زیادہ سے زیادہ لگاے جاہیں ان کی دیکھ بحال اپنے بچوں کی طرح کی جاے، رہی بات Sdgs گولز کی تو پاکستان کی جانب سے ایسے عالمی معاہدوں پر دست خط تو سب سے پہلے کردیے جاتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد کرنے میں سنجدیگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا جس وجہ سے دینا بھر میں یہاں کے عوام کی بے عزتی ہوتی ہے حکومت بلوچستان کے اداروں کی Sdgs 13 کے تحت عملی اقدامات کی کارگزاری ان کی فائلوں تک ہی محدود ہے ماحولیاتی تبدیلوں کے خطرات سے محفوظ رہنے کے لیے موسمی تبدیلی کے مسئلے سے نسل نو کو تعلیمی نصاب کے زریعے اگاہ کیا جاے۔زندگی گزارنے کے طریقوں کو بدلا جاے۔
چائلڈ رائٹس مومنٹ بلوچستان کے کورڈینٹر عبدالحی ایڈوکیٹ نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت، یونیسیف اور طبی جریدہ دی لینسیٹ کی ایک مشترکہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بچوں کا مستقل خطرے سے دوچار ہے کیونکہ کوئی بھی ملک ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچاؤ کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کررہا ہے۔ تمام ممالک ماحولیاتی تبدیلی کے مضمرات پر قابو پانے اور بچوں کی بہتر نشوونما کے لیے ضروری صاف اورصحت مند ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق، ”ماحولیاتی تبدیلی، حیاتیاتی انحطاط، بڑے پیمانے پر مہاجرت، تصادم کے واقعات، بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور تجارتی مقاصد کے لیے بچوں کے استعمال نے دنیا کے ہر ملک میں بچوں کی صحت اور ان کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔‘ خوشحال ملکوں میں بچوں کے بقاء اور نشونما کے زیادہ بہترامکانات ہیں لیکن ان ممالک کی طرف سے کاربن کے حد سے زیادہ اخراج کے سبب تمام بچوں کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بچوں کی بہتری کے حوالے سے جن تین پیمانوں، یعنی بچوں کی بہتر نشوونما، پائیداری اور مساوات کی بنیاد پر ملکوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ان پر کوئی ایک بھی ملک پورا نہیں اترسکا۔دنیا کے مختلف علاقوں میں ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر خواتین اور بچے ہو رہے
معروف دانشور ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کہا کہ بلوچی میں کہاوت ہے کہ(جاو شہروں میں گل سڑ جاو)۔ جس بلوچستان کے لوگ زمینی درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے موسموں میں آنے والی تبدیلوں کے منفی اثرات سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں حالانکہ اس میں صوبے کے لوگوں کا قصور بھی کوئی نہیں،ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت ہمارے ہاں موسمی تبدلیاں زیادہ قہر بھر پا کررہی ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں ایک تو لوگوں کواگاہی ہی نہیں ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم صدیوں سے اچھی بری سب روایتوں کو سینے سے لگائے جینے کو باعث فغر سمجھتے آرہے ہیں، دنیا کی طرح موسموں میں آنے والی تبدیلوں کے مقابلے کا کسی نے کبھی سوچا ہی نہیں جنوری فروری میں آنے والی بارشوں کے رک جانے کے باوجود ہم وہی پرانی فصلوں کی کاشت صدیوں پرانے طریقوں اور وقتوں میں کرنے پر بضد ہیں،تیسری وجہ ان برے اثرات سے اگاہ کرنے اور تحفظ دینے کے زمہ دار ہمارے حکمران سیاست دان خود لا علم ہیں، اس اہم ترین مسلے کے بارے میں موجودہ اور آنے والی نسل کو آگاہ کرنے کے عمل کا آغاز تک نہیں ہوسکا کسی نصابی کتاب میں موسمی تبدیلوں کے اثرات اور نقصانات بارے ایک مضمون بھی شامل نہیں ہے۔حکومتی اداروں کی کاکردگی ان افسران کی ضرورتوں کے گرد گومتی دیکھاتی دیتی ہے۔
