|

وقتِ اشاعت :   June 5 – 2021

آج دنیا بھر میں ماحول کے تحفظ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں میں زمین کے وسائل، ماحول، اور فطرت کے تحفظ کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہے، اس سال عالمی یوم ماحولیات کی تھیم”قدرتی ماحول کی بحالی“ رکھی گئی ہے۔ عالمی سطح پر حکومت پاکستان کی جانب سے قدرتی ماحول کی بحالی کے لیے شروع کردہ دس بلین ٹری منصوبے کو عالمی سطح پر سراہا جارہا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان آج کے اس عالمی یوم ماحولیات کی میزبانی کررہاہے،جس سلسلے میں مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جارہاہے۔

میراضلع لسبیلہ قدرتی حسن و فطرت کی رنگینیوں سے مالامال ہے جہاں آپ کو سمندر،صحرا،جنگلات، پہاڑ گویا قدرت کی ہر شہکار ملے گا،لیکن جہاں دنیا بھر کو جو ماحولیاتی مسائل کا سامناہے، ہم بھی موسمی تغیرات کا تیزی کے ساتھ شکار ہورہے ہیں جس کے بگاڑ میں ایک بڑا ہاتھ ہم انسانوں کا اپنا بھی ہے،آج جب پوری دنیا میں ماحول کے تحفظ کے عالمی دن پر مختلف فورموں پر بات کی جارہی ہے تو ہمارے ہاں لسبیلہ یونیورسٹی،ادارہ تحفظ ماحولیات،کاکاز گارڈن وانگ و دیگر اداروں کے زیراہتمام اس دن کو منارہے ہیں،جو کہ لسبیلہ کے ایک بہتر سماجی حسن کو ظاہر کرتاہے

لسبیلہ میں موسمیاتی تغیرات و ماحولیاتی مسائل کاکس قدر سامنا ہے اس کا جائزہ آپ حب کی صنعتی آلودگی،پینے کے صاف پانی کے مسائل،گڈانی کے ساحل پر لنگرانداز دیو قامت جہاز سے نکلنے والے زہریلی مواد سے انسانی جانوں و سمندر حیات کو خطرات،سونمیانی و گڈانی کے ساحل پر سمندری کٹاؤ،میانی ہور میں تمرکے جنگلات کی کمی،وندر کے روڈ پر مچھلی کے گندکی فیکٹریوں کی آلودگی،کنڈ ملیر کے ساحل پر سیاحوں کی طرف سے پھیلائے گئے گندگی کے ڈھیر،اوتھل میں زیر زمین پانی کے گرتے ہوئے واٹر ٹیبل،بیلہ میں جنگلات کی کٹائی،زرعی ادویات کی زیادہ استعمال کے باعث جنگی حیات کا نایاب ہوجانا شامل ہے۔

لسبیلہ میں اس طرح کی جنگلی حیات کے تحفظ پر گزشتہ دنوں بین الاقومی ادارے ڈبلیوڈبلیو ایف نے ”تحفظ انڈین پینگولین” کے عنوان سے صحافیوں کے لیے سرکٹ ہاؤس اوتھل میں ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا جس میں ڈبلیوڈبلیو ایف کی منیجر کنزرویشن حمیراعائشہ نے لسبیلہ و مکران میں پینگولین کی نایاب نسل کی بقاء اور تحفظ کے اقدامات کی با ت کی ہے۔انہوں نے بتایاکہ پینگولین کی غیر قانونی اسمگلنگ خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، انڈین پینگولین کا شمار دنیامیں سب سے زیادہ اسمگل کئے جانے والے جانوروں میں ہوتاہے ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ایک ملین سے زائد تعداد میں ہرسال پینگولین کی اسمگلنگ ہوتی ہے،انہوں نے مزید کہاکہ پاکستان کے کچھ علاقوں میں انڈین پینگولین کو ایک خطرناک جانور(گورپٹ) سمجھ کراسکی نسل کشی کی جارہی ہے حالانکہ گورپٹ ایک الگ جانورہے۔

انڈین پینگولین خیبرپختوانخواہ،سندھ اور بلوچستان میں پایا جاتاہے اور زرعی علاقوں میں یہ جانور زیادہ پایا جاتاہے یہ مٹی کی زرخیزی میں اہم کردارادا کرتاہے۔ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مس حمیرا عائشہ نے مزید کہاکہ پاکستان میں انڈین پینگولین کی چاراقسام پائی جاتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جارہاہے اور جنگلی حیات کی

غیرقانونی اسمگلنگ بڑے زوروشور سے جاری ہے قدرتی وسائل کو بے دردی سے ختم کرنے اور جنگلی حیات کی غیرقانونی اسمگلنگ کو روکنے کیلئے حکومت اور عام شہریوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ماحول کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا ورنہ نایاب جنگلی حیات کی بقاء خطرے میں پڑجائے گی اور غیر قانونی اسمگلنگ سے ملک کی بدنامی ہوگی انہوں نے کہاکہ ہمارا رویہ جانوروں سے محبت کا ہونا چاہیے نہ کہ اسے خطرہ سمجھ کراسے ماردینا چاہیے کیونکہ جانورقدرت کا ایک انمول تحفہ ہیں اور جانور قدرتی ماحول کیلئے ناگزیر ہیں۔

جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ڈبلیو ڈبلیو ایف جیسے اداروں کی کوششیں قابل قدر ہیں جس سے عوام کے اندر شعوری عمل بیدار ہوگا اور وہ بھی ان جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اپنی سوچ کو تبدیل کریں گے، کیونکہ زندگی میں توازن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ زمین پر موجود تمام جانداروں کی بقا قائم رہے۔ کسی ایک جاندار کو بھی خطرہ ہوگا تو پوری زمین خطرے میں ہوگی کیونکہ تمام جاندار اور وسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

اگر جنگلی حیات کی نایابی کی بات کی جائے تو بیلہ میں اندر کوئے،چیل،طوطے اور شہد کی مکھی کا منظرعام سے غائب ہوجانا سوالات کو جنم دیتاہے، جس کی ایک بڑی وجہ فضلات پر ز رعی ادویات کا بے دریغ استعمال بتایا جاتاہے،، ایسے واقعات کا رونما ہونا اس بات کو یقینی بنارہاہے کہ انسان کے ہاتھوں فطرت کاقتل عام ہورہاہے اور یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی جاندار کو بغیر کسی وجہ کے پیدانہیں کیا،اگر ہم اسی طرح فطرت کے کاموں میں جانے یا انجانے میں مداخلت کرتے رہیں گے تو یہ دھرتی اپنا انتقام ضرور لے گی۔

دوسری طرف ہم دیکھیں کہ ایک ایسے موقع پرجب پاکستان کو ماحولیات کے عالمی دن کی میزبانی کا موقع ملا ہے انہی دنوں میں گڈانی کے ساحل پر خطرناک زہریلی مادے سے لدھی ہوئی بحری جہاز ٹونٹے کے لیے لنگر اندازہے جس کو دوسرے ملک لینے سے انکار کرتے ہیں،کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ اس خطرناک مواد والے جہاز کو توڑنے کے عمل سے خارج ہونے والی آلودگی انسانی صحت کے ساتھ ساتھ سمندری حیات کے لیے بھی خطرات کا باعث بنے گی،لیکن یہ ہمارا پاکستان ہے جہاں کسی کو کوئی فکر نہیں۔کئی دن گزرجانے کے باوجود بھی اس کی رپورٹ منظر عام پرنہیں آئی،نہ ہی کسی ذمہ دار کا تعین ہوسکا ہے اور نہ ہی یہ معلوم ہوسکا کہ اب اس زہریلی مواد کو کس طرح تلف کیا جائے گا،لہذا ذمہ دار اداروں کو بھی ذمہ دارانہ رویوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

لسبیلہ میں گزشتہ کچھ عرصے سے سیاحت نے کافی فروغ پایا ہے،سیاح دوست تفریح کے لیے مختلف سیاحتی مقامات پر نکلتے ہیں جہاں پر اکثر دیکھنے میں آیا ہے خاض کر کنڈملیر،و گڈانی کے ساحل پر یہ سیاح ساحل پر جاتے جاتے گندگی کے ڈھیر لگادیتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں سیاحت میں اضافہ ہو رہا ہے وہاں پرماحولیاتی آلودگی بھی بڑھ رہی ہے۔ اسی لئے آج کل اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ سیاحت کو ماحول دوست ہونا چاہئے،لہذا ایسے علاقے میں ماحول دوست سرگرمیوں کے فروغ پر روز دینے کی ضرورت ہے

لسبیلہ میں قانونی و غیر قانونی طریقوں سے جنگلات کی کٹائی کا عمل عرصہ داز سے جاری ہے جس پر اکثر اوقات سول سوسائٹی آواز بلند کرتی رہتی ہے دوسری طرف حوصلہ افزاء اور خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ محکمہ جنگلات نے لسبیلہ میں بلین ٹری منصوبے کے تحت اوارہ اوتھل اورحب ڈیم کے مقام پر 220 ایکٹر زمین پر تقریباً ایک لاکھ کے قریب درخت لگائے ہیں اور گزشتہ سالوں میں نرسری کے ذریعے کوئی پانچ لاکھ پودے شجرکاری کے لیے مختلف اداروں کے حوالے کیے ہیں۔
دنیا بھر میں موسمی تغیرات کے بڑھتے ہوئے اثرات سے نمٹنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ ہم فطرت اور ماحول کے بارے میں اپنے مثبت رویوں کو فروغ دیں۔حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم کسی سیارے پر صاف پانی، تازہ ہوا، متنوع پودوں اور حیوانات کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں زمین کی زندگی کی حفاظت کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا ہوگی۔ ماحول دوست ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس طریقے سے زندگی بسر کی جائے جو زمین کو نقصان پہنچانے کے بجائے اس کی حفاظت کرے اور جب اس کے آس پاس کی دنیا کو نقصان پہنچے تو اس موضوع پر بات کریں۔