سیکریٹری ایریگیشن بلوچستان علی اکبر بلوچ نے بتایا کہ ماحول کے تحفط اور اس کے اثرات سے عوام کو بچانے کے لیے وزیر اعلی اور چیف سیکرٹر ی کی ہدایات پر عمل فوری عمل درامد کرایا جاتا ہے میں بھی صوبائی ماحول تحفظ کونسل کا ممبر ہوں گوادرساحلی تحصیل پسنی میں 170ملین روپے کی لاگت سے *شوروپروٹیکشن وال کا تعمیراتی کام تکمیل کے مراحل میں داخل ہوگیا وزیر اعلیٰ کے خصوصی احکامات اور ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کی مانیٹرنگ کی بدولت ترقیاتی منصوبوں پرکامیابی سے عملدرآمد جاری ہے ساحلی پٹی ہر واقع تحصیل پسنی میں سمندری کٹاؤ کی روک تھام کیلئے ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ کے ایگزیکٹیو انجینئر جنید گچکی اور سب انجینئر گلاب بلوچ کے زیر نگرانی پراجیکٹ ساِئٹ پر 1120میٹر طویل حفاظتی بند پر اسٹون پچنگ کے جاری تعمیراتی منصوبے کا کام مکمل ہونے سے علاقے کے لوگوں بڑے نقصانات سے محفوظ ہو جائں گئے
ان کہنا تھا کہ پہلے مرحلے میں کنکریٹ کے بلاک رکھے جائینگے،جیوٹیکسٹائل شیٹ بچھائی گئی ہے ا وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان کے خصوصی فنڈز سے پسنی شہر کے جنوب میں سمندری کٹاؤ کو روک تھام کے لیے 170 ملین روپے کی لاگت سے شوروپروٹیکشن وال کی تعمیراتی کام کا پہلا مرحلہ رواں ماہ میں مکمل ہوجائے گا، پروٹیکشن وال کی لمبائی 1120 میٹر ہے جس کی بھرائی کا کام مکمل ہوچکا ہے اسٹون پچنگ کے بعد کنکریٹ کے بلاک رکھنے کا کام شروع کیا جائے گا انہوں نے بتایا کہ حفاظتی بند کو محفوظ بنانے کے لیے جیوٹیکسٹائل کارپیٹ شیٹ باہر سے منگوا کر بچھائی جارہی ہیں انہوں نے کہا کہ رواں ماہ کے آخر میں پہلے مرحلے کا کام پائیہ تکمیل کو پہنچے گا جس کے بعد تاکہ گرمی کے موسم میں سمندری کٹاؤ سے لوگوں کے رہائشی مکانات محفوظ ہو جائیں گئے انہوں نے کہا کہ وہ بذات خود اس کام کی نگرانی کررہے ہیں سابق نگران صوبائیء وزیر میر نوید کلمتی کی تجویز پر وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے ساحلی تحصیل پسنی میں سمندری کٹاؤ کی روک تھام کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔
BUITEMS کی لیکچرار عروج خان نے بتایا کہ قوامِ متحدہ کے ادارے ایف اے او اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی طرف سے31 مئی کو شائع ہونے والی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متائثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں دسویں نمبر پر ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آنے والی بد ترین موسمیاتی تبدیلیوں کے پیچھے“لانینا”ہے جو اکتوبر 2020 سے مسلسل موسم کو متاثر کر رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم ان موسمیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لیں، لا نینا کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ دراصل بحر اوقیانوس میں ہونے والا ایک موسمیاتی مظہر ہے جس کے تحت تیز ہوائیں جنوبی امریکہ سے گرم پانیوں کو سمندر کی سطح پر لا کر انڈونیشیا کی طرف لے جاتی ہیں۔ جیسے جیسے گرم پانی مغرب کی طرف جاتا ہے تو ٹھنڈا پانی گہرائی سے اوپر آ کر گرم پانی کی جگہ لے لیتا ہے۔
یہ مظہر ہر چند سال بعد دیکھنے میں آتا ہے۔ عام حالات میں خطِ استوا پر ہوائیں گرم پانیوں کو مغرب کی طرف ہی دھکیلتی ہیں لیکن لانینا مظہر کے تحت ہوائیں بہت تیز ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے بحر اوقیانوس کے خطِ استوا کے علاقے میں عام دنوں کے مقابلے میں پانی قدرے ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ یہ تبدیلی اگرچہ چند ڈگری کی ہی ہوتی ہے لیکن یہ ساری دنیا کے موسمی حالات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ عموماً بادل گرم سمندری پانیوں کے اوپر بنتے ہیں لیکن لانینا ان گرم پانیوں کو مغربی بحرِ اوقیانوس میں لے جاتا ہے جس کا مطلب ہوا کہ انڈونیشیا اور آسٹریلیا میں عام حالات کے مقابلے میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس پیچھے رہ جانے والے ٹھنڈے پانی کی وجہ سے جنوب مغربی امریکی ریاستوں میں عام حالات کے مقابلے میں کم بارشیں ہوتی ہیں۔
لانینا مظہر کے عمل میں آنے میں صرف سمندر ہی نہیں بلکہ فضائی ماحول بھی حصہ لیتا ہے۔ شکر ہے کہ محکم? موسمیات قریب ایک سال پہلے ہی اس کی پیشین گوئی کر سکتا ہے۔ یہی مظہر دنیا بھر جس میں پاکستان بھی شامل ہے، میں طوفانوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔ لانینا مظہر کی اتنی تفصیل بتانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ پاکستان میں ہونے والی بد ترین موسمیاتی تبدیلیوں کے پس پردہ لانینا ہی ہے۔ آنے والے دنوں میں قحط سالی صورتحال کو بد تر کر سکتی ہے جس سے زراعت اور لائیو اسٹاک پانی کی کمی کی وجہ سے شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے محکم? موسمیات کے مطابق پچھلے چھ ماہ میں بارشیں معمول سے 41.5 فی صد کم ہوئی ہیں جس میں بلوچستان میں صورتحال بد ترین رہی اور یہاں بارشیں معمول سے 74.5 فی صد کم ہوئیں۔
اگلے دو سے تین ماہ میں بلوچستان میں درج حرارت مزید بڑھنے کی بھی پیشین گوئی ہے جس کی وجہ سے زراعت کیلئے خصوصاً اور باقی زندگی کیلئے عموماً حالات بد ترین ہونے والے ہیں۔زیادہ درج حرارت کی وجہ سے باغات اور کھیتوں میں کھڑی فصلوں کو معمول سے زیادہ پانی درکار ہو گا۔ موسمِ سرما سے پہلے اور اس کے دوران ان کم بارشوں کی وجہ سے بلوچستان کے جنوبی حصوں میں قحط سالی جیسے حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ بد قسمتی سے بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جو غذائی کمی اور غربت کے ساتھ ساتھ غذائیت میں کمی کے حوالے سے سرِ فہرست رہتا ہے۔ 2020 میں یہاں کے لوگوں نے مہنگائی، ٹڈی دَل کے حملے اور قحط سالی جیسے حالات کا سامنا بھی کیا جس کی وجہ سے کوویڈ-19 کا مقابلہ بھی مشکل تر ہو گیا۔
بلوچستان کو ہر دس سالوں میں سے چار سال قحط سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں کے 85 فی صد لوگوں کا ذریع? معاش زراعت سے منسلک ہے اور گذشتہ کئی سالوں میں مقامی آبادی کو درپیش حالات کی وجہ سے شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ معیشت اور زندگی دونوں ہی متائثر ہوئے ہیں۔ کم بارشوں کی وجہ سے زیرِ زمین پانی کی سطح بھی مزید کم ہو گئی ہے۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کے چکر جسے
ہائڈرولوجیکل سائیکل کہتے ہیں، پر شدید برا اثر پڑنے والا ہے۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بلوچستان اور سندھ میں گرمیوں کا دورانیہ زیادہ جبکہ سردیوں کا دورانیہ کم ہو جائے گا۔ بارشوں میں کمی کی وجہ سے بلوچستان کے وسطی اور جنوبی اضلاع میں درمیانے درجے کی قحط سالی کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ جیوانی، پنج گور، پسنی، تربت اور قلات متاثرہ اضلاع میں سے شدید ترین متاثر ہوئے ہیں جبکہ صورتحال دالبندین، خضدار، اورماڑہ، کوئٹہ، سبی اور ڑوب میں بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔ بلوچستان کے مغرب اور جنوب مغربی اضلاع میں دسمبر سے مارچ تک بارشیں ہوتی ہیں اور اپریل سے نومبر تک یہاں بہت ہی کم بارشیں ہوتی ہیں۔ سردیوں میں کم بارشوں کی وجہ سے بلوچستان کے جنوبی حصوں میں درمیانے درجے کی قحط سالی کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ ان اضلاع میں چاغی، گوادر، ہرنائی، کیچ، خاران، مستونگ، نوشکی، پشین، پنج گور، اور و اشک شامل ہیں۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ جون سے ستمبر 2021 تک بلوچستان کے مختلف حصوں میں صورتحال کیسی رہے گی۔ شمال مشرقی بلوچستان میں ستمبر کے پہلے ہفتے میں ہلکی سے درمیانی سطح کی بارش کی توقع ہے۔ اس بارش سے گندم کی فصل کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
وسطی بلوچستان میں جولائی کے آخر اور اگست میں بارش ہو سکتی ہے جس سے درج? حرارت میں معمول سے ہٹ کر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اس لئے ان علاقوں میں باغات اور کھڑی فصلوں کو خطرناک صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اقوامِ متحدہ کی مذکورہ بالا رپورٹ میں مگر سب سے پریشان کن بات سندھ اور بلوچستان میں کی جانے والی غذائی کمی پہ تجزیہ کی وہ اسٹڈی ہے جس کے تحت ان دونوں صوبوں کے 19 اضلاع میں 3.82 ملین لوگ غذائی کمی کا شکار ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں سے تقریباً دس لاکھ لوگ ایسے ہیں جو شدید ترین غذائی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر ایکشن لینے پر زور دیا گیا ہے تاکہ جلد سے جلد لوگوں تک خوراک پہنچائی جائے اور قیمتی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ ان اضلاع میں چاغی، گوادر، واشک، پنج گور، نوشکی، ڈیرہ بگٹی، لسبیلہ، خاران اور کیچ شامل ہیں۔ اس کی وجوہات میں مہنگائی کے ساتھ ساتھ، ٹڈی دَل کے حملے، سیلابی ریلے، کچھ مقامات پر قحط جیسی صورتحال اور کوویڈ-19 شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے وضع کردہ پائیدار ترقی کے عالمی مقاصد یا ایس جی ڈیز میں سے تیرہواں مقصد خراب موسمیاتی حالات کو قابو میں لانا ہے۔ اس مقصد کے لئے دنیا بھر کے تمام ممالک بشمول پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ایسی ماحولیاتی پالیسیاں بنانا ہوں گی جن پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ جیسے کہ درختوں کی تعداد بڑھانے کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود درختوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ انسانوں پر توجہ دی جائے۔ خوراک اور پانی کی کمی جیسے مسائل کو حل کیا جائے۔ اچھی پیداوار کے لئے جدید زرعی طریق? کار سے کسانوں کو روشناس کرایا جائے۔ کھاد اور اچھے بیج اور زرعی مشینری پر سبسڈی دی جائے۔ بائیو ڈاؤرسٹی کنزرویشن پہ توجہ کے ساتھ ساتھ انڈسٹریز کو قانون کے تابع لایا جائے۔ بہت کچھ کرنا باقی ہے پر حکومتی ترجیحات میں اپوزیشن کو لتاڑنا شاید سب سے اہم ہے۔
لوکل کونسلز ایسوسی ایشن بلوچستان کے صدر عابد لہڑی کا کہنا تھاکہ پائیدار ترقیاتی کے اہداف کا حصول مقامی حکومتوں کے تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے جمہوری حکومت کی تبدیلی کے معاملے پر جب بھی بات ہوتی ہے تو اکثر اوقات اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا سوال چھیڑا ہی نہیں جاتا مقامی نظامِ حکومت ائینی فرض کے باوجود ماضی کی طرح موجودہ جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کے لیے کبھی بھی ترجیح نہیں رہا۔ جبکہ مقامی اداروں کو غیر مؤثر رکھنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔ حتیٰ کہ وہ سیاسی جماعتیں جو صوبائی خودمختاری کی تحریک کی علم بردار بنتی رہی ہیں وہ بھی اختیار کو نچلی سطح پر منتقل کرنے پر راضی نظر نہیں آتیں بلوچستان سمیت ملک کے تمام صوبوں مقامی حکومتوں کے انتخابات نہ کرو کر تمام صوبائی اور مرکزی حکومتیں آئین پاکستان کی توہین کی مرتکب ہو ہی ہیں بلوچستان حکومت کی مقامی حکومتوں سے نفرت کی بہت سی مثالوں میں سے ایک یہ ہے کہ صوبائی سطح پر ماحول کے تحفظ کے لیے وزیراعلی کی سربراہی میں قائم ای پی اے کونسل میں لوکل گورنمنٹ کے سیکرٹری کو چھوڑ کر تمام محکموں کے سیکرٹریز کو شامل کیا گیا ہے،موسمی تبدیلیوں کے خطرات میں حکومتی عدم دلچسپی کی وجہ سے روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اس کے برعکس دنیا بھر میں ایس ڈی جی گولز کے حداف کو حاصل کرنے کے لیے مقامی حکومتوں کو مالی تیکنکی اختیارات دیے جارہے۔
بلوچستان الائنس براے لیڈ ایس ڈی جیز کی کوارڈینٹڑ حمیدہ نور کا کہنا تھا کہ ایس ڈی جیز گولز کے ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے پبلک پرائیوٹ پاٹنرشپ کا فقدان ہے،5 برس گزرنے کے باوجود سرکاری اداروں کی طرف سے کیا جانے والا کام عوام کی نظروں سے اوجھل ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان الائنس براے لیڈ ایس ڈی جیز کی کور کمیٹی نے پبلک سیکٹر میں ایس ڈی جیز گولز کو حاصل کرنے کے لیے ہونے والے اقدامات کو ناکافی کرار دیتے ہوے الائنس کے تین ماہ کے ایکشن پلان کو حتمی شکل دی ہے، پاکستان کی جانب سے ان گولز کے حصول کے لیے کیے جانے والے عالمی سطح کے معائدوں پر مقامی سطح کے نمائندوں کو ساتھ لے کر ایس ڈی جیز کے گولز کو حاصل کرنا ہے تاکہ ہر علاقے کی ترقی کے لیے بنائی جانے والی حکمت عملی کو وہاں کے لوگ خود بنائیں تاکہ مقامی لوگوں کی انر شیپ شامل ہو، ہمارا کام پہلے ممبران کو گاہ کرنا ہے پھر عوام کو ایس ڈی جیز کے گولز کے حصول میں مقامی حکومتوں کی ہمیت سے آگاہ کرنا ہے، الائنس گورنمنٹ اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کی ایڈوکیسی کرئے گااور سرکاری اداروں اور غیر سرکاری اداروں کے درمیان رابطوں کو بہتر بنانے پر بھی کام کرئے گا ان کا کہنا تھا کہ 2019 کی رپورٹ میں پاکستان نے گول 13کے بارے میں اپنے اقدامات سے آگاہ کیا تھا مگر گولز14.15 کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا اب جب اس سال پاکستان نے دوبارہ رپورٹ جمع کرانی ہے
مگر ایس ڈی جی گولز کے ٹارگٹس کو حاصل کرنے عمل میں مقامی حکومتی نمائندوں کو ساتھ نہیں ملایا جارہا، بلوچستان میں مقامی حکومتوں کے الیکشن کی مدت مکمل ہونے کے باوجود انتخابات نہیں کراے جارہے اور نہ ہی محکمہ لوکل گورنمنٹ کو موسمی تبدیلی کے اثرات کے نقصانات سے بچنے کی کوششوں میں شامل کیا جارہا ہے انہوں نے عالمی ادارے) ICIMOD (کی رپورٹ کا حولہ دیتے ہوئے بتایا کہ درجہ حرارت کے اضافے کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ اگلے پانچ دہائیوں میں ہمالیہ کے گلیشیرز کے زیادہ تر پگھلنے کا بھی اندیشہ ہے۔ جس کی وجہ سے نشیبی علاقوں میں پانی کے حوالے سے شدید مسائل اور چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔ آب و ہوا کی تبدیلی اور درجہ حرارت کے اضافے کی وجہ سے درج ذیل بڑے مسائل وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ گلیشیرز کے پگھلاؤ کی وجہ سے دریاؤں میں طغیانی اور سیلاب کے عمل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے نشیبی علاقوں میں واقع آبادیوں کو شدید خطرات واقع ہیں۔
۔ درجہ حرارت کے اضافے اور گلیشیرز کے پگھلاؤ کی وجہ سے یہاں گلیشیرجھیلوں (Glacial Lakes) کا قیام تیزی سے واقع ہو رہے ہیں۔ اس وقت قراقرم، ہندوکش اور ہمالیہ ریجن میں کم و بیش 5ہزار گلیشیر جھیلیں بن چکی ہیں۔ جن میں کم از کم 15جھیلیں انتہائی خطرناک صورت اختیار کر گئیں ہیں۔ ان گلیشیرز جھیلوں کے پھٹنے کی صورت میں ممکنہ سیلاب کے خطرات سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ یہاں کے لوگوں کے اندر درکار صلاحیتیں پیدا کی جائے۔۳۔ موسمیاتی اور آب و ہوا کی تبدیلیوں کی وجہ سے یہاں کے زراعت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پچھلے سال وقت سے کم از کم ایک مہینے پہلے اور ان گرمیوں میں درجہ حرارت میں اچانک اضافے کی وجہ سے دریاؤں میں طغیانی کی وجہ سے زیر کاشت زمینیں کٹاؤ کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے فصلوں کی بوائی اور کٹاؤ کا عمل بھی کافی حد تک متاثر ہو رہا ہے۔
۴۔ درجہ حرارت میں اچانک اضافے کی وجہ سے ندی نالوں میں طغیانی کی وجہ سے پانی میں مٹی اور ریت کے زرات کے اضافے کی وجہ سے پانی انتہائی آلودہ ہوگیا اور اس سال ہنزہ میں پینے کے پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ انتہائی آلودہ پانی دریائے سندھ کے ذریعے تربیلہ جھیل میں Siltکے جمع ہونے کا بڑا ذریعہ بھی بن رہا ہے۔ جس کی وجہ سے جھیل کے حجم اور پن بجلی کی پیدا وار بھی متاثر ہو رہی ہے موسلادھار اور طوفانی بارشوں کی وجہ سے پہاڑوں کے تودے گرنے اور سلائیڈز کے واقعات سے لوگوں کے جان و مال کے ضائع ہونے کے بڑھتے ہوئے خدشات بھی تبدیلی آب و ہوا سے منسلک ہے۔
۶۔ نالوں میں سیلاب اور طغیانی کی وجہ سے پن بجلی پیدا کرنے والے پاور ہاؤس کو پانی فراہم کرنے والے چینلز کے ٹوٹنے اور پانی میں بہنے کی وجہ سے ہائیدرو پاور جنریشن کے منصوبے بھی متاثر ہورہے ہیں۔